میں یہ واضح کرتی چلوں کہ میں ناں تو جوائنٹ فیملی کے حق میں ہوں ناں خلاف ۔۔۔ہر ایک کی اپنی چوائس ہے کہ وہ کس طرح رہنا چاہتا ہے اور کس طرح خود کو کمفرٹیبل سمجھتا ہے ۔۔۔۔
دوسرا یہ بات کو مکمل طور ڈرامے کے متعلق نہیں ہے ۔ یہ اوور آل معاشرے کے بارے میں ہے ۔
کل ڈرامہ جمع تقسیم میں یہ صاحبہ خواتین کے حقوق بتا رہی تھیں کہ بہو پر شوہر کے والدین کی خدمت فرض نہیں ۔۔ سو فیصد درست۔۔ کوئ شک نہیں ۔ لیکن معلومات پوری دی جائیں تو بہتر ہوتا ہے ۔
ایک شخص بحث کر رہا تھا کہ کتا کھانا اسلام میں حلال ہے ۔۔کہتا کہ میں نے خود مسجد میں مولوی صاحب سے سنا ہے کہ کتا کھانا حلال ہے ۔۔۔
لوگ اس کو لے کر اسی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس گئے کہ آپ نے ایسی بات کیوں کہ کہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں ۔
مولوی صاحب نے اس آدمی سے پوچھا کہ تم نے مجھ سے یہ بات کب سنی ؟
تو اس آدمی نے جواب دیا کہ میں مسجد کے پاس سے گزر رہا تھا تو میں نے آپ کی یہ بات لاؤڈ اسپیکر پر سنی ۔۔
مولوی صاحب نے سر پکڑ لیا اور کہا کہ خدا کے بندے۔ بات پوری تو سن لینی تھی۔ گزرتے ہوئے آدھا ادھورا فقرہ سنا اور اسی پر ایمان لے آئے۔
جب میں نے کہا کہ کتا کھانا حلال ہے تو اس سے پہلے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تین دن کی بھوک اگر ہو تو کتا کھانا حلال ہے ۔۔
آدھی معلومات دین کے ساتھ دین دنیا کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں ۔۔۔
سو اس سین کے متعلق یہ کہنا تھا کہ بہو پر شوہر کے ماں باپ کی خدمت فرض نہیں لیکن بیٹے پر تو اپنے ماں باپ کی خدمت فرض ہے نا۔۔۔
اب ہوتا یہ ہے کہ مرد باہر کے کاموں میں لگ کر ماں باپ کو مکمل طور پر اپنی بیوی کے حوالے کر دیتے ہیں کہ میری جگہ تم ان کی خدمت کرو۔۔
اب بہو اگر یہ خدمت کرتی ہے تو یہ اس کا حسن سلوک کہلائے گا۔ بات وہی ہے کہ اس پر فرض نہیں ہے ۔
لیکن شوہر کی آسانی اور اس کا ساتھ دینے کے لیے وہ اگر یہ سب کرتی ہے تو شوہر کو بھی اس کا احسان مند ہونا چاہیے۔ جو کہ ہوتا نہیں ہے اور بہوؤں کا کام والی سمجھ لیا جاتا ہے جیسے یہ خدمت ان کے اولین فرائض میں شامل ہو۔۔۔
اب بہو چاہے تو جوائنٹ فیملی سے الگ ہو جائے۔ جس میں جیٹھ جٹھانی دیور دیورانی اور نندیں وغیرہ آتی ہیں۔ لیکن ساس سسر جوائنٹ فیملی میں شامل نہیں ہوتے۔۔
بہو ان سے بھی الگ ہونا چاہتی ہے تو بیٹا کم از کم الگ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اس پر فرض ہے کہ گھر ماں باپ کے پاس لے۔ صبح شام ان کے پاس حاضری دے ۔ ان کے راشن پانی اور اگر وہ محتاج ہیں تو ان کا نہلانا دھلانا خود کرے ۔ ان کے ہاتھ پاؤں دبائے۔ ان کے کھانے پینے علاج معالجے کا خیال کرے ۔۔۔ اور ان کے لیے کل وقتی ملازم کا بھی خیال کرے ۔۔
اب جو لوگ دو گھر چلانا افورڈ کر سکتے ہیں ان کے لیے تو سب آسان ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مڈل کلاس مردوں کے لیے ایک وقت میں دو گھر چلانا ممکن نہیں ۔ بل اور دوسرے خرچے اتنے ہوجاتے ہیں کہ بیلنس رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔۔
اب کیا کریں۔
