وہ لوگ جن کے گھر نہیں —
اب ملبے، خواب اور یادوں کی بستیاں ہیں
غزہ کے لوگ اپنے گھر کی چابیاں ابھی تک سنبھالے ہوئے ہیں —
وہ چابیاں جو کبھی خوشیوں، اطمینان اور اپنی شناخت کی علامت تھیں۔
آج وہی چابیاں ملبے کے ڈھیر پر پڑے خوابوں کی یاد بن چکی ہیں۔
گھر اجڑ چکے ہیں، دروازے مٹی میں دفن ہیں، اور آسمان تکتے ہوئے چہرے
اب بھی ایک امید رکھتے ہیں — کہ واپسی ممکن ہے۔
---
چابیاں ہاتھ میں، خواب سرِ بازار؛
وہ اپنے خوابوں کو جیب میں رکھتے ہیں۔
چابیاں ان کی ہتھیلیوں میں ایک زندہ وعدے کی طرح ہیں۔
دروازے نہیں، مگر یقین موجود ہے۔
یہ وہ قوم ہے جس نے اینٹوں کے ملبے سے بھی اپنے ایمان کے چراغ جلائے ہیں۔
ان کی مٹی زخمی ہے مگر ان کی امید ہنوز زندہ ہے۔
---
ہم جو گھبرائیں زمانے سے تو گھر جاتے ہیں
جن کے گھر ہی نہیں ہوتے وہ کدھر جاتے ہیں؟
یہ سوال صرف ایک شعر نہیں،
غزہ کے ہر بچے، ہر عورت، ہر بوڑھے کے دل کی پکار ہے۔
جن کے گھر ملبے میں دفن ہوں،
جن کے صحن خاک میں تبدیل ہو جائیں،
وہ اپنی پناہ کہاں تلاش کریں؟
دنیا کے نقشے پر اُن کے لیے کوئی “پتہ” نہیں،
مگر اُن کے سینے میں ایک ٹھکانا اب بھی محفوظ ہے — یاد کا، ایمان کا، اور حوصلے کا۔
---
ہم کو ہے ناز بہت ضبط پہ اپنے لیکن
دل اگر ٹوٹے تو پھر اشک بپھر جاتے ہیں
غزہ کی ماؤں کے ضبط میں قیامت کی شدت ہے۔
وہ چپ چاپ اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاتی ہیں۔
بوڑھے باپ اپنے بچوں کے کھلونے مٹی سے نکال کر سینے سے لگاتے ہیں۔
ضبط ان کے وجود کا لباس ہے —
لیکن جب رات کی خاموشی دل میں اُترتی ہے،
تو اشک بپھر جاتے ہیں۔
یہ آنسو صرف غم کے نہیں، بلکہ یقین کے بھی ہیں۔
---
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
کبھی کسی قوم کا اتنا اجتماعی زخم نہیں دیکھا گیا۔
یہ خانہ بدوش، یہ بے گھر،
اب بھی اپنے “گھروں” کو پلٹ کر دیکھتے ہیں۔
خواہ وہ گھر راکھ ہو چکے ہوں،
ان کی یاد کا چراغ بجھا نہیں۔
بے گھری کے بیچ وہی چمک اب بھی زندہ ہے —
جو انسان کو انسان بنائے رکھتی ہے۔
---
🌾 سلیم کوثرؔ کی غزل — غزہ کے زخموں کا آئینہ
شاعرِ دل سلیم کوثرؔ نے ستمبر تا نومبر 2024 میں جو غزل کہی،
وہ دراصل اسی المیے کی آفاقی ترجمانی ہے۔
یہ محض اردو شاعری نہیں،
بلکہ اُس اجتماعی احساسِ بے وطنی کی عکاسی ہے جو
غزہ، شام، کشمیر، یا کسی بھی بے گھر انسان کے دل میں موجود ہے۔
گھروں سے باہر جدھر بھی جاؤ گے، ہر طرف بے گھری ملے گی
درونِ خانہ جو ساتھ رہتی ہے، وہ فضا دوسری ملے گی
یہ شعر بتاتا ہے کہ بے گھری صرف جسمانی نہیں —
یہ ایک نفسیاتی اور روحانی کیفیت بھی ہے۔
انسان جب اپنے اندر کے گھر سے نکل جائے،
تو پوری دنیا اُجڑ جاتی ہے۔
ہماری تاریخ لکھنے والوں نے ہم سے کب مشورہ کیا تھا
جہاں پہ تفصیل چاہیے تھی، وہاں پہ یہ سرسری ملے گی
غزہ کی تاریخ بھی اسی بے اعتنائی کا شکار ہے۔
جو لوگ زندہ درگور ہوئے،
جن کے خواب مٹی میں دفن ہوئے —
ان کی تفصیل کبھی لکھی ہی نہیں گئی۔
دنیا نے صرف سرسری نگاہ ڈالی،
اور آگے بڑھ گئی۔
یہاں محبت کے دشمنوں کا مزاج ازل سے یہی رہا ہے
جہاں چراغوں کا جشن ہوگا، وہاں ہوا سر پھری ملے گی
غزہ کے بچے جب چراغ جلاتے ہیں،
تو ہوائیں ان کے دشمن بن جاتی ہیں۔
مگر وہ پھر بھی روشنی کرتے ہیں،
کہ شاید کبھی یہ اندھیرا ٹوٹ جائے۔
ادھر اُدھر کے تمام منظر خزاں نے بے رنگ کر دیے ہیں
بس ایک فصلِ امید ہے، جو چہار جانب ہری ملے گی
اور یہی اس مضمون کی روح ہے —
کہ غزہ کے ملبے کے بیچ بھی امید کا سبز پودا موجود ہے۔
وہ فصل جو خون سے سینچی گئی ہے،
اب ایمان سے ہری ہو رہی ہے۔
---
امید کا گھر
غزہ کی بے گھری،
سلیم کوثرؔ کی غزل،
اور ان سب اشعار میں پوشیدہ صبر و یقین —
یہ تینوں ایک ہی صدا بن کر اُبھرتے ہیں:
کہ انسان کو مٹی سے محبت کبھی نہیں مرتی۔
ہم واپس آئیں گے —
اپنے گھروں میں، اپنی زمین پر،
اپنی چابیوں کے ساتھ۔
ملبہ، تاریخ کا نہیں —
مگر نئی زندگی کا بیج ہے۔
اور یہ لوگ، یہ خواب، یہ اشک —
سب ایک وعدہ ہیں:
کہ دنیا کے ہر بے گھر انسان کے لیے
ایک دن "گھر" ضرور بنے گا۔
