شہزاد نیر کی نظم "کفن چور" کا جائزہ۔ نصیر احمد

میں سوچا کرتا تھا کفن چور کو ایسی کیا مجبوری ہوتی ہو گی کہ سب سے چھپ کر ، رات کے اندھیرے میں ، پہلے وہ مشقت سے منوں مٹی ہٹائے، پھر تختے نکالے۔ فوت شدہ جسم کو ظاہر کرے۔ پھر لرزہ خیز کام کرے یعنی مردے کے جسم سے کفن اتارے اور لے جا کر بیچ دے اور ہر کسی کی لعنت ملامت کا ہدف بنے۔

نظم "کفن چور" میں شاعر سماج کے اس خوف ناک کردار کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کے نقطہء نظر سے سامنے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

(جناب نصیر احمد اب کینیڈا (ملٹن) میں مقیم ہیں ۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا۔ 25 سال قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں ملازمت کے بعد ڈی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔انہوں نے مذکورہ نظم کا نہایت گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔نظم اور ان کی فکر انگیز تجزیاتی تحریر پیش ہے۔ دیکھیے اہم زاویے سامنے آئے)

" کفن چور "

کچھ نہیں گھر میں مرے کچھ بھی نہیں
کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا
لقمہ ء نان ِ جویں ، خون کو دھکا دیتا
من کو گرماتا سکوں ، تن سے لپٹتا بستر
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ھوا
جسم کے بند مساموں میں اترتی ٹھنڈک
سنگِ مر مر سی ہوئیں خون ترستی پوریں
ہاتھ لرزاں تھے ، امیدوں نے مگر تھام لیا
پاؤں چلتے ہی رہے شہر ِخموشاں کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردہ ء خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود
باعث ِننگ ِ زمیں یوں مگر اک بات بتا
جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ھے؟
دیکھ پیوند ِ زمیں ! میرے تن ِ عریاں پر
داغ ِ افلاس کا پیوند ۔۔
اجازت دے دے
مر کے ، مرتے ہوئے انسان کو زندہ کر دے
ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے
ورنہ بھوکی ہے بہت خاک ، کہاں دیکھے گی
جسم کھا جائے گی ، پوشاک کہاں دیکھے گی "

( شہزاد نیر )

گفتگو۔

 شہزاد نیر کی نظم "کفن چور" دراصل محض ایک شعری تخلیق نہیں، بلکہ انسانی محرومی، وجودی ستم، اور سماجی منافقت کا ایسا دل دہلا دینے والا نوحہ ہے جو قاری کے حواس پر دستک دیتا ہے ۔
یہ تخلیق اپنے اندر فقر و افلاس کے فلسفے، موت کی طنزیہ معنویت، اور انسان کے عزتِ نفس کے زخم کو ایک ہی سانس میں سمیٹ لیتی ہے۔

معنوی تہ داری اور پراثر علامتوں نے اسے درد اشنا مرثیہ بنا دیا ہےا

اس تخلیق کا مرکزی نکتہ فاقہ کشی اور انسانیت کی تذلیل ہے
 
 "کفن چور" دراصل وہ چور نہیں جو قبر سے کپڑا چرا لے بلکہ وہ نظام ہے جو جیتے جاگتے انسان کے جسم سے لباس، اور وقار چھین لیتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ یہ بشر کے المیے، ناانصافی، اور اخلاقی زوال کی ایک 
سنسنی خیز علامتی تصویر ہے۔
اور ایک ایسے شکستہ ڈھانچے کا عکس ہے جہاں عزت و احترام کی دیواریں دولت کے بے رحم ستونوں پر کھڑی ہیں ۔
یہ فن پارہ بنی آدم کے خوابوں کے اجڑنے کی کتھا ہے ۔ الفاظ میں کرب ہے۔ شاعر خاموش رہ کر ایک سوال اٹھاتا ہے کہ آخر ایسا کون سا سسٹم ہے جو انسان کو اس حد تک گرا دیتا ہے

شہزاد نیر کی زبان میں ایک ایسا جمالیاتی ارتعاش ہے جو سادہ الفاظ میں بھی لرزہ طاری کر دیتا ہے۔

 ابتدا میں "کچھ نہیں گھر میں مرے کچھ بھی نہیں" کی تکرار محض لفظی نہیں بلکہ ایک روحانی اور ذہنی خلا کی بازگشت ہے۔
یہ تکرار ایک خالی پیٹ کی صدا، خالی کمرے کی گونج، اور بے نور ضمیر کی سسکتی اواز بن کر ابھرتی ہے ۔اور پورے متن میں سنسناتی رہتی ہے۔

"سنگِ مرمر سی ہوئیں خون ترستی پوریں" 

