بشرط حیات (مکمل کتابچہ)۔۔۔۔فرح رضوان


 

ہر نۓ دن کی آمد ،ایک نئی مہلت ملنے پر، نۓ وعدے نۓ ارادے کیا ہوتے ہیں آپ کے؟-

کیوں نا بچوں کے کھیل کی طرح اپنا نیا ہدف کونا کونا رکھ لیا جاۓ -

جی وہی جو چھوٹے ہوتے کھیلا کرتے تھے،ایک بچہ باہر رہ جاتا باقی کے چار ساتھی اس سے نظر بچا کر تیزی سے اپنے کونے بدل لیا کرتے؛بیچ والا اس دوران پوری شدت سے کوشش کرتا کہ خالی ہوتے کونے میں اپنی جگہ بنا لے،اور چوک جانے والا بچہ سب "شرفاء" کے بیچ "چور" بن جاۓ ……

اس کھیل میں اقربا پروری کی ٹھیک ٹھاک گنجائش بھی ہوتی تھی اور یہ کی بھی بہت دل کھول کر جاتی ،حتی کہ اگر بیچ میں چور بن جانے والا بچہ کسی کونے والے کا فیورٹ ہوتا تو وہ اپنے ہی دوسرے کونے کے اچھے سچے اور شریف النفس ساتھی کے ساتھ وہی معاملہ کرتا جیسا کرکٹ میں ادھورا رن لے کر واپس پلٹی کھا جانے پر ہوجاتا ہے،اور اگر بیچ کی بچولی ہوتی، کوئی ایسی ہمجولی جس سے دلی تعلق خاص نہ ہوتا،یا پھر اس سے پرانا بدلہ چکانا ہوتا تب تو گیم اس قدرایمانداری اور جانفشانی سے کھیلا جاتا گویا دارین میں کامیابی کا دارومدار ہی اس گیم کی ہار جیت پر ہے -

تو بس ان شا اللہ اس بار ایسے ہی کچھ اچھی عادات اور اوصاف کو دل کے سارے کونوں میں جماکر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،رات دن کے پھیر میں دیکھنا فقط اتنا ہی تو ہے نا کہ دینا ہے تو بھی، لینا ہے تو بھی، جڑنا ہے تب بھی توڑنے کی نوبت آجانے پر بھی معامله ہو خالص اللہ ہی کے لۓ ،بیچ میں تاک لگاۓ کھڑا چور،نیکیوں کو چرا کر کونے کھدرے میں چھپ جانے اور گھس بیٹھنے والا شیطان، اپنے ہتھکنڈوں اور جھوٹی امیدوں،ریا،لالچ،کنجوسی سستی بزدلی ،مایوسی،عناد و انا وغیرہ وغیرہ کی مدد سے کسی کونے میں گھسنے نہ پاۓ ،اوربالفرض محال بھول چوک ہو بھی جاۓ توفوری توبہ کرکے اسے دل کے کونے سے ڈھونڈ نکال کر باہر کریں،یعنی فقط اتنا کرلیں کہ کسی بھی غلطی کو غلط عادت نہ بننے دیں -

عادات تو اصل میں ہماری بہت ساری ہوتی ہیں،جو حالات و واقعات کے تحت روزمرہ کام کر کے ہمارا نامۂ اعمال تیار کر رہی ہوتی ہیں،اعمال ؟یہ کیا ہیں بھلا ؟ عمل کی جمع؛اور عمل کیا ہے ؟ اختیاری فعل ،یعنی ہر وہ اچھا یا غلط رویہ یا کام جو ہم اپنی مرضی ،منشا، نیت اور ارادے کے ساتھ کرتے ہیں،اچھا یا برا عمل بن جاتا ہے-

آپ نے سنا ہی ہوگا لوگ اکثر کہتے ہیں بشرط حیات !

حیات کیا ہے؟ وفات کیا ہے؟ تمہارا آنا تمہارا جانا- ویسے تو یہ بات صرف سانس کے لیۓ بھی کہی جا سکتی ہے،کیونکہ ڈاکٹر یہی کنفرم کر کے تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ دیتے ہیں نا! کہ سانس کی ڈور ٹوٹ چکی ہے حیات کی کوئی رمق کوئی امید نہیں یہ جسم آن واحد میں جسد خاکی میں تبدیل ہوچکا ہے،اب اسے فوری طور پر سپرد خاک کر دیجۓ -

سانسیں تو ہم سب گن گنا کر اپنے اپنے حصے کی لے کر آتے ہیں اور انگنت لوگ ہمارے اطراف ایسے ہوتے ہیں جن کی طویل عرصے سے فقط سانسیں ہی چل رہی ہوتی ہیں اپنے ارادے،ایمان،فہم،اورعقل کو استعمال کر کے عمل نہیں کر سکتے،حیات کہ جسکی شرط پر انسان کسی کام کا وعدہ کر بیٹھتا ہے، بڑی ہی دور اندیشی سے دور تک کا پلان بنا لیتا ہے؛ اس حیات کی کوالٹی وہ نہیں رہ پاتی،جسمانی ،ذہنی عارضہ ایسا لاحق ہو جاتا ہے کہ اب دور دور تک عمل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی،سانس رہ جاتی ہے فعل باقی رہتے ہیں سرزد ہونے کو مگر عمل کا وقت نہیں رہ جاتا …..جیسے کسی قید خانے میں ملاقات کا وقت ختم ہونے کے حکم کے بعد سانس جاری رہتی ہے مگر جبری جدائی واقع ہونی لازم ہو جاتی ہے …..

ان حالات کے پیش نظر ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اختیار کو مکمل طور پر کام میں لاتے ہوئے،ان تمام امور پر وقت رہتے سچی توبہ خود بھی کریں اور اپنے سے جڑے پیاروں کو بھی اسکی ترغیب دلائیں،جو بے جا مزے ،مستی اور معیشت سے جڑے ہیں ،کیونکہ نفسیاتی عارضوں اور انکے بہت عرصے بعد طبعی موت سے کہیں بڑھ کر ایک مسلمان کے لیۓ نفسانی عارضہ اور اسکے سبب دل کی موت ہوتی ہے …..بشرط حیات والی شق تو بظاہر ابھی بھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے کہ ایک انسان،چل پھر رہا ہے،مال و متاع کما رہا ہے لگا رہا ہےبظاہر عقلمند دکھائی دے رہا ہے،مگرشعور کو سخت عارضہ لاحق ہو چکا ہے؛ جوسودا بھی کررہا ہے عارضی دنیا کے لیۓ-

ایسا ہوتا ہے نا کہ بچے الارم کی آواز سے بھی نہیں اٹھتے بس والدین میں سے کسی کی ڈانٹ پر بوکھلا کر اٹھ بیٹھتے ہیں؛اور جس روز والدین کی آنکھ نہ کھلے اس روز سب سوتے رہ جاتے ہیں شرط حیات کے باوجود بھی تو فلائٹ مس ہو سکتی ہے ،ٹیسٹ پیپر مس ہو سکتا ہے نقصان شدید ترین بھی ہوسکتا ہے ….

اسی طرح ضمیر کبھی کبھی تھک کر نڈھال ہو کر سو جاتا ہے نہیں جھنجھوڑ پاتا شعور کو، کہ وہ وقت پر کوئی مثبت اور دیرپا ایکشن لےکر ہمیشہ ہمیشہ کے نقصان سے بچاؤ کا انتظام کر سکے


 

لیجۓ جناب!براہ کرم ذرا ملٹپل چوائس کا ایک لازمی سوال حل کرنے میں مدد فرمائیے اس کے دو حصے ہیں ،پہلا یہ کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر جہاں کہیں مخاطب کیا گیا ہے قرآن میں تواس قدر سپیشل طرز تخاطب کے ساتھ بات،کس سے کی جارہی ہے ؟

١) منوں مٹی تلے،نۓ نۓ یا سالوں سے موت کی آغوش میں سوۓ افراد سے

٢) صرف ضعیف مسلمانوں سے

٣) صرف مسجد جانے والے حضرات سے یا نقاب پہننے والی خواتین سے -

٤)تمام جانداروں یعنی چرند پرند،جن و انس کے ہر قبیل سے -

٥)یہ صرف اور صرف ان لوگوں سے خطاب ہوتا ہے جو ایمان لاۓ -

دوسرا حصہ - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر اللہ تعالیٰ جو بھی کرنے یا اس سے باز رہنے کا حکم دیں -

١)وہ حکم بس مولوی یا بہت ہی غریب طبقے کے لیۓ ہوتا ہے،باقی کو معاف -

٢)وہ حکم محلے کے دو لوگ بھی مان لیں تو باقی کے مسلمانوں پر معاف -

٣)اللہ کا حکم ماننے سے گھر/دفتر/ملک میں بدمزگی کا خطرہ ہو تومعاف -

٤اللہ کے حکم سے سوشل سٹیٹس یا خاندانی روایات متاثر ہوں تو حقوق العباد کی بنیاد پر اللہ کا حق مار لینا مصلحت کا اعلی نمونہ ہے -

٥ کان کھول کر سنیں اور خبردار ہو جائیں کہ آگے کوئی ایسا حکم مل رہا ہے جس سے فرار پرسختی اور بجا آوری پر فلاح مقدر بن سکتی ہے-

----------------

ہم انسان اپنے کس پیارے کو کام کہتے،یا نصیحت کرتے ہیں بھلا ؟ جس کے بارے میں پتہ ہوتا ہے کہ یہ ضرورکام کرے گا،کس قدر مان اور کیسی وارننگ ہے اس ایک پکار يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا میں کہ،دنیا بھر کے انسان قران پڑھتے ہیں مگر عمل کون کر سکتا ہے؟ جو ایمان لاۓ ،اسی لیۓ بہت سے کرنے اور نہ کرنے کے کام یا ایھا الناس کہہ کر نہیں بتاۓ گۓ.

کیونکہ اس عمل کا فائدہ اور ڈھیروں انعام بھی تووہ جو ایمان لاۓ انکو ہی ملنا ہے- یہ سب کچھ جان کر مان کر سمجھ کر بھی ہوتا یہ ہے کہ "لاچار "مسلمان خواتین اپنے مسلمان شوہروں کے " غیر مسلم،مگر دور اندیش فیصلوں سے جس میں معیشت ،مزہ مستی سب دور دور تک رچا بسا ہوتا ہے خود کو اپنے پتی پرمیشور ...اوہ نہیں یہ نہیں! مسلمانوں میں تو مجازی خدا مانا جاتا ہے نا ! (پوجا نہیں جاتا غالبا بس مانا ہی جاتا ہے )جی تو انکے آگے خود کو بے بس پاتی ہیں - یا وہ "لاچارقوام " اپنی خواتین کا حکم بجا لانے پر خود کو مجبور پائیں تو بھلا کیا کریں ؟

انہیں چاہیے کہ صبر و نماز کے بعد ،دنیا بھرکے سابقہ یا حالیہ، سیاسی حالات سے سبق بھی حاصل کریں کہ، بہرحال فتح اللہ ہی کی پارٹی کوملتی ہے،افواج کتنی ہی لیس ہوں،جنگ کتنی ہی طویل مگر ٹیبل ٹاک پر آنا ہی پڑتا ہے-صرف اور صرف اگر ہمارے کام، اللہ کی پارٹی میں استقامت سے جمے رہنے والے ہیں تو حفاظت، فتح اور عزت سب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں،سب جہانوں میں،سب گھرانوں،دفتروں کارخانوں میں -

ساری بات یہ ہے کہ ہم ہی آخرت کے معاملے کو اتنا شدت سے محسوس نہیں کر رہے ہوتے، اللہ کو شدت سے چاہنے کے بجاۓ ہماری شدید محبتوں کا جھکاؤ بھی کسی انسان یا دنیا کے سامان میں کٹی پتنگ کی مانند اٹکا ہوا ہوتا ہے-

سو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواکے بعد جو حکم دیا جاۓ اس پر سر تسلیم خم کرنے کے بجاۓ ہم خود ہی وہاں سے کم ہو جاتے ہیں کہ نہ بھئی ہم سے نہیں ہو پاۓ گا -یہ فوری طور پر دوسرا گناہ سرزد ہوتا ہے ہم سے جانے انجانے کہ ہم بے سوچے سمجھے الزام دھر دیتے ہیں اپنے کریم رب پر کہ اس نے ایسی ڈیوٹی بتا دی ایک ایسے زمانے اور ملک میں جو انسان کے بس سے باہر ہے

مسئلہ عقل کا ہے،کم سن نا بالغ ،بیہوش یا مجنون کو تو وہ نماز تک معاف ہے جسے بھاگ بھاگ کر ہم مساجد میں پڑھ لینے کو کامل ایمان سمجھ بیٹھتے ہیں؛حج عمرے تک کی عبادات بھی بجا لاتے ہیں مگر یہ تین م یعنی مزے ،مستی اور معیشت،پرآنچ آجاۓ تو اللہ الغفور الرحیم یاد رہتا ہے اللہ منتقم ہے،انکار کرنے ،جھٹلانے والوں حدوں کو توڑنے والوں کو سخت ناپسند فرماتا ہے بھول جاتے ہیں-

عقل ایک نعمت اور خیر صرف اور صرف تب تک ہے جب تک عقل ایمان کے تابع ہو- اس امر کے بغیر یہ سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا کہ مزے کے ضمرے میں دوسروں کا حق مار لینا،غیبت ،بہتان ،چغلی ،جھوٹ بھی آتا ہے صرف حرام ذائقے کا مزہ نہیں -مستی میں فقط اصلی ہی نہیں سکرین ،فون اور انٹرنیٹ کے نشے جو خود بہت ہی گہری اور اندھی کھائی ہیں ،فحاشی،بے پردگی اور بہت بہت کچھ شامل ہے،معیشت میں صرف رشوت ہی نہیں،غلط کاروبار سے آمدنی ہی نہیں سودی لین اور دین بھی شامل ہے،کیا دنیا دار عقل کو یہ بات سمجھ آۓ گی کہ سود سے مال گھٹتا ہے ؟ کیونکہ سود کی آیت جسمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سود گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے یہ آخرت سے متعلق آیت ہے،وہ دن جو یوم تغابن ہوگا،اس روز سود سے منسلک افراد (خواہ دینے والے " مظلوم و مجبور " اور کتابت کرنے یا فقط سائن سے گواہی دینے والے "معصوم " بھی شامل ہوں )کسی کی بھی نیکیاں قبول نہیں کی جائیں گی،سوچیں ذرا جنت کی کنجی چھن گئی،پاسورڈ ریجیکٹ ہوگیا، ویزا کینسل پاسپورٹ جعلی نکلا تو کس سے مدد لیں گے ؟اس روز تو اللہ کے اذن کے بغیر نہ بات ہو پارہی ہوگی نہ شفاعت جبکہ اسی وقت میں حلال معیشت میں سے ذرا ذرا سا صدقه کرنے والےتک بھی نیکیوں کے پہاڑ پا رہے ہونگے تب پتہ چلے کہ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے کا اصل مطلب کیا تھا ،اس سے بہتر ہے نا کہ جن خواہشات نے ہماری مت مارکر زیرو پرسینٹ کی ہوئی ہے ان کو بقید حیات و بقائمی ہوش و حواس رہتے قابو بھی کریں اللہ سے فوری رجوع بھی-

 

حکمت عملی کے بغیر کوئی بھی کام سلیقے سے نہیں ہو سکتا ،عرف عام میں سٹریٹیجی کہا جاتا ہے یعنی مقصد حاصل کر لینے کی منصوبہ بندی،اردو میں حکمت دانشمندی کو کہتے ہیں، جس کی جڑ عربی لفظ ح ک م یعنی گھوڑے کو لگام دینا؛ اپنے نفس کے گھوڑے کو کہاں لگام دینی ہے ،کس رخ موڑنا ،کہاں روک دینا اور کہاں سرپٹ دوڑاتے چلے جانا ہے -

انسان کی بہت بڑی طاقت، اگرلوگ ہیں،توسب سے بڑی کمزوری،اور آزمائش بھی لوگ ہی ہوتے ہیں،کیونکہ اللہ کے حکم پر عمل کی راہ میں معاشرتی یا جذباتی دباؤ کے آگے لاچاری اسی پہلو سے در آتی ہے توانسان، اللہ معاف کرنے والا ہے کہہ کر خود کو باعزت بری کرنے کی کوشش میں اپنے ضمیر کوہی زندہ بیریڈ یعنی درگور کر ڈالتا ہے؛جہاں اسے ہر سمت سے کئی طرح کی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے.

ایک یہ کہ زندہ درگور روح دم گھٹنے سے تڑپتی رہتی ہے؛ دوسرا یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضمیر کو مار ڈالنے کا احساس جرم چین سے جینے کا ہر سکھ چھین لیتا ہے -اور دو وجوہات جن کا ذکر،سورہ الانعام میں ہے،ان پر آخر میں بات کرتے ہیں کیونکہ قرآن کی بات تو حتمی ہوتی ہے اسکے بعد کوئی بات کوئی مثال چہ معنی !لہٰذا شرعی نشانیوں سے قبل،آج ہم کائنات کی نشانیوں پر کچھ تدبر کر لیتے ہیں -

آج ہم نے بات بھی شروع کی تھی،گھوڑے کو لگام ڈالنے سے تو فی الحال ہم کچھ حیوانات ہی کی کارکردگی اور ذھانت و مہارت کو دیکھے لیتے ہیں کہ اللہ کی یہ مخلوق اپنے مقاصد حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کیسے کرتی ہیں -

دور گھنے جنگلات(نیپال کے نہیں اصلی والے ) میں ناریل اور اخروٹ سے مشابہ ایک پھل لگتا ہے جس کا مغزوہاں کے بندروں کو بہت پسند ہے، مگر انتہائی سخت خول کو توڑ کر اس سے گری حاصل کرنا قریبا ناممکنات میں سے ہے -

جسطرح ہم کچے کیلے اور آم گھر لاکر انکے پکنے کا انتظار کرتے ہیں،جو جو پکتا جاۓ استعمال کرتے جاتے ہیں،یا دھوپ میں کوئی سبزی یاپھل خشک کیا جاتا تھا ،یہ بندر بھی مناسب سائز کا بغیر سوکھا پھل توڑ کر ایسی جگہ لے آتے ہیں جہاں بہت بھاری اور چٹان نما پتھر موجود ہو وہ بھی دھوپ میں،کہ پھل خشک ہو سکے،پھر یہ چیک کرتے ہیں ہلا جلا کر آواز سے جیسے ہم تربوز ٹھوک بجا کرلیتے ہیں؛ مطلوبہ فروٹ تیار ہو تو انتہائی مناسب حجم اور وزن اور ایک دم پکے پتھر اوراپنی بھر پور طاقت کے ساتھ بندر اس خول کو کھول کر گری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے …...لیکن یہ مہارت ایک دن میں نہیں حاصل کی جاتی ،نہ ہی ہر ایک بندر اس ہنر کا مالک ہوتا ہے ،اپنا مقصد پانے کے لیۓ بہتوں میں سے چند ایک،عرصۂ دراز، انتھک کوشش یعنی مسلسل کرتے ہیں،جبکہ ان سے چھوٹے والے مشاہدہ فرما کر کچی پکی آدھی ادھوری پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ،انتہائی ناممکن اور احمقانہ طریقوں سے شروعات ہوتی ہے مگر اپنی غلطیوں سے سیکھ سیکھ کر نئی تکنیک لگا کربہر حال ایک روز یہ ہنر پالیتے ہیں-

اچھا یہ تو خیر بندر کا معاملہ تھا جسکے بہرحال ہاتھ تو ہوتے ہیں ،سمندر کی گہرائی میں اترتے جائیں تو دیکھیں گے یہاں ایک مچھلی شیل میں دبکے جاندار کو کھانے کی خواہش کے تحت پہلے اسے تلاش کرتی ہے؛پھر مونہہ میں دباۓ اس شیل کو اپنی پسندیدہ مضبوط چٹان تک لاکے اس شیل کو اسپر دے مارتی ہے ،پہلی دوسری تیسری ناکام کوشش کے بعد وہ یہ نہیں کہتی کہ کیا کریں ہم تو مجبور ہیں محتاج ہیں،بلکہ کوشش ہی کرتی چلی جاتی ہے حتی کہ کامیابی قدم ….اوہ دیکھا قدم بھی نہیں بیچاری مچھلی کے کہ کامیابی ان کو چوم پاتی مگر بغیر ہاتھ پاؤں کے صرف عزم ارادے اور ہمت کے بل بوتے وہ اپنا من چاہا رزق پاتی ہے ...یہ ہے وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ سمجھنے کا وقت کہ من جدا وجدا ،یعنی جس نے کوشش کی اس نے پالیا مطلب کہ اللہ تعالیٰ کو ہم اپنے تن ،من ،دھن سے کوشش تو کر کے دکھائیں کہ کل کو جنت اپنے ہمیشہ ہمیشہ کے نصیب میں لکھوا سکیں؛جہاں من چاہی عیش کر سکیں،اصل معنوں میں عافیت اور عزت اور مرتبہ پاسکیں -

مچھلی ہی کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ پیش ہے،مگرساتھ یاد دہانی بھی کہ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے قصے کو مچھلی والے کا قصہ بتایا ہے کہ کس طرح ایک ذرا سی لغزش پر انکی پکڑ ہوئی اور مچھلی کے پیٹ میں حالت ملیم ہو گئی،اگر وہ اس آیه کریمہ کو نہ پڑھتے تو قیامت تک وہیں رہتے …..

یہ نبی تھے جن کے بارے میں بات ہو رہی ہے،ہم کسی کھیت کی مولی ہوتے نا! تو کم از کم حساب کتاب سزا جزا سے تو بچ جاتے،مگر ڈرنے کی بات یہ ہے کہ حساب تو جانوروں تک کا برابرہونا ہے ہم ہیں کس بھول پلیکھے میں ،مدہوشی میں ! کس وقت کس عمر کے انتظار میں ہیں ؟ اور آ بھی گئی وہ عمر اورپا بھی لی "بشرط حیات" تواللہ سے وہ تمام توفیق حاصل کر بھی سکیں گے جسکی از خود منصوبہ سازی کر رکھی ہے،غالبا یہی رویہ assumption کہلاتا جسکے معنی ڈکشنری بتاتی ہے ،

a thing that is accepted as true or as certain to happen, without proof.


.ہمم شیطان نے اللہ کی عزت کی قسم کھا کر یہ والا وعدہ بھی کیا تھا نا کہ وہ اللہ کے بندوں کو جھوٹی امیدیں دلاۓ گا …..

-انسان کو خبر ہی نہیں ہوتی؛ کل کو زندگی کیا اور کیسی ہوگی؟ایک اچھا خاصا انسان حالات سے بہت خوش یا بہت اداس و پریشان ہو کر کسی ایسے انسان میں ٹرانسفارم ہو جاۓ جسکا اسنے کبھی ارادہ تو کیا ، تصور بھی نہ کیاہو -

اوہ ! آپ کو مچھلی کے بارے بھی بتانا تھا؛جی جناب! تو گہرے نیلے پانیوں کی تہہ میں ایک حسینہ مچھلی پائی جاتی ہیں،اور ایک انکے قوی ہیکل سے نر جو شکل سے ہی، نرے جاہل اجڈ اجاڑو دکھائی دیتے ہیں،ساتھ موجود ...اب جیسے تیسے کچھ سال یہ لوگ بھی گزارہ کر ہی لیتے ہوں گے تبھی ساتھ ساتھ ہی پاۓ جاتے ہیں،البتہ حسینہ مادہ مچھلی اپنے اچھے وقت کے انتظار میں کچھ ویٹ پٹ آن فرما لیتی ہیں...اورغالبا پھر ان کو قنوطیت کا دورہ پڑ جاتا ہے تو کچھ عرصے اوڑھ لپیٹ کر کونے میں سر نیہواڑے پڑی رہتی ہیں کہ اللہ کی قدرت سے مادہ مچھلی کی ٹرانسفارمیشن کا وقت آجاتا ہے اور وہ دوشیزہ سے یک دم، دو ہتھڑ مارنے والے اپنے ہی جاہل اجڈ اجاڑو دکھائی دیتے نر میں بدل جاتی ہیں …..جی ! بالکل جیسے شانہ بشانہ والی سوچ کے تحت کاشانہ ،شاہانہ کچھ ہی عرصے میں ایک دم مردانہ مردانہ ہی ہو جاتی ہیں نا! بالکل ویسے ہی---پھر جسطرح ایک نیام میں دو تلواریں،ایک جنگل میں دو شیر،ایک گھر میں دو قوام نہیں رہ سکتے اسی طرح دو عدد نر مچھلے بھی ایک علاقے میں نہیں رہ سکتے؛پھر کیا ہوتا ہے؟ تو جناب سمندر میں تو نہ شیلٹرز بنے ہیں نہ اولڈ ہومز،بس جو بھی پٹ کٹ گیا سمجھو مر گیاسوال تو بنتا ہے یہاں کہ کیا کائنات کے دو رب ہو سکتے ہیں ؟ کیا اسکے اصول دو ہو سکتے ہیں ؟ کیا اسکی باتیں دو ہو سکتی ہیں ؟ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ہرجمعه کو ہی توملتی ہے یاد دھانی سورہ الکھف کی اٹھائیسویں آیت میں (اس کے کلام کو کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ اس کے سوا ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے) ..

لگتا ہے مچھلیوں کی یہ نئی نکور ڈسکوری خاص ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہی ہے،سورہ عنکبوت میں جس قسم کے معاشرے کی وارننگ ہے

 

 رم جھم برسات کی من موہنی آواز سماعتوں سے ٹکراۓ توذہن سکون اور دل سرور سے بھر جاتا ہے،سونگھنے کی حس  سبزے اور مٹی کی سوندھی خشبو سے نجانے بشارتوں کے کون سے خزانے پاکرسجدہ ریز ہونے کو مچل جاتی ہے،آنکھیں تاحد نگاہ دھلی فضا کو دیکھ کر ٹھنڈک پاتی ہیں،زبان چھٹخارے تلاش کرتی ہے حسین موسم سے مزید لطف اندوز ہونے کو،اعضاء قدرت کی انمول نعمت کو چھو کر اپنے اندر سمو لینے کو بیتاب ہو جاتے ہیں،غرض حواس خمسه اس غیبی تحفے کی شکر گزاری اور چاہت میں، ہر ہر طرح اسے پالینے کو لپک رہے ہوتے ہیں ...یہی کیفیت ہوتی ہے کسی بھی آسودہ حال انسان کی؛

جبکہ برسات تو وہی ہوتی ہے مگر غربت کے مارے کے لیۓ آزمائش،ابتلا اور عذاب بن جاتی ہے،وہ ترقی یافتہ علاقے میں تو گھر بنا ہی نہیں سکتا،اطراف میں کوڑے کے ڈھیر،خستہ حال سیوریج کا نظام ناک سے دماغ اور پھیپھڑوں سے حلق تک شدید بو سے، ان اعصاب کو چھلنی کر رہی ہوتی ہے، جو پہلے ہی تیزی سے ٹپکتی مخدوش چھت اور ڈوبتے فرش کے مستقبل کو دیکھ کر شل ہو رہے ہوتے ہیں،دماغ خطرے سے ماؤف اور دل خوف سے بےقابو ہو چکا ہوتا ہے کہ اس قدر تنگ معاشی حالات میں،اگلے کھانے کا انتظام کیونکر ہو پاۓ گا ؟ گھر کی مرمت کا کیا ہوگا ؟ مرمت نہ ہوئی تو زندگی کی ضمانت کا کیا ہوگا….غرض تمام تر حواس موجود ہونے کے باوجود نہ تو وہ اپنے حواس کی موجودگی پر شکر کر پاتا ہے،نہ ہی آسمان سے برستے غیبی خزانے کے حسن،اسکی کشش اور لامحدود فوائد کو محسوس کر پاتا ہے ،صرف اور صرف معاشی تنگی کی وجہ سے ….

مگر مزے کی اور انتہائی شکر کی بات یہ ہے کہ یہ حالات دنیا کے ہیں تو،سب سے بڑھ کر تو اسے اپنی ہر تکلیف پر صبر کا بہترین اجر مل جانا ہے ،پھر یہ کہ کہیں سے ہر طرح کی بھرپورمدد بھی مل سکتی ہے،حالات بھی بدل سکتے ہیں ،اور زیادہ سے زیادہ اسی تنگدستی میں مر بھی گۓتو یہ بھی ہرگز خسارہ نہیں -

خسارہ تو صرف اور صرف انکا ہے جنکے لیۓ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں معیشت تنگ کردوں گا(دنیا ،برزخ ،آخرت میں ) اوریوم الدین اٹھاؤں گا بھی اندھا،اور ہم جانتے ہیں،اس اللہ کی بات تو بدلتی بھی نہیں،اور کوئی دوسرا رب ہے نہیں جو اس اللہ سے چھڑانے والا ہو-

اب کیا کریں ؟ سب سے پہلے بچپن کا پڑھا حساب کا سبق یاد کریں کہ ضرب اور جمع سے ہمیشہ ہی رقم بڑھتی ہے ما سواۓ زیرو کے،ایک بڑی سی رقم میں ڈھیروں ڈھیر زیرو جمع کریں،وہ بڑھ کر نہیں دے گی اور خواہ کتنی ہی بڑی رقم ہو اگر اسے زیرو سے ضرب لگے تو وہ آپ زیرو ہوجاۓ گی-لازم سوال کو حل ہی نہ کیا یا جواب غلط دیا تو پورے پرچے کو زیرو کی ضرب لگ جاتی ہے،اس لۓ اہم اور لازم کے فرق کو بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے.

اہم سوال نہ بھی حل کیا توادھر ادھر سے جمع ہوکر پاسنگ مارکس ملنے کی امید رکھی جاسکتی ہے مگر سارا پرچہ بہترین اور لازمی سوال میں زیرو کا مطلب ایک لاحاصل محنت کو زیرو کی کراری ضرب لگ جانا.

اب کیا کریں ؟

اس زیرو کو درست جگہ لگانا ہوگا ….ایک سے پہلے نہیں ایک کے بعد -

جو کچھ بھی لازمی سوال، وہ بھی پانچ لازمی سوال جن کے بغیر قدم ہل نہ سکیں گے ایک دن؛ اس ایک دن کی کامیابی کی خاطرآج اس ایک لمحے کی دنیا میں،ہر غلط مزے ،مستی ،معیشت کو زیرو کرنا ہوگا،جی بالکل نمبرز کتنے بھی کنٹرول کریں،زیرو تک لانا مشکل ہوتا ہے مگر جیسے کھانا کھا کر شگر ،بلڈ پریشر ،ہارٹ بیٹ کے نمبرز بڑھتے،بے ترتیب ہوتے ،بلکہ خطرناک حد کو بھی چھونے لگ جاتے ہیں تو ہم انکو ہر طریقے سے کنٹرول بھی تو کرتے ہیں نا! ویسے ہی گناہ سے،بچنے کی کوشش، غلطی ہو جانے پرتوبہ،اور ساتھ ہی نیکیاں کرتے اپنی بیلنس شیٹ کو مینٹین کرنا ہوگا-اور کامل امید ہونی چاہیے کہ یہ جوسارے مزے ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر زیرو کیے ہیں،فقط ایک دن ،بدلے کے دن ، یوم الدین کے قائم ہونے کے بعد انگنت تا حد نگاہ نیکیوں کے پہاڑوں کی شکل میں ملیں گے

 باذن اللہ تعالیٰ 

آج آپکا تھوڑا سا انٹرویو کرنا ہے؛کچھ سوالات کرنے ہیں آپکے بارے میں- جیسے

آپ کو غصه کتنا ہی کم آتا ہو مگر جائز باتوں پر غصہ آنا تو صرف فطری ہی نہیں بلکہ غیرت اور دانشمندی کی نشانی بھی ہے----تو

کیا کبھی آپ کا واسطہ ایسے کسی قریبی یا دور کے،کسی ایک یا بہت سے لوگوں سے پڑا ہے، جن کی ایک یا بہت سی تکلیف دہ اور پختہ عادات سے...ناروا سلوک اور رویوں سے،سستی یا حماقت وغیرہ وغیرہ سے آپکو سخت تکلیف پہنچی ہو ؟ یا پہنچتی رہی ہو ؟وہ بھی عرصۂ دراز تک کہ آپکو لگتا ہو کہ بس !یہ ایک معاملہ گر سدھر جاۓ تو گویا زندگی بھر دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھانے کی کبھی ضرورت نہ پڑے،سب مسائل از خود سہولت سے حل ہو جائیں-

اس ایک معاملے پر بات اس سے جڑے سوالات سے آپ کو ایسا لگتا ہو کہ یہاں برداشت کا مادہ اس سطح پر جا پہنچا ہے کہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے ؟

تب آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ غصے اور طیش میں خون کا کھول اٹھنا ؟ غصے میں پھٹ پڑنا،احساس بے بسی میں اس غصے کا غم میں بدل جانا ؟آنسوؤں میں ڈھل جانا ؟

اچھا یہ بتائیے کیا کبھی آپ کو اپنے یا اپنے کسی بہت پیارے معصوم انسان کے غلط علاج غلط تشخیص پرافسوس کے سبب معالج پرشدید غصه آیا ہے؟ یا دواؤں میں ملاوٹ پر ؟ان کے مضر صحت ہونے پرآپ سیخ پا ہوۓ ہوں ؟

اچھا یہ بتائیے کہ آپ نے وہ نظم سنی ہے کبھی

Ding, dong, bell,Pussy’s in the well.

Who put her in?Little Tommy Thin.

Who pulled her out?Little Johnny Stout.

اکثر ایسا ہی ہوتا ہے نا زندگی میں کہ،کوئیں میں گرنا گرانا کچھ خاص مشکل نہیں ہوتا مگر گرے ہوئے کو نکالنے کے لۓ مضبوط ایمانی، اعصابی، جذباتی قوت درکار ہوتی ہے!

طہارت کے باب میں پڑھا ہی ہوگا آپ نے کتے کا کوئیں کے پانی میں گرنے کا مسئلہ کہ چند بالٹی پانی کوئیں سے باہر پھینک دیں تو پھر کوئیں کا پانی پاک ہو جاتا ہے -

مگر اس مسئلے کو جان لیا اور پانی بھی پھینک دیا مگر کتا ہی نکال کر باہر نہ پھینکا تو بھلا کیا یہ پانی پاک ہوگا؟ چلیں پاک نہ سہی کیا صاف ،صحت بخش ہوگا ؟ نہیں یہ تو تعفن اور بیماریوں کی جڑ بن جاۓ گا لہٰذا کامن سینس کہتا ہے کہ کتا سب سے پہلے نکالنا ہوگا پھر چند بالٹی پانی بھی کوئیں سےنکالھینکیں تو پانی پاک صاف ہوگا -

لیکن ہمارے معاشرے کا چلن یہ ہے کہ،ایک عرصے تک ہمارا مزہ ،مستی اور معیشت بے دینی اور ہماری عاقبت نااندیشی کے سبب سراسر غلط ہوتی ہے؛ پھراللہ اپنی خاص الخاص رحمت سے رہنمائی فرماتا ہے،تو ہم میں سے کثیر تعداد یہی کام کرتی ہے کہ چند بالٹی پانی تو پھینک دیتی ہے مگر کتا نکال پھیکنے والی ایمانی ،اعصابی ،جذباتی قوت ،اور توکل ہم میں پنپ نہیں پاتا،بلکہ توکل دو ٹکڑے ہو کر بہت بڑا سوال بن جاتا ہے؛ " تو!!! کل" کیا ہوگا ؟ اگر آج مزے ،مستی،معیشت کی پلی پلائی ہٹی کٹی گاۓ اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرنی پڑ جاۓ !!!! اب یہ ہمارے لیۓ بنی اسرائیل کا معاملہ بن جاتا ہے،اور ہم فتویٰ خریدنے نکل کھڑے ہوتے ہیں من پسند والا ….من کا کھوٹ بھلا دیتا ہے،و تذل من تشاء …..

اللہ کی راہ میں، پرتوکل قدم اٹھاتےخون خشک ہوتا ہے،تو پھر یہ خون بنتا رہتا ہے ناجائزو حرام سے،واضح رہے کہ معیشت لفظ میں عام مستحقین اور یتیموں کو نظرانداز کرکے مال کو مین میڈ روایات و تعیشات پر لگانا یا وراثت کے نام پر من مانی من چاہی تقسیم بھی شامل ہے،خواہ یہ ترکہ چھوڑنے والے کی غلطی ہو یا تقسیم کاروں کی ،باقی مزے اور مستی میں شامل اجزا کی فہرست تو انتہائی طویل ہے ہم سبھی جانتے ہیں -

اب کس قدر سیدھی سی بات ہے کہ دودھ انتہائی غذائیت بخش نعمت سہی مگر کچا دودھ پینے سے تپ دق یعنی ٹی بی ہوجاتی ہے ،جب تک دودھ کو خاص درجۂ حرارت دے کر ابال کر کھولایا نہ جاۓ، یہ جراثیم نہیں مرتے؛اس اصول کے مطابق ہمیں اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ جو ہمارا خون کھولتا،جلتا ہے فلاں انسان یا حالات کے سبب،کیا یہ ہماری درست تشخیص ہے یا واقعی کہیں نہ کہیں،ہمارے خون میں ذاتی یا موروثی طور پر غلط، معیشت،مزےیا مستی کے جراثیم شامل ہیں اور قدرت اپنی رحمت سے اس خون کو اس درجے کھولا کر پاک کر رہی ہے ؟

جیسے جسم کو زندہ اور صحتمند رہنے کے لیۓ خون اور پانی کی درست مقدار لازم ہےاور صحت کا خیال رکھنا عین عبادت؛مگر یہی خون یا پانی پھیپھڑوں میں بھر جاۓ تو پورا جسم تکلیف اور خطرے کا شکار ہو جاۓ گا-تو فوری علاج،خواہ تکلیف دہ بھی ہو جان بچانے کے لیۓ کرنا اور کروانا ہی پڑے گا،ایسے ہی دنیا میں رہنے کے لیۓ آسائش،آرائش ،تفریح ،مال و متاع تعلقات نبھانا سب کچھ ضروری، بلکہ ثواب کا ذریعہ ہے؛فقط چند حدود کے ساتھ جنہیں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے -اب اگر لوگ ان حدوں کو توڑیں تو وہ گناہ گار،دیکھنے والے دیکھ کر چپ رہیں کہ کیا برائی ہے یا یہ کہ بھلا ہماری سنتا ہی کون ہے تو وہ بھی گناہ گار کیونکہ جب جب بھی معاشرے میں نہی عن المنکر کا آپریشن نہیں کیا جاتا ممنوع کام معاشرے کے لنگز میں سرائیت کرتے چلے جاتے ہیں،جو تہذیب ،سکون ،ایمان اور انجام کے لیۓ سخت خطرہ ثابت ہوتے ہیں -

اور یقین جانیں کہ معاملہ اس سے ہٹ کر فقط آزمائش کا ہو تو صابرین کا معاملہ یہ ہوگا کہ گویا،اس سجی سجائی دلکش نوخیز دنیا کو بغیر میک اپ کے دن دیہاڑے دیکھ لیا ہو -

یاد ہے ہمیں سورہ الانعام کی دو آیات سے دیکھنا تھا کہ مشکلات کیوں آتی ہیں،آسانیاں کیوں 

شہزور،شہسوار بلند حوصلہ ہیروز ہمارے ارد گرد ہی مل جاتے ہیں،ان میں سے کچھ کو دنیا سر پر بٹھاتی ہے،کچھ رب کریم کے ہاں اعلی مسندوں پر بیٹھنے کے حقدار بن جاتے ہیں؛یہ عموما وہ لوگ ہوتے ہیں،جو یا تو، از خود ہی سکون و اطمنان کی تلاش میں کامیابی کی منزل کی درست سمت کھوج نکالتے ہیں؛ یا پھرزندگی کے مصائب و الام سے واسطہ پڑنے کی صورت کچھ اقدامات کا نتیجه ہوتا ہے-

ان سب کی کہانی میں،صبر،استقامت،ہمت،محنت بہت کچھ یکساں ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو سمجھداری سے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مصائب اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں،اور بشرط رجوع ہی اپنے رب کی رضا پا سکیں گے؛بلکہ کہا جاۓ کہ آزمائش والی آیات کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں کہ [ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں،جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بیشک ہم بھی اہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں-١٥٥-١٥٦-١٥٧؛٢]


 

صبر کا اپنا اجر تو ہے ہی مگر یہ کئی گنا زیادہ اس طرح بھی ہوجاتا کہ ایسے لوگ روشن مثال اور اپنے سے جڑے افراد کے لیۓ حوصلہ کا باعث ہوتے ہیں،تو انکی پیروی کرنے والوں کا ثواب تو انکے حصے جاتا ہی ہے - لیکن مصائب میں درست رخ پر صبر کرنے کی سبب آس پاس کے ماحول میں کشیدگی ،بے چینی اداسی ،مایوسی نہیں پھیلتی،بلکہ روحانی سکون،آخرت پر کامل یقین اور توکل علی اللہ خاموشی سے دلوں تک سرائیت کرتا چلا جاتا ہے،صرف آزمائشوں پر انکے ردعمل اور بلند کردار کے سبب، تو ؛سبحان اللہ اپنی ہی نوعیت کی پے در پے نوازشیں ،رحمت و اور سب سے عظیم تحفہ ہدایت،تمام جہانوں کے رب کی جانب سے تمام جہانوں کی فلاح کی نوید پاتے ہیں -

جبکہ دوسری طرف والے ہیروز عموما اپنے مصائب کو انجانے ہی میں سہی مگر جگہ جگہ سمپتھی کے نام پر کیش تو کرواتے ہی ہیں،ساتھ ہی کسی آزمائش کو زندگی کے چیلینجز سمجھ اور سمجھا کر ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان کر ،دنیا کو کچھ کر دکھانے کی سوچ ایک طرف تو ایسے ایندھن کا کام کرتی ہے،جو آخرت کے دفتر کو آگ میں جھونک کر دنیا پرستی کی ایک نہیں انگنت شمعیں روشن کرتی ہے ،دوسری جانب دنیا پرستوں کو پروانہ وار انکی ستائش کا ذمہ سونپ کر اپنا گھیرا انپر مزید تنگ کر دیتی ہے-

ان دونوں ہی صفات کے حامل افراد کے معاملات کو اور انکے ذریعے سے خود کو ہم سورہ الانعام کی چند آیات میں باسانی دیکھ سکتے ہیں،جنکی پہلے بات ہوئی تھی، وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- ایک سادہ ترجمہ یوں ہوگا [ تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں]

تدبر کی چند گھڑیوں کوکئی نوافل سے افضل کیوں کہا گیا ہے،یہ صرف ایک ہی آیت پر تدبر سے سمجھ آجاتا ہے کہ،جلدی جلدی کسی آیت کو پڑھ ڈالنے سے تو بنیادی مطلب بھی اکثر ذہن میں بہت واضح نہیں ہو پاتا،پہلی بات عربی گرامر کی بہت سرسری معلومات سے ہی پتہ چل جاتی ہے کہ بات پر زور دینے کے لیۓ کچھ الفاظ استعمال نہیں کیۓ جاتے،تاکہ بندہ خود غور و تدبر کرے ،یوں بات ذہن سے دل اور عمل میں اتر جاۓ،جیسے شروع میں دو بار تاکید کے بعد بات شروع کی گئی، پھر یہاں لفظ "یکذبوا"محذوف ہے(کیونکہ وہ امتیں جو تباہ ہوئیں کذابین کی توبہ کی عادی تھیں مصیبت پڑتی تو اللہ توبہ اوربڑے بڑے وعدے مگر بعد میں پھر جانا،پرانی ڈگر پر ) -پھر یہ کہ "لَعَلَّهُمْ" لعل ویسے تو امید افزا بات ہے ہی ،لیکن اللہ کی جانب سے کہی جارہی ہے مطلب پکی یقینی امید ٹہری یہ بات -پھر یہ کہ" بَأْسَاءِ "پر غور کریں تو اس میں بھوک ،تکلیف ،خوف ،تنگدستی جنگ بلکہ اعصابی جنگ تو ہے مگر نقصان نہیں،ویسے بھی دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان ،نقصان نہیں -" وَالضَّرَّاءِ" میں البتہ اپنی یا دوسرے کی بیماری،ذہنی اذیت اور نقصان سبھی کچھ شامل ہے اب ترجمہ کو تفصیلی انداز میں سمجھیں [ اور بیشک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے،(رسولوں نے حق ادا کردیا،قوم نے جھٹلایا) پھر ہم نے ان کو (نافرمانی کے باعث) تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ لیا تاکہ وہ (عجز و نیاز کے ساتھ) گِڑگڑائیں (42)

یعنی جس انسان کو بھی آزمائش سر پر پڑتے یہ بات سمجھ آجاۓ کہ ہر اذیت عذاب نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کے دردناک عذاب اور رسوائی سے بچنے کے لیۓ،اصلاحی اور وقتی دقت ہوتی ہے - تو بندے کا رویہ یوں ہونا چاہیۓ گویا اس دم وہ مچھلی کے پیٹ میں آگیا ہے،اسے گریہ و زاری کے ساتھ اقرار کرنا چاہیۓ، کہ پاک ہے اللہ اور میں اپنے نفس کے حق میں ظالم،اگرابھی رب نے معاف نہ کیا توآگے خسارہ ہی خسارہ ہے - ساتھ ہی بندہ جان لے کہ کوہ طور میرے سر پر کھڑا ہے اللہ کی بات من و عن مانے بغیر چارہ نہیں،یہ نہ ہی من مانی کا وقت ہے،اور نہ ہی لوگوں سے ڈرنے اور من چاہے لوگوں کی خاطر کہیں سے من چاہا فتویٰ خرید کراپنے تئیں بے قصور بننے کا،بلکہ یہ تکلیف اللہ کی رحمت اور نیک نصیب سے مہلت کی صورت ملی ہے،اللہ سے صلح اپنی اصلاح کے بغیر ممکن ہی نہیں،اپنا نفس اللہ کو بیچ ڈالنے کی گھڑی آن پہنچی ہے-

----یہ بات تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجتے وقت ہی جتلا اور بتلا دی تھی نا کہ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ -[پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،(2:38)]-

توجب بندہ سچی توبہ کے ساتھ پوری طرح اللہ تعالیٰ کے اتارے کلام کو اپنانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو،طوفان تھم سا جاتا ہے،مچھلی اللہ کے حکم سے اگل تو دیتی ہے پر حالت ملیم ہوتی ہے،سر سے پہاڑ کا بوجھ اترتا اور خوف و ملامت و حزن سے پھڑکتا،کھڑکتا ،بھڑکتا دل بھی آسودگی محسوس کرنے لگتا ہے ،روح گواہی دیتی ہے اس بات کی کہ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٤١:٣٠﴾ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ "نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (30) ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی (31) یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے" (32)

ایک بہت بڑی بات اسی دنیا سے متعلق معاملات کی اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ آیت ٦٦ کے ذریعے سے بھی ہمیں بتا دی-ترجمہ [ اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)۔]

سب سے پہلے وضاحت؛ کہ یہاں بات کسی بھی کافر یا غیر مسلم کی ہرگز بھی نہیں ہو رہی،بلکہ تیزی سے اخلاقی پیچیدگیوں کے شکار معاشرے میں رہتے، اپنی اپنی خود احتسابی ہونا ضروری ہے- اور بالفرض محال ہم میں سے کوئی بہت نیک ہو ہی چکا تونیکی کے تکبر سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے- -----

آج اللہ کے اذن سے بات ہوگی مسلمانوں کے اس گروپ کی جس میں لوگ آزمائش کو اللہ کی طرف سے رحمت ،مہلت یا اشارہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ تکالیف اور نقصانات کو زندگی کے چیلینجز کے طور پر لے کر ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان کر دل بہلانے،اور تکالیف بھلانے کے اپنے ہی مرضی کے سامان کرتے ہیں -

ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں - جن میں سے ایک ہوتا ہے فاجر جو گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں سو یہ تو اس کیٹیگری میں ہوتے ہیں، جن کے ،دوست، صحبت اور قرین شیاطین ہوتے جاتے ہیں-

----دوسرے لوگ ہیں فاسق؛یہ کون ؟ یہ اللہ کی حدیں توڑنے والے جو گناہ کو گناہ تو سمجھتے ہیں مگرمزے ،مستی اور معیشت کی خاطریا معاشرتی دباؤ کو مصلحت سمجھ سمجھا کر،کبھی کوئی تو کبھی کوئی حد توڑ لیا کرتے ہیں -

فاسق لفظ ویسے تو بہت سخت لگ رہا ہے،لیکن بہت بہت ڈرنے کی بات یہ ہے کہ انگلش یا اردو ترجمے سے تو اس میں اپنا آپ جھلکنے لگ جاتا ہے ماڈریٹ مسلم (استغفر اللہ ) ہم میں سے اکثر صرف مسلم کیوں نہیں ہوتے ؟ ماڈریٹ مسلم کب ،کیوں اور کیسے بن جاتے ہیں ؟

صرف اور صرف اس لیۓ کہ ہم فسق کی خرابی اور بڑے پیمانے پر تباہ کاری کی پہچان ہی نہیں کر پاتے -اللہ تعالیٰ اسے سمجھ کر اس سے بچنا ہم سب کے لیے آسان فرما دے ،اگر ہم ابھی تک فاسقین میں ہی ہیں، تو شیطان کے اس جھانسے ،چنگل اور ہتھکنڈے سے نکال کرجلد تائبین اور متقین میں شامل فرما دے-

مگر ہم تائب کب ہوسکتے ہیں ؟ جب ہم نافرمانی کے وبال کو جانیں ؛ اوراللہ کی حد کو توڑنے کے بد اثرات کو زندگی بھر،موت کے وقت،موت کے فوری بعد ،دیر بعد اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں روز بروز بڑھتی تنگی،دکھ ، تکلیف و اذیت کی صورت پالینے کا یقین رکھیں،اپنے اسی رب کی جانب سے جو دل سے معافی مانگنے پر معاف بھی فرماتا ہے انعام بھی مگر گناہوں پر اصرار و تکرار کے سبب غضبناک بھی ہوتا ہے بے نیاز بھی -----

بہت ہی پیارے ناموں کے پیکٹ میں بھرپور گناہ جنھیں ہم جانتے ہیں، سر فہرست انٹریسٹ کا عربی نام ربا ،اردو نام سود ہے،اسی طرح موڈریٹیڈ مسلم کے پیکٹ میں بند نفسیات سے واقف ہوناپڑے گا؛ گناہ کو گناہ سمجھنے کے باوجود کر لینا یا کرتے چلے جانا - خاص کر پبلک میں رہتے،سوسایٹی کے کامن گناہ جو اندھی تقلید یا خوشی یا رواج کے نام پر عام ہوتے،کلچرکے بھیس میں ہمارے ہاں شرف قبولیت پاتے ،تھذیب و تمدن کا روپ دھار لیتے ہیں -

وتر واجب ہے مگر ہم اسے فرض جان کر اہتمام کرتے ہیں،عید الاضحی پر قربانی واجب ہے مگر دل و جان سے خود پر فرض کر لیتے ہیں .

مگرایک بہت بڑا فرض، امت وسط کا ہم خود سے تو ادا بھی نہیں کرتے ،ساتھ ہی یہ کام شدید متاثر ہوتا ہے اس کبھی کبھی م م م م م مزے ،مستی، معیشت اور معاشرتی دباؤ میں مصلحت کی خاطر کچھ حد تک حدیں توڑ لینے کی عادت سے، کہ جو غیر مسلم بھی دیکھتے ہیں کہ شادی بھی مسلمانوں کی انیس بیس، ان ہی کی طرز پر ہوتی ہے، سالگرہ میں دھوم مچانے میں مسلمان آگے،ویلنٹائین پر مسلمانوں کے ریسٹورانٹس اور گفٹ شاپس بھری ہی نہیں بلکہ اٹی پڑی ہوتی ہیں-لباس و انداز کا کوئی خاص فرق تو رہا بھی نہیں اب تو آخر فرق کیا ہے مسلم ،غیر مسلم میں ؟

مجھے ذاتی طور پربھی فاسق کا ترجمہ "موڈریٹ مسلم" ہضم نہیں ہو پا رہا،اپنے ہی اوپر بات آنے سے دل بہت بوجھل ہے مگردین صرف روزہ نماز حج زکات نہیں،ہمارے پیارے نبی محمدصل اللہ علیہ وسلم کہ جن پر ذرا سی بھی بات کو ہم توہین مان کر غم و غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے؛آپ کی حدیث ہے کہ دین تومعاملوں کا نام ہے-

 

ہم اچھے سچے، شریف مسلم گھرانوں کو اتنی خبر بھی نہیں ہوتی کہ عورت کی عورت سے ستر کیا ہے یا صرف خواتین ہی کی محفل میں بھی عورت کا ڈانس کرنا جائز نہیں،جبکہ خواتین کی زینت اور خوش مزاجی،سی تھرو آستینیں چپکی ٹائٹس "گھر ہی گھر کے" نامحرم احباب و اقارب ،کولیگز سٹوڈنٹس وغیرہ وغیرہ کے لیےقابل قبول ہوتی ہیں،یہ اعتدال پسند گھرانوں ہی کا مزاج ہےنا ؟ یا کسی انتہا پسند کی ہم پر تہمت ؟ ؛ مرد جس قسم کی تفریحات اور شوقین مزاجی کے گرویدہ ہیں یہ کن گھرانوں سے ہیں ؟کوئی موہم سی آواز اٹھاۓ تو،یہی کہہ کر چپ کروایا جاتا ہےنا کہ، مرد ایسے ہی ہوتے ہیں؛یہ تو اس سے بھی زیادہ خوفناک مقام ہے کہ شناخت مسلم مگر دل مسلم،اور انباکس مسلم ،فون،ٹیب،لیپٹاپ مسلم ...پاسوورڈ کے تہ خانوں اور ڈیٹنگ پوائنٹس پر خود کو خدا سے چھپا سمجھنے والے مسلم کی خودی بلند کرنے کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے،اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو،وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے -

 

عجیب بات ہے نا کہ ٹائٹل امت وسط کا اوراطوار اوسط درجے کے امتی کے بھی نہیں! بھلا کسی کلاس میں اوسط درجے کا سٹوڈینٹ مانیٹر بننے لائق یا ادارے کا اوسط درجے کا ورکر ٹاپ مینجمنٹ چلانے کا اہل بھی ہو سکتا ہے ؟

اوسط درجے سے بھی کم تر کے صادق اور امین ہوتے ہیں "ہم موڈریٹ مسلمز"،افسوس کہ یہ بھی غلط فہمی یا تہمت نہیں، کیونکہ بہت سے جھوٹ کو ہم جھوٹ سمجھتے ہی نہیں ،اور بہت سی خیانتوں کو ہم جانتے ہی نہیں کہ یہ بھی امانت کا پہلو ہے،اس مقام پرتو پھسل کر،لڑھک کر گناہ کو سرے سے گناہ ہی نہ سمجھنے والی فاجر کیٹگری میں گر جانے کا چانس بڑھ جاتا ہے -من حیث القوم ہم اتنے اعلی پاۓ کے مفاد پرست،نفس پرست بغیرفسق کے تو نہیں بنے ہیں نا؟تو وسط کا مطلب معتدل اس مقام پر کس طرح کیا جاسکتا ہے بھلا ؟

ہم جب تک وسط کا معنی بیچ یعنی اسلام کے بیچوں بیچ نہ سمجھیں بات نہیں بنے گی ،کڑی نظر رکھنی ہوگی خود پر کہ ہمارے اندر کا بچہ ،زندگی کے کس کنارے پر گھڑی گھڑی بچوں کی طرح چور سپاہی کا کھیل شروع کر دیتا ہے ،ادھر کا تالا توڑیں گے-اور اس مقام پر فاسق اور متقی کے مابین فرق پر مزید غور کرنا ہوگا،گناہوں سے پاک کوئی نہیں ،متقی بھی نہیں ،مگر دو باتیں اسے متقی بناتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ پلان کر کے نہ گناہ نہیں کرتا غلطی سے ہو جاتا ہے ،دوسرا یہ کہ وہ فوری توبہ کرتا ہے ،اللہ سے اور بندے کی حق تلفی ہو تو معافی مانگتا ہے بندوں سے اور اسکے لیے بھی لمبی پلاننگ نہیں کرتا -جبکہ فاسق گناہ کا پلان کرتا ہے،اور توبہ کب کس عمل کے بعد کس عمر کے بعد یہ بھی پلان کرتا ہے-جیسے بھائی ،بہن ،بیٹے کزن کی شادی .... . ،اب آپ کہیں گے کہ بات پھر شادیوں پر ہی کیوں آجاتی ہے تو بات یہی ہے کہ ماڈریٹ مسلمز نے اپنی پہلی اور آخری تفریح اور ناک کی ساکھ اس پیاری سی سنت نکاح کو ہی سمجھ لیا ہے -

جس طرح تین خداؤں کے پیرو،عیسایت میں لوگوں کا ماننا ہے کہ عیسی علیہ السلام ان کے تمام گناہ اپنے سر لے جا چکے اگلوں کے بھی پچھلوں کے بھی،اب وہ جو جی آۓ کرتے رہیں کھلی موج مستی اور جنت - بالکل یہی سوچ اس وقت ہمارے معاشرے کی ہو چکی ہے ،نکاح کیا ؟سنت آدھا دین ،ایک نکاح خواہ دنیا کے کسی کونے میں ہو اس میں دنیا جہان سے رشتہ داروں کی شرکت عین عبادت کیونکہ حقوق العباد کا کوئی اور طریقه گویا اسلام نے نہ تو سکھایا اور نہ ہی قابل قبول ہوگا -مل کر سب کریں گے کیا ؟ ذرا ذرا سی ذرا سے دن اللہ کی حدیں توڑیں گے پوری پلاننگ اور پریکٹس کے ساتھ ،اس میں مال گن گن کر جوڑنا اور مستحق کو نہ دینا تو ابھی شامل بھی نہیں کیا ،اور وہ تمام وقت بھی جو فرشتے یقینا لکھتے ہیں جو کچھ بھی ایک یادگار تقریب بنانے میں اور اس تقریب میں شرکت کے لیے ماڈریٹ مسلمز گنواتے ہیں،اور اسکا بھی ذکر نہیں کہ وہ خود مرعوب کس گروہ سے ہوتے ہیں اور خود سے مرعوب کس کو کرنا چاہتے ہیں-

بس جان لیں کہ وسط کا معنی جب تک اسلام کے بیچ نہیں مانیں گے اپنی زندگی میں، دل و عمل کے بیچ، اللہ کے ایک، الہ واحد ہونے کا بیج پنپ ہی نہیں پاۓ گا، جب بیج ہی نہ پنپے تو بھول جائیں بڑھاپے میں سایہ دار درخت اور آخرت کے ثمرات کواور کھولیں مزید شیلٹرہومز اس معاشرے میں،اور خرید لیں کسی بھی شفاعت کے دعویدار سے جنت کا ٹکٹ-

 سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فاسق ہی کی تشریح کرنی تھی تو شروع میں فاجر کا ذکر کیوں کیا گیا ؟

