بچوں کو طلاق دینے والے باپ۔
طلاق بیویوں کو ہوتی ہے بچوں کو نہیں
سوتن بیویوں پہ لائی جاتی ہے بچوں پہ نہیں
پھر کیوں اور کیسے بچوں سے لاتعلق ہو جاتے ہو ظالمو۔۔
چند روز قبل جب ایک خاتون کی وڈیو لگائی جس کا شوہر دوسری شادی کرنے کے بعد پانچ بچوں کی ذمہ داری بیوی کے حوالے کر کے خود ہر ذمہ داری سے مکت ہو گیا تو انباکس کتنے ہی بروکن فیملیز کے بچوں اور کئی ایسی ہی خواتین نے آ کر اپنی اپنی دکھ بھری کہانیاں سنائیں۔
وہ کہانیاں بہت ہی تکلیف دہ تھی ۔
ماں کو طلاق ہوئی، باپ نے دوسری شادی کر لی اور ہم سے بھی ناطہ توڑ لیا۔
بے یارو مددگار چھوڑ دیا
کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا
بیٹی تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔۔
کسی عید ،تہوار پہ بھی نہیں پوچھتے کہ بیٹی کی بھی کوئی ضرورت ہو گی۔حالانکہ اچھے
خاصے ثروت مند ہیں۔
باپ نے دوسری شادی کی تو ماں کے ساتھ ہم سے بھی لاتعلق ہو گیا۔ہم اوپر والے پورشن میں رہتے ہیں جس کا دروازہ بھی الگ سے ہے۔باپ ہفتے میں ایک آدھ بار ہی اوپر چکر لگاتا ہے گھر میں کھانے کو کچھ ہے کہ نہیں رتی برابر فکر نہیں ۔
نانا نانی آتے ہیں اور راشن ساتھ لیکر آتے ہیں۔ سارا بوجھ انہوں نے ہی اٹھایا ہوا ہے۔
باپ صرف نام کا باپ رہا۔ خرچے کے نام پہ چند نوٹ وہ بھی کبھی کبھار دے جاتا ہے۔
والدین میں سیپریشن ہوئی تو باپ نے ہمارے خرچوں سے بھی ہاتھ اٹھا لیا۔
اپنے پاس رکھنے کا کہیں تو جواب ملتا ہے
میں ملازمت کروں یا تم لوگوں کو سنبھالوں۔۔
ماں کے پاس رہو گے تو یہ فکر نہیں ہو گی مجھے۔۔خرچے کا وعدہ کیا مگر مہینوں نہیں پوچھتے۔
ہم کہیں تو طعنے دیتے ہیں کہ
تم لوگوں کے تو خرچے ہی نہیں پورے ہوتے حالانکہ ہم چاروں بہن بھائی سرکاری سکول و کالجز میں پڑھ رہے ہیں اور کیسے گزارا کر رہے ہیں یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا اللہ۔
یا اللہ کیسے کیسے دردناک واقعات ہیں۔۔
کیسی اولاد ہے یہ۔۔
اور کیسے ایک باپ اپنی ہی اولاد سے اتنا لاتعلق ہو جاتا ہے صرف اس لئے کہ وہ اس عورت سے بھی پیار کرتے ہیں جو اس شخص کو پسند نہیں ؟؟
حالانکہ وہ ان بچوں کی تو ماں ہوتی ہے اور مائیں بھلا کس کم بخت کو پیاری نہیں ہوں گی۔۔
میں نے یہاں بھی اور عملی زندگی میں بھی اپنے اردگرد جتنے دوسری شادی کرنے والے مرد دیکھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں نکلا جس نے بیوی کیساتھ ساتھ بچوں کو بھی مکمل یا جزوری طور پر ڈس اون نہ کر دیا ہو۔یہ رویہ میرے لئے ہمیشہ سے تکلیف دہ رہا ہے۔
اکثریت بچوں کے خرچے پانی سے ہاتھ اٹھا لیتی ہے جیسے سیپریشن بیوی سے ہی نہیں بچوں سے بھی ہو گئی ہو۔
جس نے دوسری کی خاطر پہلی کو طلاق دے دی تو بچوں کو ماؤں کے حوالے کر کے ہر طرح کی ذمہ داریوں سے بھی لاتعلق ہو گیا جیسے بچے تو وہ عورت جہیز میں ساتھ لائی تھی۔
مطلب طلاق صرف بیوی کو نہیں بچوں کو بھی دے دی۔
اتنی سخت دلی کہاں سے لاتے ہیں ایسے مرد کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ہی فراموش کر دیں۔۔۔ہائے سچی کیا ان کا کلیجہ نہیں کٹتا؟؟
جو چند ایک خرچہ،ذمہ داری اٹھاتے نظر آئے ان میں سے خال ہی وہ تھے جو خوش دلی سے اپنی استطاعت برابر ذمہ داری اٹھاتے پائے گئے۔
زیادہ تر یا تو اخراجات کی مد میں اتنا کم دیتے ہیں کہ بچے ایک ایک چیز کو ترستے رہتے یا پھر وہ ہیں جو دیتے ہیں تو ایسے احسان جتا کر جیسے یہ بچے اپنی مرضی سے دنیا میں آئے ہیں ان کی ذمہ داری ہی نہیں۔کیونکہ اس عورت کے بطن سے جنے ہیں جو اب اس مرد کو پسند نہیں۔۔
اکثریت جو بیوی بچوں سے کہتے ہیں ساتھ رہو گے تو خرچہ دینے کو تیار ہوں بھی عملاً خرچے کے نام پہ سوائے چھت اور دو وقت کے روٹی کے کچھ نہیں دیتے وہ بھی بیوی سے گھر کے ملازمہ والا رول نبھانے کے بعد۔۔
بیویاں ایسے گھروں میں بس ملازمہ جیسی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں اور ان کے بچے بھی۔۔
اگر بیوی سوت کیساتھ نہیں رہنا چاہتی تو محض اس خوف میں اسے سوتن برداشت کرنی پڑتی ہے کہ صرف وہ ہی الگ نہیں ہو گی وہ شوہرجو بچوں کا باپ ہے وہ بچوں سے بھی لاتعلق ہو جائے گا۔ ان کے نان نفقے سے آزاد ہو جائے گا۔
اور اسے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کیلئے سوت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔۔کیوں؟
عورت کا حق ہے ایسے حالات میں شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو کر سکتی ہے کیوں اولاد کے بہتر مستقبل کیلئے اسے بلیک میل کیا جاتا ہے؟
اور یہ محض چند گھروں کی کہانیاں نہیں ہیں دوسری شادی کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے مرد کا عمومی چلن ہی یہی ہے۔
یا تو پہلی نظر انداز ہو گی یا پھر دوسری۔۔
دونوں کیساتھ انصاف کرے بلکہ انصاف تو پھر دور کی بات تھوڑا بہت توازن ہی رکھ پائے تقریباً ناممکن سی بات ہے۔
مرد کی کپیسٹی ہی اتنی ہے کہ ایک وقت میں وہ بس ایک کو ہی سنبھال سکتا ہے۔
یہی مرد کی بالخصوص ہمارے سماج کے مرد کی حقیقت ہے یہی ہماری گراؤنڈ رئیلیٹیز ہیں۔
دوسری شادی کو گلیمرائز و فینٹیسائز کرنے سے پہلے ان حقائق کو فراموش کرنے والے صریحاً بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں ہمارے ابا نے توازن رکھا انصاف کیا وہ اولاد کی نظر سے باپ کو دیکھتے ہیں اور اولاد کی نظر اپنے ماں باپ کیلئے ویسے ہی خراب ہوتی ہے جیسے ماں باپ کی نظر اولاد کے معاملے میں خراب ہوتی ہے۔
ایسے بچے اگر خود کو ماؤں کی جگہ پہ رکھ کر دیکھیں تو انہیں پتہ چلے سچائی کیا تھی۔کتنا انصاف کیا تھا ان کے باپ نے، کتنا توازن رکھ پائے تھے وہ بیویوں کے بیچ۔
اس بظاہر انصاف کے پیچھے کسی ایک عورت کی اپنے حق سے مکمل دستبرداری کی ایک اذیت ناک داستان موجود ہو گی۔اور یہ دستبرداری محض مادی اشیاء کیلئے نہیں ہوتی جذباتی و جسمانی ضروریات کیلئے بھی ہوتی ہے۔
ایسی خواتین نے زندگی جی نہیں ہوتی صرف سانسیں پوری کی ہوتی ہیں۔اپنی حیاتی کے کئی سالوں کی بس گنتی پوری کی ہوتی ہے۔
دوسری شادی کو مرد کا الٹی میٹ حق کہنے والے "انصاف" کے اس اصول کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور افسوس تو یہ کہ انہیں یہ ظلم بھی نہیں لگتا۔
دوسری شادی کی رخصت کو مرد کا شرعی حق سمجھنے والے "بچوں کی ذمہ داری مرد کا فرض ہے "
کے شرعی حکم کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔
دوسری شادی کو شریعت ،دین ،سنت کے تناظر میں رکھ کر اس کی بار بار ترغیب و تلقین کرنے والے بچوں کی پرورش کے معاملے میں مرد کے فرض اور ذمہ داری کو ثانوی حیثیت کیسے دے لیتے ہیں؟ کیسے یہاں آ کر یہ لوگ دین ،سنت ،شریعت کی بات کرنا بھول جاتے ہیں؟ انصاف جیسی بنیادی شرط کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
چاہے بیوی سے کتنی ہی ناچاقی کیوں نہ ہو مرد اس ذمہ داری سے الگ کیسے ہو سکتا ہے؟
مگر شریعت کی بات کرنے والے اس مقام پہ آ کر
عورت کے اندر ممتا ہوتی ہے
ماں تو قربانی کا سمبل ہے
صبر کی عظمت ،جنت کی بشارت، ایثار کی داستانیں سنانے لگتے ہیں۔۔
کیوں؟؟
کیوں ہے یہ دہرا معیار ۔۔
کیا مرد اپنے بچوں کی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہونے کا حق رکھتا ہے؟
کیا بیوی کیساتھ بچوں کو بھی "طلاق" دے سکتا ہے؟