یہ خاک اور خون کے درمیان الجھا ہوا سوال ہے کہ اگر جسم مٹی ہو جانا ہے تو "کفن" جیسی ظاہری شے کی حاجت کیوں؟یہ سوال محض ایک شخصی پکار نہیں، بلکہ معاشرتی ساخت پر فرد کے احتجاج کی صورت میں سامنے آتا ہے

"داغِ افلاس کا پیوند" — ایک انوکھا استعارہ ہے جو لباس کے مادّی تصور کو اخلاقی و جسمانی پیوندکاری میں بدل دیتا ہے۔
زندہ فقیر، مردہ امیر سے مخاطب ہے — مگر اس مکالمے میں سوال کا انداز اتنا گہرا ہے کہ قاری کو احساس ہوتا ہے جیسے زندگی خود موت سے کپڑا مانگ رہی ہو۔ جسم کی برہنگی کے استعارے میں پورے نظام کی عریانی جھلکتی ہے۔
مردہ کے کفن سے زندہ جسم کے لیے لو مانگنا دراصل اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ یہاں موت بھی زندگی پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس تصور میں طنز کی ایک خاموش لہر مخفی ہے

 عام طور پر جب ہم "کفن چور" کا لفظ سنتے ہیں تو ذہن میں ایک خوفناک، لالچی، سفاک چہرہ ابھرتا ہے، جو مُردوں کی حرمت پامال کرتا ہے۔ لیکن جب شہزاد نیر اس کردار کو اپنے شعری آئینے میں دکھاتے ہیں، تو وہ چہرہ خوف سے معصومیت اور بے بسی میں بدل جاتا ہے

یہ وہ شخص ہے جو بھوک سے مر رہا ہے، لیکن پھر بھی سانس لیتے ہوئے 
فرد کے دروازے پر دستک دینے کی جرأت نہیں رکھتا۔ اسے اشرف المخلوقات کے رد عمل سے اتنا خوف ہے کہ وہ بے جان کے قریب جانا زیادہ محفوظ سمجھتا ہے
اور وحشت زدہ، پناہ کی تلاش میں قبر میں اُترتا ہے۔

یہ روایت اور کلچر پر اپنی شکست کا اعتراف ہے۔

کفن چور اس قبر کے پاس آ کر
گویا اپنے ہی انجام سے کپڑا مانگ رہا ہے۔ یہ منظر انسانی ہراس کی انتہائی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ جب معاشرہ اتنا ظالم اور غیر محفوظ ہو جائے
کہ انسان زندوں سے زیادہ مُردوں پر اعتماد کرنے لگے 

کپڑا اردو شاعری میں ہمیشہ وقار اور پردے کی علامت رہا ہے۔
 “کمانے” کا استعمال بہت اہم ہے۔ شاعر نے یہاں “چرانے” نہیں کہا، بلکہ کہا

"کمانے کی اجازت دے دے" 

یہاں ایک اخلاقی موڑ آتا ہے۔ کفن چور نہیں چاہتا کہ وہ ڈاکہ ڈالے، بھیک مانگے، کسی کو لُوٹے۔
وہ چاہتا ہے عزت کے ساتھ، اپنے ہاتھوں کی محنت سے
 ہلکی سی تمازت حیات کمائے۔
 لفظ “کمانے” اس نظم کا طاقتور اخلاقی ادراک ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ نہیں چاہتا کہ بھیک مانگے، ڈاکہ ڈالے یا چوری کرے تو شاعر نے اس نظم کا عنوان "کفن چور" کیوں رکھا ۔ دراصل یہ نام اس کو لوگوں نے نے دیا ہے (شاعر نے نہیں دیا) ۔

آخر وہ ملبوس کے لیے کفن کا ہی انتخاب کیوں کرتا ہے جبکہ کفن ہمیشہ مّردوں کو پہنایا جاتا ہے۔ یہاں ایک باریک نقطہ یہ ہے کہ وہ کردار خود کو ایک مردہ ہی تصور کرتا ہے۔اور معاشرہ بھی اسے زندہ انسانوں میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 یہ تخلیق اپنی نوعیت میں منیر نیازی کے داخلی کرب،
فیض کی مزاحمت،منٹو کی بے رحمانہ سچائی،چیخوف کی انسانی ہمدردی،اور جدید نظم کے وجودی دکھ
سب کو سرد قبر کی مٹی میں جمع کر کے نئے معنی تخلیق کرتی ہے۔

 یہ نظم اپنی تاثیر اور گہرائی کے باوجود کچھ فنی، اسلوبی، اور ساختی کمزوریاں رکھتی ہے۔
نظم تین حصوں پر مشتمل ہے
پہلا حصہ محرومی اور افلاس کی تصویر ہے، دوسرا حصہ سرد رات اور قبرستان کی منظرکشی، تیسرا حصہ مردہ جسم سے مکالمہ۔
یہ تینوں حصے اپنے طور پر خوبصورت ہیں، مگر ایک فکری تسلسل اور فنی توازن میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ 
قاری کو ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے “احساس کے بہاؤ” میں نظم لکھی ہے،
 
پہلے حصے سے دوسرے حصے کا انتقال (Transition) ہموار نہیں۔
 لمحہ بھر کے لیے نظم کی داخلی ترتیب ٹوٹتی محسوس ہوتی ہے۔
۔
 “لقمۂ نانِ جویں، خون کو دھکا دیتا”
یہاں لفظ “دھکا دیتا” زبان میں ایک غیر شاعرانہ سختی پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح “من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر” میں
لفظوں کی نرمی کے باوجود علامتی عمق کم ہے 

“کفن” بعض جگہ جسمانی لباس کا استعارہ بنتا ہے،
دوسری جگہ سماجی وقار کا،
اور آخری حصے میں زندگی کے رزق کا۔
یعنی شاعر نے ایک ہی علامت کو مختلف مواقع پر مختلف معنوں میں برتا ہے،
جس سے فکری ابہام (Conceptual Ambiguity) پیدا ہوتا ہے۔
یہ ابہام شعری حسن میں کبھی اضافہ کرتا ہے، لیکن بعض جگہ مرکزی خیال کی وحدت کو دھندلا دیتا ہے۔
کچھ حصوں میں شاعرانہ آہنگ برقرار ہےاور کچھ حصوں میں بیانیہ نثر کا سا آہنگ ملتا ہے۔
کسی جگہ لفظوں کا انتخاب معمولی سا مصنوعی اور منظرنامہ محدود لگتا ہے ۔ زبان اور لہجے میں کہیں کہیں فطری روانی کی کمی کا احساس ہوتا ہے

۔یہ جذبے کی آگ میں ڈھلی ہوئی تخلیق ہے
اس کی طاقت اسی جذباتی شدت میں ہے،
مگر یہی شدت بعض اوقات فکر اور اظہار کی ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ
"کفن چور" ایک جمالیاتی طوفان ہے ،
جس میں جذبات کی بجلی چمکتی ہے،
مگر بعض جگہ نظم کی ساخت کے ستون لرزتے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ کمزوریاں کسی بھی بڑی نظم کے لیے فطری ہیں
یہ اس کے حسن کو ماند نہیں کرتیں، مگر ان کا جائزہ لینا قاری کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے

" گناہ سے نفرت، گناہگار سے محبت" 
کافی عرصہ پہلے کہیں یہ جملہ پڑھا تھا تو اسی وقت روح میں اتر گیا اور اب تک خون کی طرح رگوں میں محو گردش ہے۔

یہی روحانی رویہ رشی، منی، ولی، اولیاء ،صوفیا کرام اور دانشوورں کا 
مشترک پیغام رہا ہے، 
اس تخلیق میں بھی یہی ازلی فلسفہ جگمگا رہا ہے:     
یہاں بھی خطا کار کے لیے دل میں محبت کی لو جلتی ہے۔ اور اسے بدی کے پردے سے ہٹا کر مجبوری کے پس منظر میں دکھایا ہے۔

شاعر کی نفرت "کفن چور" سے نہیں،
بلکہ اس ہیئت زر سے ہے۔

وہ نہیں کہتا کہ چوری درست ہے —
بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ
اگر معاشرہ کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتا تو وہ
 خاک سے کفن بھی چھین لے گا۔

یہ "کفن چور" کوئی قبیح چہرہ نہیں،
یہ ہمارا ہی عکس ہے، وہ ہم میں سے ہر شخص ہے
جو کبھی بھوک، کبھی ننگ، کبھی محرومی میں
اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔شاعر نے اس کردار کو
نہ تو ہیرو بنایا، نہ ولن بلکہ بشر خاکی بنایا۔
وہ کہتا ہے
“باعثِ ننگِ زمیں ہوں مگر اک بات بتا…”
یہ خوداحتسابی ہےاور اعترافِ جرم بھی،
مگر ساتھ ہی یہ تکریم آدمیت کی التجا بھی ہے۔

انسانیت اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب ہم مظلوم کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے لگیں۔

یہ نظم ذہن میں کئی سوال چھوڑ جاتی ہے
کیا جرم وہ ہے جو ہاتھ کرتے ہیں، یا وہ جو نظام کرواتا ہے؟  
شاعر ان سوالات کے جواب نہیں دیتا، بلکہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ محبت اور ہمدردی ہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر ہم اپنی تہذیب کو انسان دوست بنا سکتے ہیں۔

شاعر کا پیغام صاف ہے
ہمیں برائی کے اسباب ختم کرنے ہوں گے، نہ کہ قصور وار کو مٹا دینا
یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر
“گناہ سے نفرت، گناہگار سے محبت” کے فلسفے کو
ایک نئی، انتہائی انسانی معنویت میں زندہ کرتا ہے۔
فکر کی یہ جہت ، مخلوق خدا سے عملی اور بامعنی محبت کرنے کی لگن عطا کرتی ہے۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !