غیرت کابیانیہ ،سماجی عمل یاسیاسی سازش۔سائرہ رباب

آپ میگزین فیچرز دیکھیں، سوشل میڈیا پوسٹس پڑھیں یا غیرت کے قتل پر بنی فلمیں دیکھیں ..آپ کو یہ مسئلہ ہمیشہ ایک "سماجی" یا "ثقافتی" مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا نظر آئے گا۔ اس کا سیاسی پہلو یا ریاستی کردار شاید ہی کہیں نظر آئے۔ خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ سے بنی فلموں میں اس موضوع کو اکثر مقامی ثقافت کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ مسئلے کی جڑ یعنی طاقت اور مفاد کا گٹھ جوڑ پوشیدہ رہے۔

برصغیر، بشمول پنجاب "غیرت کے نام پر قتل" کوئی صدیوں پرانی مذہبی روایت نہیں بلکہ ایک سماجی، سیاسی، اور نوآبادیاتی پیداوار ہے۔ پری-کولونیل دور میں عورت کی حیثیت، آزادی، اور معاشرتی کردار نسبتاً زیادہ خودمختار اور مربوط تھے۔ چاہے وہ پنجاب کی ہیر ہو، سندھ کی سسی، یا بنگال کی چندر وتی۔۔۔۔لوک ادب میں عورت کو ایک بااختیار، مزاحمت کرنے والی اور محبت کی حامی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ ان کہانیوں میں عشق ایک جرم نہیں بلکہ انسانیت اور سچائی کی علامت ہے۔

پری-کولونیل ہندوستان میں "غیرت" کو آج جیسے ریاستی یا سماجی سطح پر قانونی جواز حاصل نہ تھا۔ معاشرہ کئی تہذیبوں، زبانوں، رسوم اور مذہبی مکاتب فکر کا مجموعہ تھا۔ اگرچہ پدرسری نظام موجود تھا، لیکن ہر علاقہ اپنے الگ انداز میں عورت کی حیثیت کو طے کرتا تھا۔ پنجاب میں عورت کھیتوں میں کام کرتی، میلوں میں شریک ہوتی، گیت گاتی، محبت کرتی، اور بعض اوقات اپنی پسند سے شادی بھی کرتی تھی۔ اسی طرح، بنگال میں چندر وتی جیسے کردار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عورت سماجی و مذہبی بیانیے کو چیلنج کرنے والی شخصیت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح راجستھان کی داستانوں میں بہادر بہنیں، جنوبی ہند میں دیوداسی کلچر (جسے بعد میں بدنام کیا گیا)، اور سندھ میں مائی سچل سرمست کی خواتین شاگرد، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ مذہب، فن، اور علم کے دائرے میں عورتیں متحرک تھیں۔ پنجاب، سندھ، بنگال اور مہاراشٹرا کے لوک گیتوں میں عورت خود کو گاتی ہے۔ سب عورت کی شعوری موجودگی کے غماز ہیں۔ یہ گیت نہ صرف اس کی خواہشات بلکہ اس کی مزاحمت اور انکار کی بھی نمائندگی کرتے ہیں

باہمی توازن: برہمنیت اور مقامی تحریکیں

برہمنیت ایک مضبوط مذہبی ڈھانچہ تھا، جو ذات پات ، سٹیٹس کو ، اور طاقت کا علمبردار تھا ۔مگر اس کے خلاف کئی مقامی تحریکیں بھی تھیں۔۔۔جیسے بھکتی، صوفی روایت، کسان کلچر، اور دراوڑی معاشرتی رویے۔ ان تحریکوں نے عورت کو روحانی اور سماجی آزادی دی۔ جنوبی ہند، مشرقی بنگال، پنجاب اور سندھ جیسے علاقوں میں صوفی خانقاہیں، بھکتی درشن، اور لوک رسومات عورت کو مرکزی مقام دیتی تھیں۔ اس تنوع نے برہمنیت کے یک طرفہ کنٹرول کو محدود کر رکھا تھا۔

نوآبادیاتی مداخلت: 'غیرت' کا قانونی جواز

تبدیلی اس وقت آئی جب انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کو قانونی، اخلاقی، اور ثقافتی جواز دینے کی کوشش کی۔ 1860 میں Indian Penal Code (IPC) بنایا گیا، جس میں "grave and sudden provocation" کی شق شامل کی گئی۔ یہ وہ قانونی نکتہ تھا جس کے تحت اگر کسی مرد نے "غیرت میں آ کر" قتل کیا ہو، تو اسے ہلکی سزا ملے گی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب "غیرت" کو پہلی بار ریاستی قانون کے ذریعے جزوی جواز ملا۔

تاریخ دان طاہر واسطی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی قوانین میں قتلِ غیرت کے لیے کوئی خاص رعایت نہیں دی گئی۔ اسلامی قانون میں قتل قتل ہے، چاہے وہ کسی بھی نیت سے ہو۔ واسطی نے بتایا کہ کس طرح نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے "غیرت" کو مسلم اخلاقیات اور شریعت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، تاکہ مردوں کو قانونی رعایت مل سکے اور مقامی اشرافیہ کو قابو میں رکھا جا سکے

مذہبی اسکرپچرز (scriptures)کی نئی تشریحات

لتا مانی ، گاياتری سپیواک اور دوسرے مفکرین نے بتایا کہ کس طرح برطانوی دور میں مذہبی کتابوں (scriptures) کو مخصوص مقاصد کے لیے دوبارہ پڑھا گیا۔ ستی کی مثال لیں: ستی ایک نایاب، مقامی، اور کبھی کبھار پیش آنے والی رسم تھی، جو زیادہ تر اونچی ذات والوں جیسے براہمنوں اور راجپوتوں میں رائج تھی ، عام لوگوں میں بہت کم شواہد ہیں ۔مگر جسے برطانوی دور میں ایک عام ہندو روایت کے طور پر پیش کیا گیا ۔ براہمن مذھب کو ہندو لاء کا درجہ دے دیا گیا جو ایک بڑی ہندو اکثریت کا مذھب نہیں تھا ۔تاکہ ہندو معاشرے کو "وحشی" اور برطانوی تہذیب کو "مہذب" ثابت کیا جا سکے۔ پھر اسی روایت کو ختم کرنے کے بہانے عورتوں پر مزید قانونی اور اخلاقی بندشیں لگائی گئیں۔

اسی طرح، جہیز (dowry) ایک محدود، طبقاتی، اور ثقافتی رسم تھی جو برہمنوں میں زیادہ تھی۔ مختلف علاقوں ، کلچرز کے لوگ اپنے طریقوں سے شادی بياه کرتے تھے ۔ مگر برطانوی قانون سازی نے اسے پورے ہندوستان میں "ہندو" رسم کے طور پر قانونی بنیاد دے دی، جس کا فائدہ نہ صرف برہمن طبقے کو ہوا بلکہ نوآبادیاتی ریاست کو بھی کیونکہ اس سے وراثت اور جائیداد کی منتقلی کا نظام اشرافیہ کے کنٹرول میں رہا۔

برہمنیت اور نوآبادیاتی گٹھ جوڑ

مقامی رسم و رواج کو یکساں قانون (one code) کے تحت لانے کا عمل، حقیقت میں برہمن و نوآبادیاتی گٹھ جوڑ تھا۔ برطانویوں نے برہمن اشرافیہ کو قانونی مشیر، پنڈت، اور ماہر مذہبیات مقرر کیا اور انہی کی تشریحات کو ہندو قانون کا درجہ دیا۔ اس عمل نے مقامی تنوع، عورت کی خودمختاری، اور علاقائی رویوں ، روایتوں کو ختم کر کے ایک مرکزی، برہمنائی اخلاقی نظام نافذ کیا۔ یہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا، جب انگریزوں نے شریعت کے مخصوص پہلوؤں (مثلاً وراثت، نکاح، طلاق) کو قانونی حیثیت دی اور صوفی و مقامی اسلامی رویوں کو غیر شرعی قرار دیا۔

نوآبادیاتی ورثے کو ریاستِ پاکستان نے مزید آگے بڑھایا۔ بلخصوص ضیاء الحق کے دور (1977–88) میں اسلامی اخلاقیات اور مردانہ غیرت کو ریاستی زبان میں بدل دیا گیا۔ فلموں، نصاب، اور قانون میں "غیرت مند مرد" اور "چادر اور چار دیواری" کا بیانیہ پروان چڑھا۔ دفعہ 302 اور 311 نے قاتل کو معافی کی گنجائش دی، اور عورت کو خاندانی عزت کا نشان بنا کر اس پر سماجی و ریاستی کنٹرول سخت کر دیا گیا۔

عورت، غیرت، اور طاقت کا گٹھ جوڑ

برصغیر میں عورت کبھی بھی صرف مظلوم یا محکوم نہیں رہی بلکہ وہ مزاحمت، محبت، اور شعور کی علامت رہی ہے۔ تاہم، نوآبادیاتی قانون سازی، مذہبی اسکرپچرز کی سیاسی تشریح، اور مقامی اشرافیہ کے مفادات نے عورت کو غیرت، عزت، اور ریاستی کنٹرول کے دائرے میں محدود کر دیا۔

غیرت کا بیانیہ ۔۔۔۔ ایک منظم سیاسی سازش 

یہ بیانیہ کوئی دیسی روایت نہیں بلکہ نوآبادیاتی حکمتِ عملی کا تسلسل ہے۔
"قتل صرف جذباتی ردِعمل نہیں، بلکہ طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں۔ 'غیرت' کا بیانیہ ایک منظم سیاسی سازش ہے، جس کے پیچھے جاگیردارانہ مفادات، زمین کی ملکیت، اور وراثتی طاقت کا تحفظ چھپا ہوتا ہے۔"

انگریز حکومت: مقامی اشرافیہ سے وفاداری، بغاوت کا خطرہ کم کرنے اور 'لاء اینڈ آرڈر' کی ظاہری شکل برقرار رکھنے کے لیے اس بیانیے کو استمال کرتی رہی۔ اور خود کو مشعل بردار ثابت کرنے کے لئے ۔

جاگیردار/سردار: عورتوں اور کمزوروں پر کنٹرول برقرار رکھنے اور مخالفین کو قتل کرنے کے لیے 'غیرت' کا استعمال کرتے ہیں، جو انہیں ایک سماجی جواز فراہم کرتا ہے۔

پولیس اور جرگہ سسٹم: رشوت، جرمانے، اور کیس دبانے کے ذریعے اس نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عدالتیں: 'یہ مقامی ثقافت ہے' جیسے بیانیے کی آڑ میں سماجی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں، یوں اس ظالمانہ ڈھانچے کو غیر محسوس انداز میں قانونی تحفظ ملتا ہے۔

انفرادی جرم کے بجائے یہ ایک institutional conspiracy ہے، جس میں ریاست، عدلیہ، جرگے، پولیس، اور میڈیا سب کسی نہ کسی سطح پر شریک ہیں۔ 

ریاست آج بھی یہی نوآبادیاتی فریم برقرار رکھتی ہے، کیونکہ طاقتور وڈیرے، سردار اور ان کے جرگے ریاست کے غیر رسمی اتحادی ہیں۔ میڈیا ان قتلوں کو “سماجی مسئلہ” کہہ کر depoliticize کر دیتا ہے تاکہ کوئی systemic critique نہ ہو۔

 درحقیقت، "غیرت" ایک framing device ہے، جس سے جرم کو کلچر بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ریاست اور اشرافیہ کو قانونی تحفظ دیا جا سکے۔ریاستی طاقت کا مقامی ایجنٹ رکھا جائے اور قانون کو طاقتوروں کی مرضی سے ڈھالا جا سکے ۔

Tahir Wasti – The Application of 
Islamic Criminal Law in Pakistan

Lata Mani – Contentious Traditions

Colonial Masculinity" by Mrinalini 
Sinha

Institutionalization and expansion of dowry system in colonial north india by Ranjana Sheel

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !