"ہیلو ڈارلنگ آئسکریم کھانے چلو گی"
ہیں کیا؟" پھپھو نے فون اٹھاتے ہی حیرت سے پوچھا"
"میں نے کہا آیسکریم کھانے چلو گی ڈارلنگ"...
مردانہ آواز نے زرا شوخا ہو کر کہا۔
"اپنی ماں نوں کھلا"
کہہ کر پھر پھپھو نے وہ تمام صلواتیں سنائیں جو اگر سنسر بورڈ سن لیتا تو ساری گفتگو پر ہی "ٹوں" کی آواز لگ جاتی ۔۔۔
ان دنوں ہمارے گھر ڈیجیٹل ڈائیل والا فون نیا لگا تھا۔ لہذا پی ٹی سی ایل پر ہی کبھی کبھی کوئی منچلا رانگ نمبر ڈائل کر لیتا۔ اور عموما یہ کال خالصتاً قسمت اور بہادری پر ہی منحصر تھی کہ آگے سے کون اٹھائے گا اور کیا جواب دے گا۔ لڑکیاں اس وقت ابھی اتنی بہادر نہیں تھیں لہذا زیادہ تر گھبرا کر فون رکھ دیتی تھی۔ پھر لڑکے بار بار ٹرائی کرتے اور کبھی کہیں کسی کونے میں "خونی اور فونی" محبت پروان چڑھ ہی جاتی۔ تب لوگ زندگی قلمی دوستیوں پر بھی گزار لینے کو تیار تھے۔ فون پر آواز سن لینا تو پھر بڑی نعمت تھی۔
محض نسوانی آواز ہی کئی دلوں کے تار ادھر ادھر کر دیتی۔ مگر ہماری پھپھو سے کوئی ایسی ویسی بات کر کے کہاں ہی بچ سکتا تھا۔ پھپھو جب تک اس کے ماضی کی ناقابل اشاعت داستان اور مستقبل کا عبرتناک حال بیان نہیں کر لیتیں تب تک اگلے کی ہمت فون کاٹنے کی بھی نہیں ہوتی تھی۔ سوری سوری کر کے بات ختم کرنی پڑتی کیونکہ آپریٹر کو فون کر کے نہ صرف نمبر ٹریس ہو سکتا تھا بلکہ بل پر لکھا بھی آتا تھا۔ لہذا اکثر عاشقوں کی ناکام محبت کی ذمہ دار ہماری پھپھو ہی تھیں۔
عشق کا کیڑا ہر دور میں کاکروچ کی طرح مارنے کی بھرپور کوشش کے باوجود پلتا ہی رہا ہے اورعاشق بھی ہر دور میں نت نئی ایجادات سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ پہلے خط و کتابت کا زمانہ تھا ۔ ایک خط پہنچانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ کبھی کسی بچے کو چاکلیٹ یا دو روپے کا لالچ دو تو کبھی کسی سہیلی پر داؤ لگانا پڑتا کہ دغا نہ کرے گی۔ پکڑے جانے پر معشوق کی ڈولی اٹھنا لازم ۔۔۔ اور زمانے بھر کا طوق الگ سے عاشق کے گلے میں ڈال دیا جاتا۔ یوں وہ گویا اچھوت ہو کر امر ہو جاتا۔ پھر ساری زندگی بیگم ناکام محبت کے طعنے دیتی گزارتی۔۔
ہم سب بھی شرارتی بچے تھے۔ فون سننا اور کرنا بھی ایک عیاشی سا لگتا۔۔۔ جب گھر کوئی نہ ہوتا ۔۔موقع پا کر ادھر ادھر نمبر ڈائل کر کے الٹی سیدھی باتیں کر کے رکھ دیتے۔ کہیں بھی فون ملا دیتے اور آگے سے ہیلو سن کر کہتے "جی میں فلاں زو سے بندر بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ ڈڈو ہیں" اور ٹھک سے فون بند۔ کھی کھی کھی۔۔۔
ایک بار فون رکھتے ہی گھنٹی بجی۔ فورا اٹھایا۔ آگے سے جلالی آواز میں تنبیہ آئی کہ آئندہ ایسا فون کیا تو نہ صرف گھر والوں کو شکایت لگائی جائے گی بلکہ گھر پہنچ کر ٹھکائی کا بھی مناسب بندوبست کیا جائے گا۔ اور پھر گھر کا پتہ بمعہ اہل و عیال ہمارے کانوں میں پہنچایا گیا۔ ہم سب بچے تھے سو ڈر گئے۔ بہت عرصے بعد سمجھ آئی کہ کال آپریٹر کو ہی لگ گئی تھی۔
خیر عاشقوں کی طرف واپس آتے ہیں ۔ عشق ہر دور میں ہی کٹھن رہا ہے۔ فون متعارف ہونے کے کئی سالوں بعد جب یہ خبر پھیلی کہ آپرٹیر ساری گفتگو سن سکتے ہیں ۔۔۔ تب کئی عاشقوں کی رگوں میں "کاٹو تو بدن میں لہو نہیں" والا حساب تھا ۔ جنہیں وہ راز و نیاز سمجھ کر کرتے رہے وہ باتیں تو نقارہ خدا نکلیں ۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے تصویر والے فون سے کسی کا ایم ایم ایس لیک ہو جائے۔
پہلے عاشق جان جون کہہ کر ہی عشق چلایا کرتے تھے۔ یہ س•کس سوکس کی باتیں اتنی زبان زدعام نہیں تھیں۔۔ کیونکہ خواتین بھلے گندی گالیاں دیں لیں مگر ایسی بےشرمی کی باتیں اپنے شوہر سے کرنا بھی اپنے دامن پر داغ سمجھتی تھیں ۔۔۔ یہ تو بھلا ہو آج کل کے عطائیوں کا۔۔۔۔ انٹمیسی کہہ کر اسے شرافت کا لبادہ اوڑھا دیا ۔۔
پھر فون کی جگہ موبائل نے لے لی اور عاشقوں نے نائیٹ پیکجز سے کام چلایا۔ جب اور جو جی چاها بات کی۔۔۔
اب ایڈوانس زمانہ ہے۔ نہ پکڑے جانے کا خوف نہ ہی رسوائی کا ڈر۔ انبکس میں چپکے سے دس جگہ جا کر ٹرائی کرو۔ کہیں کسی نے کوئی سکرین شاٹ لگا بھی دیا تو "یہ میں نہیں ہوں۔ میرا تو اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا" کہہ کر بات ٹالی جا سکتی ہے۔ بعد میں ایک پوسٹ لگا دیں کہ اگر میرے نمبر سے کوئی نازیبا ویڈیو بھیجی گئی ہے یا پیسوں کی درخواست آئی ہے تو وہ میں نہیں تھا۔ حالانکہ وہی تھے۔
