اپریل 2025 کا پورا مہینہ میں ایران کے شہروں کی جہانگردی کرتا تھا ۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ایران کے حالات کشیدہ ترین ھو چکے تھے ۔ اسی دوران ایران نے کثیر تعداد میں افغانوں کو ڈیپورٹ کرنا بھی شروع کر رکھا تھا ۔ مارچ میں یہ سلسلہ شروع ھوا اور جون کی ایران اسرائیل جنگ کے بعد اس میں شدت آ گئی ۔ میں نے باقاعدہ ایرانیوں سے افغانوں کی جلد بے دخلی کے مطالبات و گفت و شنید سنی ، ان کے شکوک و شبہات کا اظہار بھی سنا اور بعد ازاں بعینہٖ وھی صورتحال پیش نظر بھی آئی ۔
ایران کی فضا میں اب وہ سکون نہیں رہا جو کبھی تھا ۔ سڑکوں پر مزدوروں کی قطاریں چھوٹی ہوتی جا رہی ہیں اور افغان لہجوں کی بازگشت مدھم ہو چکی ہے ۔ یہ وہی افغان تھے جنہوں نے ایران کے کھیتوں میں فصلیں اگائیں ، سڑکیں اور بلند عمارات بناتے ھوئے پسینہ بہایا اور عمارتوں کے ستون کھڑے کیے ۔ سخت اور جانفشانی کے کام کرتے ھوئے دیکھا ، مگر اب وہی ہاتھ جو کبھی تعمیر کی علامت تھے ، سرحد کی سمت لوٹنے پر مجبور ہیں ۔
تہران کی چائے خانوں میں بات اب صرف ایک ہی موضوع پر ہے ، افغان پناہ گزین ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت کمزور ہو چکی ہے ، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ایرانی نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ۔ حکومت کہتی ہے کہ جب خود ایرانیوں کے لیے روزگار نہیں تو لاکھوں غیر قانونی افغانوں کو کب تک سنبھالا جا سکتا ہے ؟ افلاس کے بوجھ تلے دبے ملک میں ہمسایوں کی مہمان نوازی اب ممکن نہیں رہی ۔
لیکن کہانی صرف غربت کی نہیں ، سیاست کی بھی ہے ۔ ایران اور طالبان کے تعلقات پچھلے دو سالوں میں بداعتمادی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ ہلمند دریا کے پانی پر تنازعہ بڑھا ، ایران نے کہا کہ طالبان نے اس کا حصہ روک لیا ہے ۔ سرحد پر کئی بار گولیاں چلیں ، سپاہی مارے گئے، اور ہر واقعے کے بعد افغان مہاجرین پر دباؤ بڑھ گیا ۔ حکومت نے شاید سوچا کہ اگر لاکھوں افغان واپس بھیج دیے جائیں تو طالبان پر سیاسی دباؤ بڑھے گا مگر اس کھیل میں نقصان ان بے بس لوگوں کا ہوا جو نہ پانی کے جھگڑے سمجھتے تھے نہ سرحدی سیاست ۔
ایک اور وجہ قانونی حیثیت تھی ۔ ایران میں مقیم تقریباً آدھے افغانوں کے پاس کوئی رجسٹریشن نہیں تھی ۔ ان کے پاس نہ رہائشی کارڈ تھے نہ اقوامِ متحدہ کی دستاویزات۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ جو قانونی نہیں ، انہیں وطن واپس جانا ہوگا ۔ سرکاری اعداد کے مطابق کئی ملین افغانوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی ، جن میں عورتیں ، بچے ، مزدور ، سب شامل تھے ۔ ایک دن اعلان ہوا ، اگلے دن ٹرک اور بسیں بھرنے لگیں ۔
حکومت کی ایک اور تشویش سیکیورٹی تھی ۔ کچھ افغان گروہوں پر الزام لگا کہ وہ منشیات ، اسمگلنگ ، دہشتگردی اور جاسوسی میں ملوث ہیں ۔
بالخصوص ایران پر حالیہ امریکہ و اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ جنگ اور اس کے نتیجے میں ایرانی اعلیٰ قیادت کا بیک وقت مارے جانا ، ڈرون حملوں کو اندرونی مخبری کا شاخسانہ قرار دیا گیا جس کا کافی سے زیادہ شبہ ان افغانوں پر بھی کیا گیا جو قرین قیاس بھی تھا ۔ علاؤہ ازیں انٹیلیجنس اداروں نے رپورٹ دی کہ داعش خراسان کے بعض کارکن ایران میں داخل ہو چکے ہیں ۔ یوں ہر افغان مزدور مشکوک سمجھا جانے لگا ۔ یہ سیکیورٹی کا جواز عوام کے لیے قابلِ فہم تھا لیکن ان لاکھوں بے گناہ لوگوں کے لیے موت کا پروانہ بن گیا جن کی واحد غلطی یہ تھی کہ وہ افغان تھے ۔
سماجی ماحول بھی بدل چکا تھا۔ ایرانی عوام میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی تھکن پیدا ہو گئی ۔ سوشل میڈیا پر افغان مخالف مہمیں چلنے لگیں ، حتیٰ کہ بعض شہروں میں ان پر حملے بھی ہوئے ۔ عوامی دباؤ بڑھنے پر حکومت کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہ رہا ۔ اس نے کہا کہ اب وطن صرف ایرانیوں کے لیے ہے ۔
ایران پر مغربی پابندیاں پہلے ہی معیشت کو گرا چکی تھیں۔ تیل کی برآمد محدود ، ڈالر کی قدر بلند اور عوام کا صبر کم ہوتا جا رہا تھا ۔ ایسے میں افغان پناہ گزین ایک آسان نشانہ بن گئے ۔ حکومت کے لیے یہ ایک راستہ تھا عوامی غصہ کم کرنے کا ، جو اس نے اختیار کیا ۔
اور پھر ایک دن سرحدوں پر رش بڑھ گیا ۔ افغان قافلے مشہد ، زاہدان اور کرمان سمیت پورے ایران کی سڑکوں پر چلتے دکھائی دیے ۔ وہ سب اس مٹی کو الوداع کہہ رہے تھے جس نے انہیں پناہ تو دی ، مگر شناخت نہیں ۔ کم و بیش پندرہ سے بیس لاکھ افغانوں کو ایران نے واپس افغانستان بھیج دیا ھے ۔ میں نے وھاں دیکھا کہ ھزاروں افغانوں نے ایران میں باھم شادیاں کر رکھی ھیں نجانے ان کا کیا ھوگا ؟ پاکستان نے تو اس بابت سخت موقف اختیار کرتے ھوئے شادی شدہ افغانوں کو بھی واپس بھیجنے کا فیصلہ سنایا ھے جو بلاشبہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ھے ۔
افغانیوں کے جانے سے ایران تھوڑا ہلکا ضرور ہوا ، مگر اس کے ضمیر پر ایک نیا بوجھ آ گیا ۔ سیاست ، معیشت ، پانی ، اور سیکیورٹی ۔ یہ سب اپنے اپنے جواز رکھتے ہیں مگر ان کے درمیان انسانیت کہیں پیچھے رہ گئی ۔ وہ افغان جو کبھی ایران کے خوابوں کی عمارتیں بناتے تھے ، اب انہی عمارتوں کے سائے میں یادوں کی طرح رہ گئے ہیں ۔
یہی معاملہ افغانوں کے ساتھ دنیا بھر میں پیش آ رھا ھے ۔ یہ جبری بے دخلی کم و بیش دو کروڑ افغانوں کو اذیت ناک حد تک متاثر کر رھی ھے اور کرے گی ۔ بلاشبہ یہ بھی ایک انسانی المیہ ھے مگر افغانوں کو خود بھی سوچنا ھوگا کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ھو رھا ھے ؟
پاکستان میں بھی تو بعینہٖ یہی کچھ ان کے ساتھ کیا گیا ھے کم و بیش چالیس سے پچاس لاکھ افغانوں کو یہ ھجرت کرنی پڑ رھی ھے ۔ اس میں بہت بڑا قصور خود افغانوں کا بھی ھے ، نام نہاد ملی اور قومی غیرت کے نعرے ، جاہلانہ تصورات و روایات کے تحت تعلیم و شعور کے دروازے خود پر بند کر لئے ۔ ایران میں تو میں نے ان کی خواتین کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، جینز شرٹ میں ملبوس زندگی کرنے کے تمام شعبوں میں فعال بھی دیکھا ھے ۔
ایک اھم چیز جو میں نے بالخصوص نوٹ کی ھے وہ افغانوں کی دنیا بھر میں بالعموم پاکستانیوں سے سخت نفرت کرنا ھے ۔ یہ ایران میں بھی پاکستانیوں کو حقارت اور کم نظر سے دیکھتے تھے بلکہ بس چلے تو بلا وجہ الجھنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ میں کئی بار ان سے کنی کترا کر نکلا ھوں ۔ غالباً "ڈی پورٹ پراسس" کے باب میں آپ پڑھیں گے کہ افغانیوں کا ھم دو پاکستانیوں سے سلوک تو میں تا زیست نہیں بھلا پاؤں گا ۔ یقیناً سب افغانی ایسے نہیں ھیں مگر پردیس میں بہت سے دوستوں کے ان کی بابت تلخ تجربات مجھ سے مختلف نہیں ھیں ۔ یہ گینگ بنا کر رھتے ھیں اور گینگ ھی کی صورت میں بندا گھیرتے ھیں یا پھڈا ڈالتے ھیں ۔
دنیا بھر سے انہیں دیس نکالا دیا جا رھا ھے جو یقیناً باعث تاسف ھے مگر انہیں بحیثیتِ قوم اب غور کرنا چاھئے کہ ان کو اب اپنی جاہلانہ روایات و اقدار ، لسانی ، قومی اور مسلکی تعصبات ، شدت پسندی کو ترک کر کے جدید تعلیم و شعور کے ساتھ ایک باوقار ملک و قوم بننا ھوگا
نوٹ : یہ مضمون بھی بندہ کے زیر تحریر سفرنامے " مشاھدات ایران" کا حصہ ھے ۔ اپنی رائے ضرور دیجئے گا
