ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو۔ (افسانہ)روبینہ قریشی

میں ہارٹ سرجن احمد مجیب ہوں- ملک عبدالمجیب کا بیٹا ۔تیس سال تک کینیڈا میں رہائش پزیر رہا ہوں ۔

                                   Peter Munk Cardiac Center Canada
  میں ایک عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد اجکل تھل کے علاقے میں شہر سے دور اپنے ابائی گاؤں میں قبرستان کے قریب واقع اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوں۔
  
  میرے والد ملک عبدالمجیب ایک کم پڑھے لکھے لیکن کاروباری اونچ نیچ سے بہرہ ور کامیاب تاجر تھے۔
دادی جب ابا کا رشتہ کرنے لگیں تو انکی پہلی ترجیح پڑھی لکھی لڑکی تھی۔چاہے کسی غریب گھرانےکی ہو ۔
یوں میرے بابا کی شادی انتہائی خوبصورت اور بی اے پاس میری می می سے ہو گئی
پتہ نہیں کیسے جب میں نے امی کو امی بلانا شروع کیا تو میری زبان سے لفظ می می نکلا۔
یوں میری امی میری" می می،، بن گئی۔
می می نا صرف شکل کی پیاری تھیں بلکہ بہت سلیقہ مند اور سگھڑ بھی تھیں۔ان کی چار بہنیں اور بھی تھیں۔
نانا ابو ایک سکول میں استاد تھے۔ننھیال غریب تھے لیکن سارے پڑھے لکھے۔ 
بابا کا گھرانا دولت مند تھا لیکن اخلاقی قدروں میں می می کی فیملی سے کم تھا۔
مجموعی طور پہ یہ شادی بظاہر ٹھیک تھی۔میں اپنی پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کا پیارا تھا ، میرا اور میری سب سے چھوٹی بہن کا عمر کا وقفہ 10 سال کا تھا
۔می می بیٹے کے شوق میں ہر سال بچہ پیدا کرتی رہیں اور ہر سال بیٹی آتی گئی
آخر کار جب وہ اللہ کی کرنی پہ صبر شکر کر کے بیٹھ رہیں تو 10 سال کے وقفے سے میں دنیا میں آ گیا۔
یوں میری می می کی زندگی کا دائرہ مکمل ہو گیا۔ می می اپنی ساری بیٹیوں کو اور مجھے بھی ڈھیر سارا پڑھانا چاہتی تھیں۔ لیکن بابا بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے۔
میری ساری بہنوں کی شادیاں میٹرک کے بعد ہوتی گئیں اور ماشااللہ سب کو اچھے سسرال ملے۔جس کی ایک وجہ تو بہنوں کی بہترین تربیت ان کا اپنا طریقہ سلیقہ ، انکا حسن اور دوسری وجہ بابا کا مالی طور پہ مستحکم ہونا تھا۔ جب تک میں نے ہوش سنبھالا میری سب سے چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو چکی تھی
یوں میری دوستی بہنوں سے نا ہو سکی۔
لیکن می می کے ساتھ ماں بیٹے والی محبت کے ساتھ ساتھ میری دوستی بھی تھی۔
شائد جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے نوٹ کیا کہ بابا ہم لوگوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اُنہیں می می سے بالکل لگاؤ نہیں تھا ۔
انکے کے ہر کام میں کیڑے نکالنا انکے کے میکے والوں کا مذاق اڑانا، اگر کبھی ننھیال سے کسی نے آنا ہوتا تو بابا کا موڈ سخت خراب ہو جانا ، بتیاں پنکھے بند کر دینا، خرچوں کا رونا ، رونا شروع ہو جانا
اسی طرح کی اور بہت ساری باتیں ،جن سے انکی ناگواری کا پتہ چل جاتا۔ تو می می آہستہ آہستہ میکے والوں سے کنارہ کشی کرتی گئیں۔
بابا مضبوط کردار کے انسان تھے، بظاہر ان میں کوئی بری عادت نہیں تھی۔ برے دوستوں کی محفل بھی نہیں تھی
لیکن وہ بہت کڑوی زبان والے اور ہاتھ چھٹ بھی تھے۔اکثر می می کو تھپڑ ، دھکا دھپا وغیرہ مار جاتے تھے
انہیں اپنے کاروبار سے لگاؤ تھا، بہت جمع تفریق کرنے والے، پیسہ پیسہ بچا کے رکھنے والے
انکے خیال میں بچیوں کو زیادہ پڑھانا بالکل فضول ۔ بس انہیں زیادہ سارا جہیز دے کے رخصت کر دیں۔
اگر کوئی پیسہ خرچ کرنا بھی ہو تو ساری دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ ملک صاحب نے اتنا کچھ لٹایا ہے۔
 جبکہ می می رنگوں کی ، بھولوں کی، خوشبوؤں کی، تتلیوں کی باتیں کرنے والی ، لوگوں کے غم کو محسوس کرنے والی شخصیت تھیں۔
بابا بے شکّ می می جیسے نا ہوتے لیکن انکی عزت نفس کو، خود داری مجروح کرنے والے نا ہوتے۔ انکے میکے والوں کا مذاق نا اڑاتے، چار بندوں کی محفل میں بیٹھ کے طریقے طریقے سے می می کی ہتک نا کیا کرتے۔
انکی ان باتوں کی وجہ سے میرا جھکاؤ ماں کی طرف بڑھتا گیا۔ اسی طرح می می کی دوستی انکی شاعری ، ان کے ساتھ انکے دکھ سکھ سنتے سناتے میں میٹرک میں آگیا
میری پیاری می می نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ عورت جس روپ میں آپکی زندگی میں آے اسکی عزت کرنا۔
خاص طور پہ وہ عورت جسکی زندگی کی ڈور تم سے بندھ جانے اسکی بہت عزت کرنا
می می جتنا مجھ سے پیار کرتی تھیں اتنا وہ اور کسی سے نہیں کرتی تھیں۔
جب ہم بیٹھ کے باتیں کررہے ہوتے تو وہ مجھے بتاتیں کہ تمھاری بڑی بہنوں کی دفعہ تو مجھے وقت ہی نہیں ملا ان سے پیار کرنے کا۔انکی تو بس خدمت کی۔انہیں بڑا کیا اور شادیاں کر دیں۔
اب تم میرے ساتھ ہو تو تم میری بیٹی بھی ہو میریے دوست بھی ہو اور میرے بیٹے بھی ہو۔
وہ میری پہلی محبت تھیں جبکہ میں انکی آخری محبت تھا۔ بابا کیونکہ زیادہ پڑھنے کے حق میں نہیں تھے تو ٹیوشن وغیرہ کو بالکل غیر ضروری کہتے
لیکن می می اپنے گھر کے خرچوں میں سے بچت کر کے مجھے ٹیوشن بھیجتیں۔
میرے ایف ایس سی (پری میڈیکل)میں نمبر بہت اچھے آے تو می می کا مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ جب بابا کو پتہ چلاکہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے صاف منع کر دیا۔ بابا کا کہنا تھا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ بس دکان پہ بیٹھو اور کاروبار سنبھالو۔ میں خود بھی دکان پہ بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔
شائد می می نے بچپن سے ہی میرے زہن میں زیادہ سارا پڑھنے کا خیال ڈال دیا تھا۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب می می نے میرے میڈیکل کالج کے داخلے کیلئے زندگی میں پہلی مرتبہ بابا سے اونچی آواز میں بات کی۔
بابا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ می می ان کے ساتھ بحث کریں گی ۔بابا می می کو بالوں سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوے دوسرے کمرے میں لے گئے اور انہیں بیڈ پر دھکا دے کر گرایا۔
لیکن بیڈ پر گرنے کی بجائے وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر جا گریں اور انکا سارا وزن ان کے بازو پر انے کی وجہ سے ان کا بازو ٹوٹ گیا ۔
اس وقت دادی بھی وفات پا چکی تھیں۔ اس لئے ان کی ساری تیمارداری میں نےخود کی 
میں خود انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
میں نے انہیں کہا کہ اپ نے کیوں میرے لئے بابا سے بحث کی تو انہوں نے کہا کہ میرا خواب تھا۔ کہ میرا کوئی بچہ ڈاکٹر بن جاتا ۔
بیٹیوں کی مرتبہ تو میں خاموش رہی لیکن اب میں خاموش نہیں رہوں گی۔ چاہے مجھے اس سے زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑے۔
حالانکہ می می اکثر کہتی تھیں کہ مار کھانا یا ناکھانا عورت کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔جب عورت زبان چلاتی ہے تو مرد ہاتھ اٹھاتا ہے
لہذا وہ میرے بابا سے کبھی بحث نہیں کرتی تھی۔
اپنی عزت بچا کے رہتی تھیں۔ 
باہر لوگوں میں انکی عزت بنی ہوئی تھی۔
لیکن میری محبت میں انہوں نے بابا سے بحث کی اور انہوں نے دھکا دیکر انہیں زخمی کردیا تھا۔ اس دن ہسپتال سے واپس انے کے بعد میں بابا کے سامنے آگیا اور ان سے الجھ پڑا کہ اپ نے ماں کو کیوں دھکا دیا ، مجھ سے بات کریں۔
ان کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ ان سے کوئی اونچی آواز میں بات بھی کرجانے ۔انہوں نے کھڑے کھڑے مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔میں بھی اپنے بابا کا ہی بیٹا تھا، میں کب کسی کی بات برداشت کرتا۔بیگ میں دو چوڑے کپڑے رکھے اور گھر سے نکل آیا۔
میں میٹرک اور ایف ایس سی کا اپنے کالج کا ٹاپ پوزیشن ہولڈر طالب علم تھا
میں نے اپنے ایک دوست کو کہا کہ یار میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں جب تک کہ میڈیکل کالج کی میرٹ لسٹ نا لگ جاے
انٹری ٹیسٹ اس وقت تک متعارف نہیں ہوا تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ میں نے اپنے بل بوتے پہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔
میں تیسرے سال میں تھا جب بابا نے شائد محبت سے مجبور ہو کے می می کو بھیجا کہ اس کو منا کے لے آؤ۔
اگر بابا خود آتے تو میں کبھی واپس نا آتا لیکن یہ تو میری پیاری می می تھیں جو مجھے لینے آئیں تھیں اور میرے آگے ہاتھ باندھے بیٹھی تھیں۔اس دن میں ان کے کے گلے لگ کے یوں رویا جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتا ہے۔
بہر حال میں گھر تو آگیا لیکن میرا دل نا گھر میں لگا اور نا ہی بابا کی طرف سے صاف ہوا۔
یہاں تک کہ میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی۔
میرے دوست کی بہن، ، مدیحہ جو میری ہم جماعت بھی تھی اس کیلئے میں نے می می سے کہا۔ گو کہ بابا کے زہن میں اپنی فیملی سے کچھ لڑکیاں تھیں لیکن انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بہت جلد میں اور مدیحہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے
میرا دل پاکستان سے اچاٹ ہو چکا تھا۔بہنیں میرے ساتھ پیار کرتی تھیں، میں بھی ان سے پیار کرتا تھا لیکن وہ جو بہنیں اور بھائی اپس میں پیار، پیار سے لڑتے ہیں ، بہنیں بھائیوں کو فرمائشیں ڈالتی ہیں، بھائی بہنوں کو لاڈ لاڈ میں تنگ کرتے ہیں ،ہمارے درمیان ایسا کچھ نہ تھا ۔بابا بھی پیار کرتے ہونگے لیکن انہوں نے کبھی کھل کے مجھے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا۔
 البتہ شدید محبت مجھے صرف می می سے تھی میں نے یہ سوچ کے کینیڈا امیگریشن کیلئے اپلائی کر دیا کہ جلد ہی انہیں بھی بلوا لونگا۔
بہت جلد امیگریشن ہو گئی۔لیکن یہاں پھر ایک اور امتحان پاس کرنا تھا۔ یہاں نئے سرے سے ساری پڑھائی ہم دونوں کو پھر سے کرنا پڑی۔
پھر ورک لائسنس وغیرہ
 یوں ہمیں سیٹ ہوتے ہوتے کتنے سال گزر گئے
اس عرصے میں میرا کوئی چکر پاکستان کا نہیں لگ سکا
بہنوں سے کبھی کبھار بات ہو جاتی ۔ ۔می می سے شروع شروع میں بات ہوتی رہی لیکن پھر وقفے طویل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بہت دفعہ انکی کالیں دیکھنے کے بعد مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ واپسی کال کر لوں۔
