مکتب ہے کہ ہوئے جو ہوئے عشق میں ہم راضی کا ٹائٹل سانگ ، متوسط گھرانے کی لڑکی کو کالج کے غنڈہ گرد کے ساتھ ملوث دکھانا ، حیا باختہ اطوار ،حرکات و سکنات،غنڈے کو دوسروں کی مدد کرتے دکھانا،اسے مظلوم بنا کر پیش کرنا، تم کیوں باکردار رہنا چاہتی ہو؟ کردار جیسی اعلیٰ ترین اخلاقی قدر پر سوال اٹھانا،والدین کا بیٹی کی شادی کے دن اسی غنڈے کے ایکسیڈنٹ پر اپنی بیٹی سے کہنا جاؤ اپنے پیار کے پاس، لڑکی کا دلہن کے کپڑوں میں ہی غنڈے کے پاس اسپتال پہنچ جانا۔میں آپ کو کوئی فلمی کہانی نہیں سنانے جا رہی ۔ پنجاب گروپ آف کالجز کے ایک اسکول کیمپس میں اسٹوڈنٹ مووی نائٹ میں دکھائی جانے والی مووی کی بات کر رہی ہوں۔جہاں اس وقت پرائمری کلاسز کے لئے بھی مووی نائٹ شیڈول کا حصہ ہے۔مووی نائٹ کے تصور ہی سے سمجھ لیں کہ ہونے کیا جارہاہے۔
تعلیمی اداروں کے تشخص کو مجروح کرکے انھیں نائٹ کلبز میں تبدیل کرنا، بچوں کو باقاعدہ حیا باختہ موویز کے ذریعے عشق و محبت کی تربیت دینا، نازک ترین جذباتی دور کو ہائی جیک کرنا گویا تباہی کی ابتدا نہیں انتہا ہے۔والدین کی بے خبری ملاحظہ فرمائیے اپنی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ خون پسینے کی کمائی سے اسکولوں کی نظر کر کے اپنےایمان، دین ، شناخت ،اقدار تک سے غافل ہو گئے ہیں۔یہی بچے کل جب ہر قدر سے عاری ہو کر آپ کے سامنے کھڑے ہونگے آپ اپنے رب کو چھوڑ خود کو بھی جواب نہیں دے پائیں گے ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی غفلت کی فصل نہ کاٹیں۔
میری ایک کولیگ جن کی بیٹی گارڈ پبلک اسکول یعنی ایک فوجی اسکول میں پریپ کلاس میں داخل ہوئی اس نے پہلے ہی دن بچی کو اسکارف کے ساتھ بھیجا جسے دیکھتے ہی ٹیچر نے اتار کر بیگ میں رکھ دیا ۔بچی کی ماں کا موقف مجھے بہت سخت لگا۔ ان کا کہنا تھا یہ عام بات نہیں ،برائی کو یہیں رک جانا چاہیے کہ اگر یہ کام آج نہ کیا تو پھر کبھی نہ ہوگا۔اگلےہی دن وہ اسکول گئیں۔ پرنسپل سے کہا میں نے اپنی بچی کو کسی مغربی ملک کے حیا باختہ ادارے میں داخل نہیں کرایا ۔یہ اسلامی ملک کے دفاعی ادارے کا اسکول ہے۔ اگر آپ یہاں حجاب کو برداشت نہیں کر سکتے ہمارے بچوں کے دین ،ایمان اور کردار کی حفاظت کیسے کریں گے۔چند ہی دن بعد اسکول میں اسکارف کی بہار آگئی ۔کہہ دیا گیا کہ تمام بچیاں اسکارف کے ساتھ آ سکتی ہیں۔وہ محترمہ بچوں کے کسی بھی منفی عمل پر اسکول پہنچ جاتیں کہ یہ بات اس نے گھر میں نہیں سیکھی تو ادارے میں ایسا کچھ تو نہیں جس سے بچے میں منفی عمل پیدا ہوا ہے۔ اسی کی بیداری کا کمال تھا کہ تھری کلاس میں اسی بچی نے اپنی ماں سے کہا مجھے کسی لڑکیوں کے اسکول میں داخل کروائیں یہاں کا ماحول خراب ہوتا جا رہا ہے ۔ ماں نے وجہ پوچھی اس نے بتایا کہ اسی کلاس کے ایک لڑکے نے ایک لڑکی کو خط لکھا جس پر ٹیچر نے بچوں کو ڈانٹا ،بچی کا کہنا تھا کہ ماں کل کوئی ایسا ہی خط مجھے بھی لکھ سکتا ہے۔۔ ماں دنگ رہ گئی بچی کا جواب عام۔جواب نہیں تھا۔لڑکیوں کے لئے الگ سے کسی اچھے اسکول کی تلاش بھی جان جوکھوں کا کام تھا لیکن اس نے کردار پر کمپرومائز کے بجائے معیار پر کمپرومائز کر لیا ۔ تعلیمی کمزوری کو دور کرنے کی صورت تو نکل سکتی ہے حیا کا جنازہ نکلے تو سب ختم ہو جاتا ہے۔
میں اس وقت ایک ادارے کی پرنسپل تھی ہم نے ایک مہم چلائی ۔جس میں ہم نے ایسی تجاویز پیش کی تھیں جن کے ذریعے لڑکے لڑکیوں کے سسٹم کو الگ کیا جا سکے۔ یہ ایک محدود کوشش تھیں ۔ لیکن ایسی ہی کوشش کئی لوگوں کے اکٹھا کرنے سے ثمرات یقینا زیادہ ہونگے۔ اگر نہ بھی ہوں تو ہماری ذمہ داری تو ادا ہو ہی جائے گی یا کم از کم لوگوں کو نئی سوچ ہی ملے گی۔محترم والدین آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے ۔ اپنے بچوں کے ایمان و کردار ،عفت و عصمت کے اولین محافظ آپ ہیں۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ آپ کے بچے اداروں تو کیا اپنے گھروں میں بھی آج محفوظ نہیں رہے ۔اپنے گھروں میں حفاظتی حصار بنانا آپ کی زمہ داری ہے ہر ایک کو بے دھڑک آپ کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے سوائے محرم رشتوں کے ،بچوں کو تلقین ہو کہ ان کے سامنے بھی جتنا رب نے اجازت دی اتنا ہی کھلیں۔ ایک سرجن سہیلی نے جب سے یہ بات شئیر کی ذہن سے ہٹ نہیں رہی کہ ان کے پاس گھریلو زیادتیوں کے کیسز اب زیادہ آنے لگے ہیں۔حیوانی خواہشات کو بڑھا کر اس کی جائز راہیں بند کرنے والے معاشرے میں ایسا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔اس کے باوجود کہ اس دجالی دور میں فتنوں نے ہر سو جکڑ رکھا ہے۔ کالجز یونیورسٹیز کے بچوں کی اکثریت کے پہناوے انتہائی خراب ہیں۔ سجنے سنورنے کی روش نے بے حیائی کو شے دی ہے۔ آپ کے ذمہ داری کے احساس کی صورت امید کی کرن باقی ہے۔رجوع الی اللہ کیجئے۔اپنے گھر میں حیا کے بیج کو پانی دیجئے کھاد ڈالیے تناور درخت بنائیے ۔صبح شام کی دعائیں شیاطین سے حفاظت کی دعائیں سب کے معمولات کا حصہ ہوں۔معصوم ذہنوں کی شفاف سلیٹ پر کیا نقش کرنے ہیں شریعت سے رہنمائی لیجئے۔
موجود ہ حالات اخلاقیات و اقدار کے جنازہ کی ہی خبر نہیں دے رہے اس سے کہیں بڑھ کر معاملہ سنگین ہے۔ میڈیا اس وقت خیر اور اچھائی کے تصور کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ۔کسی معاشرے کی اس سے بڑھ کر اخلاقی بد حالی کیا ہوگی کہ وہ خیر کے بجائے شر سے محبت کرنے لگے اور وہ بھی شر کو خیر سمجھ کر ،بات زرا آسان انداز سے سمجھیے ۔ زندگی ہو یا ڈرامہ دو کردار بنیادی ہوتے ہیں۔ ایک اچھا کردار ،دوسرا برا ،دیکھنے والا برے کردار کو برا ہی سمجھتا ہے کہ اسے برائی سے متعلق ہمدردی پیدا نہیں ہوتی ،المیہ یہ ہے ہمارے ڈرامے،موویز اچھے کردار کو برے اور برے کو اچھے میں ڈھالنے میں مصروف ہیں ۔اس طرح سے کہ دیکھنے والے کے لئے اچھائی مشکوک ہو جائے اور اسے برائی اچھی لگنے لگے۔ میرے رب نے اچھائی اور برائی کے فرق کے لئے جس فرقان کا نزول فرمایا اس سے دوری نے اس فتنے کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ انگش میڈیم سے محبت کا چکر بھی بڑا ہی خوفناک ہے۔دنیا میں ہر خطے کے لوگ دوسری زبانوں کو سیکھا ہی کرتے ہیں مگر ایسے نہیں جیسا کہ ہم مکمل احساس غلامی کے ساتھ سیکھ رہے ہیں۔ نتیجتاً اقدار وروایات سے باغی ہو گئے ہیں۔ زبان کے ساتھ تشخص بھی ختم ہو گیا ہے۔ ایک اسلامی ملک کے تعلیمی نظام کا اولین ہدف ایمان کی بڑھوتری ،نظریاتی بنیادوں سے وابستگی نہ ہو ،اساتذہ کی قدر شناسی نہ ہو تو ایسے المیے جنم لیتے ہی ہیں ۔آؤ کہ دیا جلائیں ۔اندھیرا بڑھ رہا ہے۔
Special Message For Readers
گھر بیٹھے مناسب قیمت میں معیاری کتاب شائع کروانے کے لیے سرکار پبلشرز ملتان کی خدمات حاصل کریں۔ کمپوزنگ سے لے کر جلد بندی تک ہر کام کچھ تسلی بخش طریقے سے کیا جاتا ہے۔ نیز کتاب کی اشاعت کے بعد لائبریری اور لوگوں تک کتب کی فراہمی بھی کی جاتی ہے ۔ برائے رابطہ
wa.me/+923004228864
