گونگی سسکیاں(افسانہ) زوبیہ حسیب

وہ دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے، سر جھکائے روتی چلی جا رہی تھی۔ کمرے میں نیم تاریکی کا عالم تھا۔ دائیں دیوار میں ایک چھوٹی سی چکور کھڑکی سے روشنی کی کرنیں اندر آنے کو بے تاب تھیں، مگر ململ کا بوسیدہ پرانا پردہ اسے روکنے میں کامیاب تھا۔

بہت رونے کے بعد جب اس کا سر درد سے پھٹنے لگا اور جان بھوک سے نڈھال ہونے لگی، تو اس نے گھٹنوں سے سر اٹھایا اور کمرے کا جائزہ لیا۔ کمرے میں مکمل اندھیرا پھیل چکا تھا، جو گہری رات کی گواہی دے رہا تھا۔ اُس نے پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے سختی سے اپنے رخسار رگڑے اور باورچی خانے کا رخ کیا۔ دائیں کونے میں رکھی پرانی، خالی فریج تنگدستی اور بے روزگاری کا پتہ دے رہی تھی۔ لکڑی کی چکور الماری میں چمکتے برتن سلیقہ مندی کی آخری علامت تھے۔ اُس نے فریج کو ٹٹولنے کی کوشش کی، مگر ندارد, بے بسی سے دالان میں آ کھڑی ہوئی۔

ذہن ڈھیروں سوال لے کر کھوپڑی میں بیٹھا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ فیصلے کی ایک لہر لہو بن کر اس کے وجود میں دوڑ گئی۔ اس نے بیرونی دروازے کا رخ کیا۔ اب وہ سیدھا چلتے ہوئے قدم بڑھا رہی تھی۔ اس کا وجود عجیب، بے حس، مظلوم اور حوص زدہ نظروں کا بوجھ خود پر محسوس کر رہا تھا. 

چلتے چلتے وہ ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا پہنچی۔ عمارت کا اندرونی حصہ خوبصورت اور آراستہ تھا۔ وہ اپنے ارد گرد موجود چہروں کو پڑھنے کی تگ و دو میں تھی۔ اب وقت کسی اجنبی چہرے کو آزمانے کا تھا۔ اُس نے اپنے قریب کھڑے شخص کو پکارا۔ ظاہرِ حال سے وہ اجنبی انتہائی معقول نظر آتا تھا۔ رخ پلٹتے ہی اجنبی شخص کے چہرے پر پھیلتی مسکراہٹ نے اس کے وجود میں کانٹے گاڑھ دیے۔

“مجھے ایڈیٹر صاحبہ سے ملنا ہے۔”
اس نے تمام ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا۔

وہ سامنے سیدھا گیا، پھر دائیں مڑ گیا۔ وہ دوڑنے کی سی رفتار میں آگے بڑھی۔

کچھ دیر بعد وہ ایڈیٹر صاحبہ کے کمرے میں بیٹھی۔ پھر وہی گفتگو اور بے حسی۔ وہ اپنے ٹوٹتے بکھرتے وجود کو ضبط سے سمیٹتی ہوئی واپس اسی تاریک کمرے میں آگئی۔

وقت کا سورج ڈھلتا رہا۔ وہی بلند و بالا عمارتیں، وہی مباحث، وہی وحشت زدہ چار دیواری، اور ململ کے پرانے پردے سے پھوٹتی روشنی کی کرنیں… مگر موجودہ بدلاؤ یہ تھا کہ اس کا وجود تمام تر نظروں کے بوجھ سے آزاد تھا۔ الفاظ، وحشت اور تاریک کمرے کا اندھیرا اسے خوفزدہ نہیں کرتے تھے۔ اس کی راتیں تفصیل اور نیند مختصر ہو گئی تھیں۔ سخت بے آرام تک یہ تلے، ادھ بھری سیاہی والے قلم اور پرانی ڈائری نے بسیرا کر لیا۔ اس کی کرنیں لفظوں کے رنگ میں ڈھلنے اور پگھلنے لگیں۔

ہر عمارت میں ہر رنگ میں اس کا عکس نظر آنے لگا۔ بے آواز سسکیاں ڈنکے کی چوٹ پر گونجنے لگیں۔ یہاں تک کہ روشنی، ململ کے پرانے پردے کو چیرتی ہوئی، اندھیرے کو مٹانے لگی۔ پردے کے ہٹتے ہی کمرے میں گونجتی گونگی سسکیاں کھلی فضا میں سانس لینے لگیں۔ جوں جوں ان کاسانس ہوا میں تحلیل ہوا، فضا میں گھٹن بڑھنے لگی۔ بلند و بالا علیشان عمارتیں لرزنے لگیں۔ رفتہ رفتہ گھر کی ہر کھڑکی سے ململ کا پردہ چھٹنے لگا۔ سسکیاں شور بن کر ماحول میں بسنے لگیں۔ فلک پرور عمارتیں طہ و بالا ہونے لگیں۔ آخرکار عمارتوں سے بھاری بھرکم اور لمبے ستون نمودار ہونے لگے اور فضا کو ان سسکیوں سے آزاد کیا جانے لگا۔

ماحول ایک بار پھر خوشگوار ہو گیا۔باورچی خانے میں رکھی فریج، مسکراہٹوں، مسرتوں اور حقیقت سے لدی پھدی رہنے لگی۔ ہوا نے ایسا رنگ بدلا کہ مہکتی ہوئی رنگین فضا اپنے دامن میں حیران ہے۔
۔ شاید ہی اب کوئی بند کھڑکیوں کے پیچھے بے آواز سسکیوں میں چیختا ہوا پایا جائے۔

یہ روداد ہے ایک ایسی لڑکی کی، جس نے معاشرے کے ہر پتھر سے ٹھوکر کھائی، ہر چٹان سے ماتھا پھوڑا۔ ہر دروازے پر دستک دی۔ خود ہی اپنے ہر درد کی دوا کی۔ یہ کہانی ہے زوبیہ حسیب کی۔ یہ نشانی ہے ان گونگی سسکیوں کی، جن کے لیے یہ معاشرہ بہرا ہو گیا۔ یہ وہ سفر ہے جو ابھی باقی ہے، جس کی منزل ابھی دور ہے، مگر گمنام نہیں۔ یہ ایک خوبصورت انجام کا آغاز ہے۔ یہ ان تمام سسکیوں کی آواز ہے جو ڈری سہمی کسی تاریک کمرے میں گونج رہی ہیں اور ململ کا پردہ چھٹنے کا انتظار کر رہی ہیں۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !