شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات.آسیہ عمران

  


 

            اس کے پاس چیزوں کی ایک لسٹ تھی کہہ رہی تھی میری ساس کئی بار گن گن کر بتا چکی ہے کہ میں نے  اپنے نواسوں کی پیدائش پر اپنی بیٹیوں کو یہ یہ کچھ دیاہے ۔اب آپ کو یہ سب کچھ میرے بچے کی پیدائش پر لانا ہے خاص طور پر سب گھر والوں کے لئے برانڈڈ سو ٹ کہ وہ کپڑے برانڈڈ پہنتے ہیں ورنہ مجھے باتیں سننا پڑیں گی ۔اور ہاں گولڈ کی کوئی چیز تو ضرور ہی بنائیے گا۔ ماں نے لمبی لسٹ پر نظر ڈالی. اگر یہ سب میکے سے جائے گا تو شوہر اور سسرال کا کیا کام ؟کیا جہیز کم تھا یا کہ اب تمھاری شادی کا خراج عمر بھر ادا کرنا ہوگا ؟ میری ساس کا کہنا ہے کہ ہم خود کبھی سسرال سے کچھ نہیں کہتے تھے چاہیے ہوتا تو ماں سے کہتے وہ لے دیتی۔وہ حیرت سے ماں بیٹی کی گفتگو سنتی بیٹھی رہ گئی۔ دو ماؤں میں بس اتنا فرق تھا ایک لڑکے کی، دوسری لڑکی کی ماں تھی۔گزشتہ دنوں غربت سے مجبور ایک خاتون نے رابطہ کیا کہ میری بیٹی کی ایک ماہ بعد شادی ہے میاں کی کمائی سے بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ بس اسی لئے آپ کے پاس آئی ہوں کہ سسرال والے بہانے بہانے سے جہیز کا پوچھتے ہیں۔ خدارا کچھ کیجئے ورنہ بیٹی بسنے سے پہلے اجڑ جائے گی۔اس کی آنکھوں کے جگنو دم توڑتے اب نہیں دیکھ سکتی ۔

             سسرال کا خوف ، جہیز کے طعنے ،خواہشات کا بے قابو جن متوسط گھرانوں کے لئے زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ ایک معیارطے ہے کہ متوسط طبقہ کی لڑکی کم ازکم اتنا تو ضرور لائے گی۔ یہ رویہ نہ صرف بچیوں کو باپ کی دہلیز پر بوڑھا کر رہا ہے بلکہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے ۔ پنجاب کے ایک دیہی علاقے کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مائیں بچی کے پیدا ہوتے ہی جہیز جمع کرنا شروع کر دیتی ہیں ۔جو بیٹی کا زیادہ جہیز جمع کرے وہ رول ماڈل قرار پاتی ہے۔شادی بیاہ ،فوتگی کی عجیب و غریب رسو م ورواج ۔ کاش کے جہیز کے بجائے تعلیم وتربیت ،دینی شعور، ذہنی جسمانی صحت پر اس قدر توجہ ہوتی ،ایسے لوگ ماڈل قرار پاتے تو سب انقلاب آ چکا ہوتا۔ میرے دیور کی دو سال پہلے شادی ہوئی ۔ دیورانی کے سامان سے دو کمرے لبالب بھر گئے ۔ وہیں ایک کمرے میں خواتین کی چہ مگوئیاں کانوں میں پڑیں  میکے والوں نے دیا ہی کیا ہے۔سوچا جان ہی باقی رہ گئی تھی بے چاروں کی ، وہ بھی دے دیتے تب بھی لوگ مطمئن ہونے والے نہ تھے۔ گاؤں دیہاتوں میں ماؤں کی آدھی زندگی بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرتے گزر جا تی ہےاور اس عظیم کام سے فراغت کے بعد دوسروں کے جہیز میں کیڑے نکالنا مقصد زندگی بن جاتا ہے۔ بس عمر عزیز یونہی تمام ہوجاتی ہے ۔

            دور جدید میں بیٹیاں بھی اب ماؤں کی ہمقدم ہیں ۔بیس پچیس سال پڑھنے اور پھر کما کر جہیز اکٹھا کرنے میں گزارتی ہیں کہ وقت رخصت شباب بھی رخصت ہونے کو ہوتا ہے۔ امی جان کچھ سال پہلے سرگودھا گئیں ۔ اپنے جہیز کے برتن بیچ آئیں اور میں سوچ رہی تھی نانی اماں نے یہ جہیز اکٹھا کرتے کیا کیا مشقتیں نہ جھیلی ہوں گی جو زندگی بھر فقط نمائش کے لئے استعمال ہوتا رہا اور آخر کار کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا ۔ جہیز جیسی لعنت اور معیار نے کیسےزندگی اجیرن کر دی ہے مثالوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے۔  ایک محترمہ جو سعودیہ میں پلی بڑھیں۔ شادی پاکستان میں سادگی سے ہوئی ۔ چند ہی سالوں میںطعن و تشنیع کے سبب ہوش وہواس کھو بیٹھیں تودوسری نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں ، نفسیاتی ظلم کی چکی میں دن رات پستی اور اپنی کرچیاں ہر شب سمیٹتی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی بہنوں نے دل ہلا دینے والے واقعات بتائے۔ام مصطفیٰ کہنے لگیںمیری والدہ نے میں ساتویں جماعت میں ہی تھی تو میرا جہیز جمع کرنا شروع کر دیا تھا ۔ چین سے کھانے کی میز کے کور، میز پوش وغیرہ ، ابو ظہبی سے بجلی کا سامان ،  ڈنر سیٹ ، کٹلری وغیرہ ۔ میرے والد فوج میں برگیڈیئر تھے ، مگر پرانے والے محدود وسائل والے ،  اب شادی ہوئی تو ایک فوجی افسر سے ۔ سسرال والوں کی امیدوں سے جہیز بہت کم تھا حالانکہ ھمارے خاندان والے کہہ رہے تھے کہ بہت زیادہ ہے ۔ پھر جب ھماری اپنی بیٹی کی شادی ہوئی تو میں نے سوچا کہ اسکو طعنے نہ سننے پڑیں، لہذا میرے والد نے ایک پلاٹ میری شادی پر بیچا تھا توہم نے جمع پونجی جو دو دو پلاٹ  تھے وہ  اپنی بیٹی کی شادی پر بیچ ڈالے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ داماد بھی فوجی تھا ۔ نتیجہ ہنوز وہی ۔ فرنیچر کے پیسے کم دیے ، کپڑے اچھے نہیں بنائے ، ساس کو کڑے نہیں دیے حالانکہ لڑکے کے گھر والوں نے کہا تھا سوا اس پیاری بچی کے کچھ نہیں چاہیے۔

            طعنے سن کر دل چاہتا  یا اپنے آپ کو مار ڈالوں یا طعنے دینے والوں کو  بیٹی اپنے دکھ سمیٹے ابدی سفر پر روانہ ہو گئی ۔ اب تو دل چاہتا ہے کہ جہیز لینے اور دینے والوں کو جیل کروا دوں۔ اپنے بیٹوں کی شادی پر سختی سے منع کیا ، پھر بھی جو کچھ انہوں نے زبردستی دیا جیسے کہ بیڈروم فرنیچر ، مجھے تو اس پر بھی ملال اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ بہو اپنے ماں باپ سے کچھ نہ لے۔ خود سے ہی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ کاش کہ جو پیسے میرے والدین نے میری شادی پر خرچ کیے اور جو ہم نے اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کیے،وہی تعلیم پر خرچ کیے ہوتے نہ کہ جہیز جیسی واہیات رسم پر۔ایک سہیلی جو لیکچرر ہیں گھر میں انتہائی کم سامان اور فرنیچر ۔ کہنے لگیں اماں نے بے حد جہیز دیا، سامان کو سنبھال سنبھال کر تھک گئی تھی ۔ایک دن سوچا یہ وقت اتنے غیر اہم کاموں کے لئے ہر گزنہیں لہذا حسب ضرورت رکھ کر باقی سب نکال دیاہے ،زندگی گویا سکون میں آ گئی ہے۔

            معاشرے کے تاریک پہلوؤں کا مشاہدہ کرتے کچھ چیزیں ابھی سے بچوں کے لئے سوچی ہیں اور اعلانیہ کہنا بھی شروع کر دی ہیں۔ شادی بیس بائیس سال تک  کر دینی ہے کہ یہی گھر بنانے کی اصل عمر ہے ۔بہوؤں سے جہیز نہیں لینا گھر کو ضرور ی سامان سے آراستہ کرنا لڑکوں کا کام ہے ۔سادگی  اہم ترین قدر ہے اس کو خاندان میں جاری رکھنا ہے۔ اعلانیہ اس لئے کہتی ہوں کہ بچوں کو ارادوں کا علم ہو وہ ابھی سے ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگیں۔ یہ سوچ شاید بڑی تبدیلی نہ لائے کم ازکم تین خاندانوں پر تو اثر پڑے گا ۔ آپ بھی عزم کر لیں ۔ یہ تبدیلی بڑی ہو جائے گی ۔ شاید اسی طرح معاشرے کی توجہ کچھ اہم کاموں کی طرف کی جا سکے گی ۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !