انیس سو چورانوے کی بات ہے کہ میں عید کی نماز پڑھ کر خوشی خوشی قدم بڑھاتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہوا۔ نئے کپڑے تھے۔ یہ الگ بات کہ ماں نے گلی گلی پھیری لگانے والے کابلی والے سے مزری ملیشیا کا کالا کپڑا اُدھار پر خرید کر خود سلوایا تھا تاکہ میں عید پر پہن لوں اور اسکول بھی جا سکوں۔
پلاسٹک کے جوتے تھے جو مجھے بہت پیارے لگتے تھے، پالش کی بچت الگ ہوتی تھی۔ جب حد سے زیادہ میلے کچیلے ہو جاتے تو گاؤں سے دو کلومیٹر دور ندی پر شام کو جا کر دھو لیتا اور اگلے دن چمکتے جوتے پہن کر اسکول جاتا۔ پیروں میں وہی پلاسٹک والے جوتے تھے، مگر چہرہ خوشی سے لال ہو رہا تھا کہ آج اماں نے گھر میں مرغی پکائی ہوگی۔
میرے جیب میں اماں کے لیے ایک سرپرائز تھا، پتاسے اور ٹانگری اماں کی پسندیدہ مٹھائی
میری عمر چودہ سال تھی۔ چھ بہنیں اور چار بھائی، میں سب سے بڑا تھا۔ لہٰذا وقت سے پہلے بالغ ہوگیا تھا۔ ذمہ داری کچھ یوں بڑھ گئی تھی کہ والد کی قلیل تنخواہ میں والدہ جب ضروریاتِ خوراک پوری کرتے کرتے ذہنی طور پر مفلوج سی ہوجاتی تھیں، تو میں ہی ان کا سہارا بنتا۔ گاؤں کے واحد دکاندار چاچا سے پانچ سال کی عمر میں آٹے دال کا اُدھار مانگتے مانگتے بڑا ہو چکا تھا۔
ابا کی ساڑھے چار ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کا منی آرڈر جب گاؤں کے ڈاک خانے میں آتا، تو دو دن تک پیدل تین کلومیٹر دور پہاڑوں میں واقع ڈاکیے کے گھر جاتا، مگر وہ ٹرخا دیتا کہ کل آنا، پیسے مل جائیں گے۔ وہ ہمارے پیسے اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر لیتا تھا۔ پیسے ملتے ہی دکاندار کا حساب چکتا کیا جاتا، اور پھر اُدھار کا نیا کھاتہ شروع ہو جاتا۔
ماں کا پھٹا آنچل ہمیشہ پھٹا ہی رہا۔ وہ جون جولائی کی گرمی میں بھی تپتی زمین پر ننگے پاؤں ندی پر کپڑے دھونے جاتی تھی۔ سر پر دو مٹکے، پہلو میں ایک مٹکا لٹکا کر میلوں دور سے پانی بھر لاتی اور پھر کام میں جت جاتی۔ ماں کے پیروں کے تلوے اتنے سخت ہو چکے تھے کہ کانٹا چھبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پورے گاؤں میں مشہور تھا کہ نصیباں کے پیر گوشت پوست کے نہیں، پتھر کے بنے ہیں۔
علی الصبح وہ ہمیں سوتا چھوڑ کر گاؤں کی عورتوں کے ساتھ ننگے پاؤں، رومال میں سوکھی روٹی اور پیاز باندھ کر پہاڑوں پر لکڑیاں کاٹنے چلی جاتی، اور واپسی میں سر پر گیلی لکڑیاں لاد کر دوپہر کو آتی۔ پھر کھانا بناتی اور ہمیں کھلاتی۔
ماں کو میٹھا بہت پسند تھا۔ گاؤں میں اگر کسی کے ہاں ولادت ہوتی تو ماں ضرور جاتی، کیونکہ پشتون روایت کے مطابق بچے کی پیدائش پر میٹھی گولیاں پتاسے اور آٹے سے بنی ہوئی انگلی برابر مٹھائی ٹانگری،بانٹی جاتی۔ اماں جھولی بھر کر گھر لاتی، ہمیں کھلاتی اور خود آنکھیں بند کر کے مزے سے کھاتی۔
مجھے یاد ہے، سال انیس سو پچانوے میں میری چھوٹی بہن "کاکو" کی ولادت قریب تھی۔ اماں نے مجھے گھر بٹھا کر تاکید کی کہ اپنی توجہ پڑھائی پر دوں اور بہن بھائیوں کی رکھوالی کروں۔ خود اسی حالت میں پڑوسنوں کے ساتھ گندم کٹائی پر چلی گئیں تاکہ پتاسے اور ٹانگری مل سکیں۔
اگلی صبح جب میں جاگا تو اماں کی گود میں میری ننھی منی بہن تھی۔۔۔
دوپہر کا کھانا پھر بھی اماں نے بنایا۔ لسی سے بنی ہوئی کڑھی، جو ہفتہ وار مینو میں چوبیس گھنٹے بعد لازمی بنتی تھی۔ اماں نے مجھے دکاندار کے پاس بھیجا کہ جاؤ، اُدھار پر پتاسے اور ٹانگری لے آؤ تاکہ وہ بھی گاؤں والوں کو دکھا سکے کہ نصیباں بھی کسی سے کم نہیں۔
مگر شام کو میں خالی ہاتھ آیا۔ دکاندار نے پچھلا اُدھار چکانے کو کہا تھا۔ اُس دن میں نے پہلی بار اماں کی آنکھوں میں نمی دیکھی۔
ہر مہینے ابا کا خط آتا۔ میں پڑھنا لکھنا جانتا تھا، سو اماں کا جواب بھی میں ہی لکھتا۔ اماں ہر خط کے آخر میں لکھواتی
“الحمداللہ بہت اچھا گزارہ چل رہا ہے۔”
میں جب “گزارہ” لکھتا تو ہاتھ کانپ جاتے کہ گزارہ کسے کہتے ہیں؟ مگر لکھ دیتا۔
اماں کی شادی سن اٹہتر میں صرف پانچ سو روپے کے عوض ہوئی تھی۔ ماں باپ نے اپنی غربت کا بوجھ کسی اور کے سر ڈال دیا تھا۔ بھائی نے جائیداد پر یہ کہہ کر ماں سے دستخط کروا لیے کہ پشتون روایت میں بہنیں حصہ نہیں لیتیں۔ میں نے کبھی ماموں یا نانا کو گھر آتے نہیں دیکھا۔ جب پوچھتا تو اماں کہتیں
“ان کا گھر چار کلومیٹر دور ہے، ابا کمزور ہیں، بھائی مصروف ہے، آجائیں گے کسی دن فارغ ہو کر۔”
سن انیس سو ننانوے میں ابا ریٹائر ہو گئے۔ پانچ لاکھ پینشن ملی۔ اماں نے کبھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔ پورا دن ابا سے کہتی رہیں کہ رقم دکھانا ضرور۔ زندگی میں پہلی بار میں نے اماں کو نیا دوپٹہ اوڑھے دیکھا، جو ابا نے لا کر دیا تھا۔ وہ سارا دن اتراتی رہیں، دیورانیوں کو جلانے کے بہانے۔ اُس دن گھر میں گوشت بھی پکا تھا۔
اگلے دن ابا نے اعلان کیا کہ گیارہ بچوں کو پال کر اماں بوڑھی ہوگئی ہے، اس لیے وہ دوسری شادی کر رہے ہیں۔
دادا اور چچا نے فائرنگ کر کے گویا اجازت دے دی۔
ماں کو میں نے اُس دن پہلی اور آخری بار ہچکیاں لیتے دیکھا۔
چھوٹے بہن بھائی خوش تھے کہ اب گھر میں خوشیوں کے ڈھول بجیں گے۔
ابا دوسری دلہن لے آئے۔
اماں بھاگ کر دوسرے کمرے میں جا چھپیں۔
رشتہ داروں نے اماں کو پشتون ولی کا سبق پڑھایا کہ پشتون بیویاں جی دار ہوتی ہیں، نئی دلہن کا استقبال مسکراہٹ سے کرتی ہیں۔
اماں مرے مرے قدموں سے دلہن کے پاس گئیں، گلے سے لپٹ گئیں، دونوں رونے لگیں۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ وہ رونا کس چیز کا تھا۔
اسی دوران کسی نے اماں کو ٹانگری پکڑا دی۔
ماں سب کچھ بھول کر خوشی خوشی ٹانگری کھانے لگیں۔
سال دو ہزار پندرہ
میں نے اپنی نئی ماڈل کی گاڑی پشاور کینٹ کی مشہور مٹھائی کی دکان کے سامنے روکی۔
اماں کو سہارا دے کر میں اور میری شہری بیگم نے گاڑی سے اتارا۔
دکان کے اندر گیا اور پوچھا:
“اماں، کون سی مٹھائی پیک کروا دوں؟”
وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے مسکرائیں، چہرے کی جھریاں مزید گہری ہو گئیں، بولیں
“بیٹا، ان سے کہو پتاسے یا ٹانگری مل جائیں گے؟”
میرے دل میں کہیں دور چھناکے کی آواز گونجی۔
میں نے اماں کے ہاتھ چوم کر کہا
“کہو تو پوری دکان خرید لوں؟”
دکاندار نے پتاسے اور ٹانگری کا ٹوکرا اماں کے سامنے رکھا۔
ماں نے کپکپاتے ہاتھوں سے ایک ٹانگری اٹھائی اور منہ میں رکھ لی۔
میری بیگم نے بھی اماں کی تقلید میں ایک ٹانگری اٹھائی، مگر جیسے ہی وہ منہ تک لے جانے لگی،
میں نے اُس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا
اور ٹانگری واپس ٹوکرے میں رکھ دیا۔