پہلے روز میری ملاقات شعبہ اردو کی کوآرڈینیٹر نجمہ عثمان صاحبہ سے ہوئی، انتہائی یادگار ملاقات رہی۔ زندگی کے بیشتر تجربات میں کچھ یادگار لمحے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ یادداشت میں نقش رہتے ہیں، یہ ملاقات بھی انہی لمحات کی ایک مثال ہے۔
کوآرڈینیٹر صاحبہ سے تمام معلومات لے کر پہلی کلاس کے لیے متعلقہ کمرے کا رخ کیا۔ ایک بہت ہی پیاری سہیلی، شفق فاطمہ کے سنگ، میں کمرہ جماعت میں داخل ہوئی۔ شفق فاطمہ نے مجھے نشست پر بٹھایا اور حوصلہ دیتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔ پہلا دن، نئے جذبات، نئے چہرے، ایک تازہ عزم لیے، مسکراتے ہوئے اُستانی صاحبہ کا انتظار شروع کر دیا۔ کچھ دیر میں اُستانی صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں، چہرے پر پُرجوش مسکراہٹ، آنکھوں میں روشنی۔ ڈائس پر آتے ہی تعارف دیا۔ وہ میری یونیورسٹی کی پہلی کلاس تھی جو مجھے معنوی طور پر آج بھی یاد ہے۔ اپنا تعارف دیتے ہوئے میرے لہجے اور الفاظ میں ایک نیا جوش تھا، شاید یہ ان اندھیروں میں ڈوبی راتوں میں دیکھے گئے روشن خوابوں کا نتیجہ ہے۔ دوسرے ہفتے میں کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔
شعبہ اردو سے وابستگی کے بعد انگنت یادگار لمحات آنکھوں کے سامنے جھلملا رہے ہیں۔ کہیں پر وہ سہیلیوں کی شرارتیں ہیں، وہ اساتذہ کی شاباش اور محنت کا درس سب ایک فلمائی کیفیت کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ نہایت کمال کے تجربات رہے، ایک مفیدسبق یہ کہ اکیلے سفر کرنے کی عادت ہونا لازم ہے۔ روشنی نہ ہو تو پھر سایا بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، انسان تو پھر انسان ہے۔
نفسیات، ریاضی اور کمپیوٹر کی اساتذہ سے گفتگو کے بعد چھٹی حس نے اشارہ دیا کہ ان روشن چمکتے چہروں کے پیچھے گہرائی چھپی ہوئی ہے۔ دل میں تجسس پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان کے چہروں کو پڑھا جائے، پوشیدہ قصوں سے پردہ ہٹایا جائے۔ یہ تجسس آج بھی برقرار ہے۔ ان تمام اساتذہ کے الفاظ اور لب و لہجہ میں حوصلے کی امیدجھلکتی ہے، انہیں دیکھتے ہی چہروں پر جو مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے وہ قدرتی تحفہ ہے اور کسی ریاکاری کی مرہون منت نہیں۔
تعلیمی دباؤ بڑھنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ذہنی انتشار بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگا۔ منافقت اور حسد کے روڑے ہر طرف بکھرنے لگے، اس کے برعکس کامیابی اور بہتری کا عمل بھی اپنی رفتار سے جاری رہا۔
شعبہ اردو میں ابتدائی طالبات کی مجموعی تعداد چودہ تھی۔ عمومی درجہ بننے کے بعد مجموعی تعداد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ سات طالبات ایک گروہ میں جبکہ باقی سات طالبات دوسری گروہ میں شامل ہو گئیں۔ ایک گروہ کی سرپرستی مجھے دے دی گئی جبکہ دوسری گروہ کو کلاس ریپریزنٹیٹر نے سنبھالا۔ اب صورتحال کچھ ہی دیر میں جنگ کے باضابطہ آغاز کی مانند ہو گئی تھی۔ جیسے ہی کسی استانی کی جانب سے مقابلے کا اعلان ہوتا ہم کمر باندھ کر تیار ہو جاتے اور کامیابی کی اندھی دوڑ میں بے خوف و حرکت حصہ لیتے۔
کامیابی کی ہوس ہمیں اس طرح لڑائی میں جھونک رہی تھی کہ ہم دوسروں کو روتے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
میری استاد انم جاوید بے مثال اور لاجواب ہیں۔ انہیں دیکھ کر دل میں ایک نیا جوش اور سرشاری پیدا ہوتی ہے، اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی میرا سفر نامکمل ہے، محنت جاری رکھنی ہے۔ وہ انتہائی نفاست اور محنت کے ساتھ پڑھاتی ہیں، اور ان کی شفقت و نرمی دل کو چھو کر روح کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ ان کی موجودگی ہی انسان کو بلند حوصلہ اور بہتر بننے کی تحریک دیتی ہے۔
والدین اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں، اس کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، لیکن جب وہی کچھا گھر کی چار دیواری سے نکل کر بیرونی دنیا کے شکنجے میں آتا ہے تو اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ حقیقی امتحان وہی ہے جو دنیا خود آپ سے لیتی ہے۔ لوگوں کے رویے آپ کو زخمی کر دیتے ہیں، منافقت کے دلنشین اور فریب سے سجے ہوئے چہرے آپ کو وحشت کا مریض بنا دیتے ہیں۔ دن کے اُجالے میں، چمکتے سورج کی روشنی میں بھی آپ اس طرح خوف زدہ ہوتے ہیں جیسے کوئی بچہ گھنے اور تاریک جنگل میں بھٹک جائے اور وحشی جانور اسے لرزنے پر مجبور کر دے۔ ایسی کیفیت کا شکار ہو کر جب میں میم انم جاوید کی شاگردی میں آئی تو ان کے الفاظ اور انداز نے مجھے ایک نئی توانائی بخش دی۔
انسان بہت بےصبر اور احسان فراموش ہے، اپنی بھلائی، نفع، نقصان اور صلاحیتوں کے بارے میں تمیز نہیں رکھتا۔ ہلکی پھلکی آزمائش اور ناکامی اسے مایوس کردیتی ہے۔ پتھریلے رویوں کی کاری ضرب اسے بے حس بنا دیتی ہے، لیکن اصل شخصیت اور کردار اسی صورت میں اپنی دھاگ بٹھاتی ہے۔ جب ان حالات میں پل صراط کی مانند نہایت اطمینان سے گزر جائے۔
انسانوں کے اس گھنے جنگل میں شیر کی طرح زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ کمزور جانور ہمیشہ وحشی درندوں کا شکار بن جاتا ہے۔
جہان اس قدر کٹھنائیوں کا دور تھا وہاں کامیابی کا موسم بھی اپنی جوبن پر تھا۔ اساتذہ کی داد، چند سہیلیوں اور دیگر ہم جماعت لڑکیوں کی پرُ اثر صحبت نے شخصیت کی تکمیل میں شاندارکردار ادا کیا۔
تسکین اور کامیابی دو مختلف پہلو ہیں۔ تسکین وہ تحفہ ہے جس کے ملنے سے ہمیں تسلی ہوتی ہے، دل میں امڈتے جذبات کو سکون ملتا ہے اور دل و دماغ کے بیچ جاری جنگ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ جت کے کامیابی ایک ایسا عمل ہے جس کے ہونے سے دوسروں کو فائدہ حاصل ہو۔ آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ اس عمل سے مستفید ہو سکیں۔ کامیابی محنت مانگتی ہے، کامیابی کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ جو کام آپ کو مشقت کرنے پر آمادہ کردے وہ کامیابی ہے۔ کوئی نہیں جانتا میرا نام کیا ہے، میری نسل کیا ہے، میں کس زبان سے تعلق رکھتی ہوں، مگر میری لکھی ہوئی تحریر پڑھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ یہ ایک نہایت خوبصورت اور خوش اسلوب پیراگراف ہے، تو یہ کامیابی ہے۔
عزت اور قدر پانے کے لیے شکل و صورت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسان کا کردار اور شخصیت اسے مثال بنا دیتے ہیں۔ میرے معاملے میں بھی یہی ہوا، واجبی شکل و صورت کے باوجود پاک پاور دگار نے مجھے ناقابل بیان عزت سے نوازا۔ یہ دنیا ہمارے لیے فیصلے کرنے کی کوشش کرتی ہے، مگر ہوتا وہی ہے جو اللّہ پاک چاہتے ہیں۔
عادتِ سنگھار نہیں ہے مجھے۔
میں فقط نیت ٹھیک رکھتی ہوں
یہ جان لو کہ اس دنیا میں تمھاری مردہ لاش بھی کارآمد ہوئی تو لوگ تمھاری مردہ لاش سے بھی نفع پانے کی کوشش کریں گے۔ جب تک تمھاری لاش گل سڑ کر بیکار نہ ہو جائے، تمھیں دفن تک نہ کیا جائے گا۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ ساری غلطی اُن چہروں کی ہے جن سے میری ملاقات ہوئی، مگر ساری غلطی میری ہے، تو کچھ کمی آپ کی جانب سے بھی، تو ہو سکتی ہے۔ مجھے سفر کی ضرورت ہے، تو ممکن ہے کہ آپ کی منزل بھی ابھی باقی ہو۔ تحریر کا بہاؤ اور اسلوب آج سادہ رکھا ہے۔ یہ ممکن تھا کہ میں مزید انتظار کرتی اور باقاعدہ کسی گہرے پیرائے کا انتخاب کر کے تحریر کرتی، مگر پھر خیال آیا کہ دل کی بات کسی پیرائے میں قید نہیں ہوتی۔