انہیں دنوں میں مجھے می می نے بتایا کہ تمھارے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے، انہیں جگر کا کینسر تھا ، انکے پیٹ میں پانی پڑ چکا تھا ، انکے بچنے کے امکانات بہت کم تھے-
وہ جیسے بھی تھے بہرحال میرے باپ تھے، میں نے فوری طور پہ پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔ مدیحہ اور دونوں بچوں کے ساتھ جب میں پاکستان پہنچا تو بابا کی میت قبرستان میں رکھی ہوئی میرا انتظار کر رہی تھی۔
گو کہ بابا نے کبھی اپنے سینے پہ لٹا کے لاڈ نہیں کرواے تھے لیکن میں جانتا تھا کہ بس صرف انکے مزاج کی سختی تھی وگرنہ وہ مجھے بہت چاہتے تھے۔
می می غم سے نڈھال نظر آرہی تھیں۔ساری بہنیں انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں
جب میں نے انہیں گلے لگایا تو وہ بہت ٹوٹ کے روئیں۔ میری پیاری می می بوڑھی ہو کے اور بھی پیاری لگ رہی تھیں ۔ 
 سفید لباس میں کوئی پر نور فرشتہ لگ رہی تھیں۔
 انکے وجود سے وہی خوشبو آرہی تھی جس کو میں محسوس کرتے کرتے انکی گود میں سو جاتا تھا۔ مجھے وہ سارے وقت یاد آرہے تھے جب وہ مجھے پڑھاتی تھیں، اور میں بار بار کبھی پانی کے بہانے، کبھی ڈور بیل کے بہانے اٹھ اٹھ کے بھاگ جاتا تھا اور وہ مجھے پکڑ پکڑ کے بٹھاتی تھیں۔روٹی کا لقمہ لے کے میرے پیچھے پیچھے بھاگتی تھیں۔
ایک ایک گھونٹ دودھ کا پینے میں مجھے پوری پوری کہانی سنایا کرتی تھیں۔
مجھے اپنے ہاتھوں سے نہلاتی تھیں، سکول کیلئے تیار کرتی تھیں۔مجھے بنانے میں سنوارنے میں انہوں نے پوری زندگی لگا دی اور میں نے انہیں کیا دیا
انکا فون آتا تو نظریں چرا لیتا، انکی باتوں کو بے دھیانی سے سنتا۔فون پہ دم کر رہی ہوتیں تو فون رکھ دیتا۔ اب میں اپنی ساری غلطیوں کی تلافی کردونگا۔
انہیں اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گا۔
لیکن یہ سب باتیں ہی رہیں۔دسویں کے بعد مجھے واپس آنا تھا۔ میرے مریض پورا پورا مہینہ پہلے وقت لیتے تھے۔ میں انہیں کیسے چھوڑ کے ادھر بیٹھ سکتا تھا۔
بچوں کی پڑھائی کا بھی حرج ہورہا تھا۔
مدیحہ کو بھی ھاسپٹل جانا ہوتا تھا۔
میں واپس آگیا، گو کہ بابا کے ساتھ بہت انسیت تو کبھی نا تھی لیکن پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ میں اندر سے خالی خالی ہوں۔
کچھ عرصے کے بعد بیٹا انجنئیرنگ کر چکا تھا
اس نے ایک انگریز لڑکی کو پسند کیا ہوا تھا ،ہم نے شرط رکھی کہ اسے مسلمان کرو گے ہم تمھاری شادی اس سے کریں گے ۔
جب وہ مسلمان ہو گئی تو ہم نے اسکی شادی اس لڑکی سے کر دی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسرے سٹیٹ میں منتقل ہو گیا۔
مدیحہ سے میں بہت کہتا تھا کہ میری پریکٹس اچھی ہے تم گھر بیٹھ کے بچوں کو دیکھا کرو۔
اگر میں سختی کرتا تو شائد وہ میری بات مان بھی لیتی۔
لیکن ہماری ماں نے ہمیں ہمیشہ عورت کی عزت اور خصوصاً اس عورت کی عزت کا درس دیا تھا کہ جو آپکے ساتھ نکاح کی ڈور میں بندھ جائے۔
اس لئے میں نے اس پہ کبھی سختی نہیں کی۔
لیکن میرے بیٹے والے واقعے کے بعد میں بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں بیٹی بھی کسی غیر مذہب لڑکے کو پسند نا کر لے۔اس لئے میں نے فوری طور پہ بیٹی کی پسند سے انڈین مسلمان گھرانے میں پڑھائی کے دوران ہی اس کی شادی کر دی۔
کچھ عرصے کے بعد میں نارمل ہو گیا۔شروع شروع میں می می سے رابطہ جلدی ہوتا لیکن آہستہ آہستہ وقفے طویل ہونا شروع ہو گئے۔
وہ فروری کی برف میں ڈوبی ہوئی صبح تھی جب می می کی کال آئی
انکی آوازکانپ رہی تھی۔
،،شائد میں پھر تم سے بات نا کر پاوں۔میرا وقت اب قریب ہے، کاش ایک دفعہ میں تمہیں اپنے سینے سے لگا کے پیار کر سکتی،،
اس کے بعد فون کٹ گیا۔
میں تو می می سے بہت زیادہ، ، بے تحاشا پیار کرتا تھا، لیکن خالی پیار سے کیا ہوتا ہے
ہم بچے والدین کی محبت کو اپنا حق سمجھ کے سمیٹتے رہتے ہیں لیکن انہیں تھوڑا سا وقت نہیں دے پاتے۔
میں نے مدیحہ اور بچوں کو ادھر ہی چھوڑا اور فوری طور پہ پاکستان کی سیٹ کروائی
جب گھر پہنچا تو میری ساری بہنیں می می کے ارد گرد اکھٹی تھیں۔
انکی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ ایک انکھ سے نور ختم ہو چکا تھا۔
میری آواز سنی تو آسمان کی طرف جمی ہوئی آنکھ میں جنبش ہوئی
انکے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور انہوں نے اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کر دی، وہ مسکراہٹ چہرے پہ ہی رہ گئی۔
بس صرف میرے انتظار میں انکی جان اٹکی ہوئی تھی۔
میری ماں، میری می می ، میری پہلی محبت میری لا پرواہیوں سے تھک کے خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو !
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے اَن کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر۔۔
دُور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو۔۔ سناتے تھے
جو ہم سے دُور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کِرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے… امی!
تتلیوں کے پَر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے'
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو،
 روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے'
 جگنوئوں کے دیس جانا ہے "

میری پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے والی می می کو میں نے اپنے ہاتھوں سے اسکی آخری گھر میں پہنچایا
 انکےگھر کو، میں نے پھولوں سے بھر دیا ہے
میں نے اپنے گھر کو تھوڑا ردو بدل کر کے اس کو ایسی ترتیب دے لی ہے کہ جب صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو سامنے می می کا گھر (قبر)نظر آرہا ہوتا ہے
نماز فجر پڑھ کے میں وہاں چلا جاتا ہوں۔سورہ ملک کی تلاوت انکے پاس بیٹھ کے کرتا ہوں
پھر پھولوں کو ، پودوں کو پانی لگاتا ہوں۔ ان پہ تتلیاں آتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ماں کی روح انہیں دیکھ کے خوش ہو رہی ہو گی۔
 بچے کینیڈا میں ہیں۔
  مدیحہ سے میں نے کہا کہ تم پاکستان آجاؤ لیکن وہ بھی ماں ہے نا۔ گھر پہ بچوں کا انتظار کرتی رہتی ہے۔جس ہفتے انہوں نے آنا ہوتا ہے انکے لئے کھانا بناتی ہے، چھوٹے پوتے کیلئے جو کھلونے خریدے ہوتے ہیں وہ اسے دے کے اسکی خوشی کو دیکھ کے خوش ہوتی ہے۔
   اور میں اب باقی زندگی اسی گھر اور اسی کمرے میں گزاروں گا جہاں میری می می کی آخری رہائش گاہ میرے کمرے کی کھڑکی سے نظر آرہی ہوتی ہے
 میں انکے گھر (قبر) کی صفائی کرتا ہوں۔انکے پھولوں کی حفاظت کرتا ہوں
کاش ہم اپنے والدین کی زندگی میں ہی انہیں وقت دیا کریں، انکی قدرو قیمت کا اندازہ لگا سکیں، انکی بے غرض محبتوں کا کچھ صلہ انہیں دے سکیں۔
کاش ۔۔اے کاش

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !