ذیل میں میں عصمت چغتائی کے ناول "ٹیڈی لکیر" (ٹیڑھی لکیر) پر ایک تند و تیز مگر دلیل پسند نقد پیش کر رہا ہوں: مقصد یہ ہے کہ ناول کے چند بنیادی دعووں اور ادبی حربوں کو چیلنج کیا جائے، اُن میں تضاد اُجاگر کیا جائے، اور یہ دکھایا جائے کہ مشہور نام کے سائے میں یہ متن کیوں کمزور پڑ جاتا ہے۔
سب سے پہلے مسئلہ وہ جنسی و سماجی بغاوت جو ناول کے ابتدائی حصوں میں نعروں کی شکل میں اٹھائی جاتی ہے، آخر کار عملی نتیجے میں کیوں کھو جاتی ہے؟ عصمت چغتائی ہمیشہ سے عورت کی خودمختاری اور جنسی خودارادیت کی وکیل مانی جاتی ہیں۔ مگر "ٹیڑی لکیر" میں، جب کردار میدان عمل میں آتا ہے تو وہ یا تو سابقہ موقف کا الٹ، یا مصلحتی طور پر نرم پڑ جاتا ہے۔ یہ تضاد محض فنکارانہ پیچیدگی نہیں، بلکہ بیانیاتی غفلت ہے: جب دلائل بلند کیے جائیں تو اُن کا منطقی انجام بھی دکھائیے۔ ناول قاری کو جذباتی طور پر بھڑکا دیتا ہے، مگر دماغی تسلسل میں درست سمت نہیں دیتا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بازار سے شور مچاتے ہوئے ایک نعرہ خرید لیا جائے، مگر گھر آ کر کپڑے جُھاجھل کر الماری میں رکھ دیے جائیں۔
دوسرا بڑا نقظہ پلاٹ کا ساختی کمزور ہونا ہے۔ ناول کئی مرتبہ ایک خاص موڑ پر "مزاحمت" یا "انقلاب" کا وعدہ کرتا ہے، مگر عموماً ان وعدوں کو ڈرامائی مگر سطحی واقعات سے پورا کیا جاتا ہے۔ یعنی کہانی کے پہلوؤں کو محنت سے تراشا نہیں گیا؛ وہ ایسے الجھے ہوتے ہیں جیسے کسی نے ٹانگیں جوڑ کر کہا ہو: "بس، یہی کافی ہے"۔ اچھا پلاٹ وہ ہوتا ہے جو کرداروں کی باہمی کشمکش سے خود بخود جنم لے، مگر "ٹیڑی لکیر" میں بعض اوقات مصنفہ خود مداخلت کرکے کشمکش کو مصنوعی طور پر بڑھا دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ قاری کو یقین نہیں ہوتا کہ یہ کشمکش کرداروں کا نتیجہ ہے یا مصنفہ کا تعمیری ہتھکنڈہ۔
تیسرا نکتہ اسلوبیاتی: عصمت چغتائی کی زبان میں کڑواہٹ اور گرمائش دونوں ملتی ہیں، مگر اس ناول میں بعض جگہیں ضرورت سے زیادہ بیانیہ وارِفتگی میں پھنس جاتی ہیں۔ ایک صاحبِ کلام ہونے کے ناطے، جب آپ کے ہتھیار خوبصورت جملے ہیں تو اُنہیں معقول معانی کے لیے استعمال کیجیے سجاوٹ کے لیے سجاوٹ بن جائے تو وہ صرف شبیہہ رہ جاتی ہے، نہیں تو خالی الفاظ کا کھیل۔ جہاں کہانی کا تقاضا سیدھی اور کھری گفتگو کا کرتا ہے، وہاں فلسفیانہ مصلحتیں قاری کو پارندہ بناتے ہوئے کہیں اور اڑاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ؟ پڑھنے والا چند صفحات کے بعد سوچنے لگتا ہے: "کتنی خوبصورتی، مگر مجھے اصل معاملے تک پہنچنے کیوں نہیں دیا جا رہا؟"
چوتھا اور نازک ترین اعتراض: سماجی طبقہ بندی اور طبقاتی شعور کی سطح۔ ناول ایک جانب عورتوں کی آزادی کی بات کرتا ہے، دوسری جانب اُس سماج کی پیچیدگیوں کو سطحی انداز میں کٹ کر دکھاتا ہے خاص طور پر طبقاتی فرق اور اقتصادی محرومی کے مسئلے پر۔ جب کسی تحرک کا مادّہ معاشی اور طبقاتی دباؤ ہو، تو صرف اخلاقی دلائل کافی نہیں رہتے۔ چغتائی کے چند کردار سماجی تناظر میں بذاتِ خود تضاد پیدا کر دیتے ہیں: وہ ایک طرف "آزادی" کی بات کرتے ہیں، اور دوسری طرف اپنی راحتِ نفس یا معاشرتی تشخص بچانے کے لیے وہی روایتی بندھن پکڑ لیتے ہیں جن کی نفی کی جارہی تھی۔ یہ تضاد اگر شعوری ہوتا تو پیچیدگی پیدا کرتا؛ مگر یہاں یہ اکثر محض ڈرامائی ضرورت یا کردار کشی کی آسانی معلوم ہوتا ہے۔
پانچواں نکتہ کردار نگاری کا معیار۔ اس ناول کے چند مرکزی کردار ایک جیسی خصوصیات کے حامل دکھائی دیتے ہیں: تمام ہی جذبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یا پھر اچانک موڑ پر ایک صفحے کی منطق جم جاتی ہے جو پہلے کہیں موجود نہیں تھی۔ حقیقی زندگی کے لوگ اتنے مؤثر اوپر نیچے نہیں ہوتے ان کے فیصلے، خوف، کمزوریاں وقت اور حالات کے تحت پنہ پنہ کر کے سامنے آتے ہیں۔ مگر یہاں کئی کردار اسٹیج کے نشانات پر قدم رکھ کر ایک سٹرکچرڈ ڈائیلاگ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے قاری کا تعلق کمزور ہوتا ہے؛ وہ محسوس نہیں کرتا کہ یہ کردار "جی رہے" ہیں، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار "بول رہے" ہیں، یعنی تخلیق کار کی آواز پہلے اور کردار کی حقیقت بعد میں۔
عصمت صاحبہ کے فین حضرات اگر یہ پڑھ رہے ہوں تو ایک خفیف ہنسی آ سکتی ہے—شاید وہ سوچیں کہ میں نے اُن کے محبوب ناول کو "ٹیڑھا" ثابت کرنے کے لیے خود ہی ٹیڑھی دلیلیں گھڑ لیں۔ خیر، اگر قاری کا لہجہ یہی کہے تو کہہ دیجئے: "مجھے تو دماغی فریم ورک میں چھید نظر آ رہا ہے، تمہارے نعرے کا واپس کر دیا جائے!" مگر طنز کے پیچھے دلیل ہے: عاشقِ نام کا اندھا پن نقد کو اندھا کر دیتا ہے۔ ادب کو بندھن کے طور پر عبادت نہیں کرنا چاہیے؛ اسے جِلا بخشنے کے لیے تنقید بھی ضروری ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو اکثر چھوٹ جاتا ہے: ناول کا اخلاقی موقف۔ عصمت چغتائی کی اکثر تحاریر میں اخلاقی پیچیدگی ہوتی ہے—یہ قابلِ تعریف ہے—مگر "ٹیڑی لکیر" میں کبھی کبھی اخلاق کا وزن متزلزل محسوس ہوتا ہے۔ مصنفہ بعض جگہ ایک واضح قدردانی کا اظہار کرتی ہیں، مگر چند صفحات کے بعد وہی موقف یا تو رَد کر دیا جاتا ہے یا اُسے کمزور کر دیا جاتا ہے؛ نتیجہ یہ کہ قاری کو سمجھ نہیں آتی کہ ناول آخر کس اخلاقی نقطۂ نظر کی طرف جھکتا ہے۔ ادب میں واضح اخلاقی بیانیہ ہونا لازم نہیں، مگر بیانیہ کا تسلسل اور دلیل ہونا ضروری ہے؛ بغیر دلیل کے اخلاقی جھکاؤ صرف جذباتی پیچھے پڑنے جیسا بن جاتا ہے۔
اس ناول کی قابلِ اعتراض ترین خوبی شاید یہی ہے کہ یہ بذاتِ خود ایک مضبوط موضوع کو اٹھاتا ہے مگر اُسے جُھٹلا دیتا ہے—نہ تو مکمل بغاوت، نہ مکمل مفاہمت؛ نہ مکمل طبقاتی سنگینی، نہ مکمل ذاتی کہانی۔ نتیجہ؟ ناول ایک مابین زمین (no-man’s land) میں کھڑا رہ جاتا ہے جہاں سے قاری کو کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کیفیت کا ادبی مطلب یہ ہے کہ ناول اپنی خود اعتمادی کو کھو بیٹھتا ہے: اتنا بڑا نام، اتنی خُوبصورت زبان، پھر بھی ایک کمزور علمی و منطقی بیس۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔
پھر بھی، سنجیدہ رہتے ہوئے میں یہ بھی تسلیم کروں گا کہ عصمت چغتائی نے بہت سی اہم دیواریں توڑیں؛ اُس کی زبان، اُس کا دل کثیر پذیر ہے۔ مگر ہر فن پارہ لازماً مقدس مانیے یہ غلط فہمی ہے۔ ادب تنقید کے لیے کھلا ہوا مکان ہے جہاں آپ دفاع کریں، مگر تنقید کو بھی سامنے آنے دیں۔ اگر "ٹیڑی لکیر" کے مداح بجھ چلے ہوں تو یہ کہنا درست ہو گا: یہ تنقید نفرت نہیں، تجزیہ ہے۔ مگر اگر واقعی کانوں سے دھواں نکلنے جیسی کیفیت پیدا کرنی ہے تو میرے پاس آخری لطیفہ بھی ہے—آپ حضرات دل کی دھڑکن تھروائیاں کم کر دیں، اور ناول کو دوبارہ پڑھیں، مگر اس بار سوالات کے ساتھ: یہ نعرہ کہاں سے آیا، اور یہ مظہر آخر کہاں گیا؟ جب پڑھنے والا سوال پوچھنے لگے تو ادب زندہ ہے؛ جب صرف عقیدت رہے اور سوال نہ ہو تو ادب مر جاتا ہے۔
"ٹیڑی لکیر" ایک طاقتور خیال کے ساتھ چلنے کی ناکام کوشش ہے۔ اس میں خوبصورت زبان اور بے باک خیال موجود ہیں، مگر وہ خیال اپنے آپ کو پوری طرح ثابت نہیں کر پاتا۔ ناول کے اندرانی تضادات، کردار نگاری میں سستی، اور مسئلے کے عملی پہلوؤں کی سطحی پیشکاری اسے عظیم ہونے سے روکتی ہیں۔ عصمت چغتائی کو کم تر قرار دینا میرا مقصد نہیں؛ میرے الفاظ اس لیے سخت ہیں کہ ایک بڑی قلم سے لکھی گئی ایک بڑی خامی کی جانب توجہ دلائی جائے۔ قاری کو چاہیے کہ وہ نہ صرف محبت کرے بلکہ معقول اعتراض بھی کرے تبھی ادب ترقی کرے گا۔