اب یہ کریں کہ جیسے اسلام کے ایک حکم پر فرض سمجھ کر عمل کیا گیا ہے کہ بہو پر ساس سسر کی خدمت فرض نہیں۔ ویسے ہی بہو اسلام کے باقی شعار بھی اپنائے۔۔
توکل کرے ۔ اپنے خرچے کم کرے ۔ لباس اور اطوار میں سادگی اپنائے۔ دو تین جوڑے کافی ہوتے ہیں ۔ کھانے میں بھی سادگی کافی ہوتی ہے ۔ برگر شوارما ضروری نہیں۔
ہر وقت اے سی میں رہنا بھی ضروری نہیں ۔۔ ملازمہ رکھنے سی بہتر کہ اپنے کام خود کرے ۔ ( اگر کوئ بیماری نا ہو تو۔ شدید بیماری الگ بات ہے) اپنے خرچے کم کرے تاکہ شوہر والدین کے لیے ملازم افورڈ کر سکے۔۔
اب یہ تو نہیں ہوسکتا نا کہ پانچوں انگلیاں بھی آپ کی گھی میں ہوں اور سر بھی آپ کا کڑاہی میں ہو۔۔۔
اس کے علاؤہ شوہر اگر دوسری شادی کرے تو اس پر بھی واویلا نا مچایا جائے کہ یہ حق بھی اسلام نے اسے دیا ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ بہو ساس سسر کے ساتھ خوشی سے رہنا چاہے ۔۔
الگ ہونے کا مطلب نہیں کہ آپ ایک ماں باپ سے ان کا بیٹا چھین لیں ۔۔ میانہ روی اختیار کریں۔ رشتوں میں بھی اور خرچوں میں بھی۔
آپ خدمت بھلے نا کریں لیکن شوہر کو روکنے کا آپ کو کوئ حق نہیں ۔
میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ الگ ہونے والی بہوئیں اپنے شوہروں تک کو ماں باپ سے ملنے نہیں دیتیں۔ بہت ہوا تو اتوار کے اتوار شوہر اکیلے چلے جاتے ہیں یا وہ ساتھ چلی جاتی ہیں۔ باقی پورا ہفتہ ماں باپ کا کچھ اتہ پتہ ہی نہیں ۔۔
جن والدین کے پاس مزید اولاد ہو اور وہ ساتھ رہتی ہو تو ان کے لیے آسانی ہوجاتی ہے لیکن اسکے باوجود ایک بیٹے کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی کہ وہ والدین کے پاس چکر نا لگائے یا انکی خدمت نا کرے یا ان کو خرچہ پانی نا دے۔ باقی رشتوں کی تو میں بات ہی نہیں کر رہی ۔ میں صرف والدین کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔
یہ سب کچھ مرد پر ڈپینڈ کرتا ہے ۔۔ اگر اس کی بیوی جوائنٹ فیملی میں نہیں رہنا چاہتی تو وہ اسے الگ گھر لے کر دینے کا پابند ہے لیکن ساتھ ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ اس کے والدین یا تو اس کے ساتھ رہیں اور وہ خود ان کی خدمت کرے یا اگر وہ الگ ہوں تو ان کے لیے ملازم کا بندوست کرے اور ان کی مکمل خبر گیری رکھے اور گھر اتنا پاس ہو کہ ایمرجنسی کی صورت وہ فوراً اپنے والدین کے پاس پہنچ سکے۔۔۔
اب ایک نیا سوال اٹھتا ہے کہ بچوں پر بڑھاپے میں والدین کی خدمت یا ان کی ذمہ داری اٹھانا فرض نہیں ۔ جیسا کہ آج کل ہر دوسری پوسٹ میں لکھا ہوتا ہے کہ والدین بچوں کو کیش کرواتے ہیں۔ اپنے بڑھاپے کا سہارا کیوں سمجھتے ہیں۔ ان سے اپنی پرورش کا بدلہ کیوں چاہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر میں الگ سے ایک پوسٹ کروں گی ۔
فی الحال جو لکھا ہے مجھے پتہ ہے کہ اس پر ہی بہت سخت کمنٹس آنے والے ہیں جن سے بحث کر کے ہی میری بس ہو جانی ہے ۔۔۔ 😁
جاری ہے ۔۔۔۔
نوٹ : جو مرد پہلے سے ہی سب کر رہے ہیں یا جو خواتین اپنے فرائض بخوبی سمجھتی ہیں اور رشتوں میں اعتدال رکھ کر چلتی ہیں یا جو بہوئیں سسرال میں ملازموں سے بھی بد تر حالات میں ہیں۔ یہ پوسٹ ان کے لیے ہرگز نہیں ہے۔ وہ سکون کریں