وہ اس لیۓ کہ فاسق کا امام فاجر ہی ہوتا ہے-غور کریں کہ کچھ سال ہی قبل، ہمارا متقین سے بھرا پرا معاشرہ، فسق کی سمت چلا کن کی امامت میں ہے -

متقی کا احترام، نماز کے امام ہونے تک تو ٹھیک؛باقی زندگی کے ہر ہر میدان میں آنکھ ،کان ،دل کن کے لیۓ کھلے ہیں؟ یہ سوچے بغیر کہ اگر فاسق کا امام فاجر تو فاجر کا امام کون ؟اکثریت ڈائیہارٹ فین ہوتے چلے جارہے ہیں،ان اماموں کے جو گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے ،خواہ وہ کسی بھی بھیس میں ہوں، مذہبی یا گلیمرایزیڈ - واردات قلب ہوجاتی ہے، ان کا رکھ رکھاؤ،رہن سہن،شادی بیاہ دیکھ کر، سعادت،سادگی صدق و صدقے کی کیفیت یونہی تو نہیں سلب ہو جاتی ،"سہل پسند ماڈریٹ مسلمز " تواس سونامی کے آگے سرینڈر کرنے میں وقت بھی نہیں لگاتے-

جیسے تھرمامیٹر ٹوٹے تو پارہ بکھر کر کونے کونے میں چھپ جاتا ہے؛اگر اسے فوری اور مکمل نکال باہر نہ پھینکا جاۓ تو کوئی بھی بچہ مونہہ میں ڈال سکتا ہے،موت واقع ہو سکتی ہے - یہی لا پرواہی ہم سے اور ہمارے بزرگوں سے بھی ہوتی رہی، کہ جب جب ہم سے اللہ کی حدیں ٹوٹیں ہم نے فوری توبہ میں سستی دکھائی،بلکہ بہت سے موقعوں پر تو گناہ کو گناہ جانا ہی نہیں،اس پر فخر کرتے رہے،اسی کا ذکر کرتے رہے؛یہ بھی کسی قدر ایک سبب ہے کہ آج ہماری قوم کی حیا اور قدریں پارہ پارہ ہو گئیں ہیں-

کتنی بڑی نشانی اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ نماز فاسقین پر بھاری ہوتی ہے،اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ ماڈریٹ مسلمز کا تو بچہ بچہ نماز پڑھتا ہے،وہ خود بچپن سے نمازی ہوتے ہیں ؟ تو سوال بنتا ہے نا کہ کیسی نماز ؟کیا تکبیر اللہ کے آگے سب کچھ تیاگ دینا سکھاتی ہے ؟ کیا قیام رسم و رواج کے آگے فرم ہونا سکھاتا ہے ؟کیا رکوع و سجود فقط اللہ کے آگے جھک جانا سکھاتے ہیں؟ …. ہم بے روح نماز پڑھ کر خود اپنی نگاہوں میں بے شک معتبر بن جائیں مگر کہیں نہ کہیں ضمیر صدا دیتا ضرور ہے،ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں-فرق تو ہے نا کہ ہم نماز پڑھ لیتے ہیں قائم نہیں کر پاتے،ورنہ ہمارے دل میں وہ میزان قائم ہو جاتا جو ہر قول و خیال اور عمل کو فوری تول کر اسکا مول دنیا،برزخ آخرت میں کیا لگ سکتا ہے بتا دیتا اور ہم قدم قدم پر عارضی مصلحتوں کے پیچھے تن من ہار اور وار کر اللہ کی حدیں توڑ لینے کے بجاۓ تن من کی بازی لگا دیتے ان حدوں کو قائم رکھنے، قائم کرنے کی خاطر -

 

تو سیدھی سی بات ہے کہ جب نماز ہی اتنی بھاری تو قرآن پڑھنا،سرسری یا گہرائی سے سمجھنا ؟،اور عمل کرنا اس سے کہیں زیادہ بھاری بھرکم اپنی حد جاننا اور اس سے آگے نہ بڑھنا تو گویا ناممکنات ؛ اسی لیۓ بہت سی اور نیکی کی توفیق ختم ہوتی جاتی ہے اسی وجہ سے عقیدے میں جماؤ اور ٹھراؤ نہیں آتا،اور مقام افسوس کہ علم درست بھی ہو اس پر جم جانے کی قوت نہیں ہوتی -

تو پھر کم و بیش یہی صورت ہوتی ہے 

اے میرے رب، میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی، پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے" (25)اللہ نے جواب دیا "اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک اِن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، اِن نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ" (26)سورہ المائدہ - کوئی ہے خوف کی بات! اپ ٹو ڈیٹ موڈریٹ مسلمز کے لیۓ،جن کے لیۓ بیہودہ کامیڈی یا فلمیں ،آئٹم نمبر،گوسپ، نامحرم سولمیٹ سے گپ شپ ان کے نزدیک کوئی ایسی نافرمانی بھی نہیں، کہ جس پر انکو نافرمان سمجھنے جیسا گناہ کبیرہ کیا جاۓ -

مزید گناہ کب ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ، تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ شروع ہوتی ہے ،چانس تو ابھی بھی ہوتا ہے نا کہ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ شاید کہ وہ عاجزی کریں اللہ کے سامنے جھک جائیں؛ سبحان اللہ، اللہ کی رحمت کا تو یہ عالم ہے کہ فاسق کیا اور فاجر کیا ،کافراور منافق تک کے لیۓ یہ گنجائش موجود ہے قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ "سارے گناہ معاف" کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے(53)مگر اگلی ہی آیات میں شرط اور وارننگ بھی موجود ہے [اور تم اپنے رب کی طرف توبہ و انابت اختیار کرو اور اس کے اطاعت گزار بن جاؤ قبل اِس کے کہ تم پر عذاب آجائے پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی، (54) اور اس بہترین (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری جانب اتاری گئی ہے قبل اِس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، (55) (ایسا نہ ہو) کہ کوئی شخص کہنے لگے: ہائے افسوس! اس کمی اور کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حقِ (طاعت) میں کی اور میں یقیناً مذاق اڑانے والوں میں سے تھا، (56)]….

مگراس آخری مہلت اور موقع پردوسرے گروپ کے لوگ اپنی کسی بھی ،کوتاہی یا خرابی کو دور کرنے کے بجاۓ،پیر فقیر من گھڑت وظائف نظر اثر،فلاں ازم اور فلاں مریدی کے گھیرے میں یوں چکراتے پھرتے ہیں جیسے کسی روبوٹ کو گول کمرے میں حکم دیا گیا ہو کہ کونے میں بیٹھو اور وہ کونا تلاش کرنے میں ہی اپنی تواںائیوں کو پھونک ڈالے مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور (73، سورہ الحج ) -

یہاں سے بات خراب ہو جاتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے [..پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو (43) پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے (44)اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی) (45) اے محمدؐ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلاسکتا ہو؟ دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں (46)سورہ الانعام ]

اللھم لا تجعلنا منھمم

اگر ہم قرآن کریم کی ان باتوں کو تسلی اور گہرائی سے نہ سمجھیں تو اپنے ساتھ ظلم کریں گے لہٰذا چند منٹ میں  صرف  چھ  آیات اور ان میں موجود چند الفاظ پر اللہ کا فضل  مانگتے ہوئے تدبر کی عبادت کا ڈھیر سارا اجر و ثواب  کما لیتے ہیں -

 

سورت الانعام وہ عظیم مکی صورت ہے جس کا نزول ایک ہی وقت میں ستر ہزار فرشتوں کے جلو میں ہوا اس کے طرز تخاطب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جیسے کسی مجرم کو عقوبت سے قبل آخری وارننگ دی جارہی ہو-

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  

 

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٤٠﴾

ترجمه : نبی ﷺآپ (ان کافروں سے) کہہ دیجیۓ : ذرا غور سے دیکھ کر بتاؤ  کہ  اگر تم پر اﷲ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آپہنچے تو کیا (اس وقت عذاب سے بچنے کے لیے) اﷲ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو، (40)

 

 أَرَأَيْتَكُمْ :    بصیرت کی نگاہ سے اپنی حیثیت تو دیکھو اللہ کی پکڑ کے سامنے-

 

  السَّاعَةُ :   قیامت /قیامت کی گھڑی /موت -ہم اپنی زبان میں بھی ناگہانی آفت،یا کڑی آزمائش  آن        

               پڑنے پر یہ کہتے ہیں کہ قیامت ٹوٹ پڑی ،قیامت گزر گئی -




 إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ:  اگر ہو تم سچے -اللہ کو چھوڑ کر نفس کی لوگوں کی غلامی ایسے کرتے رہے گویا          

                       یہ سب اتنا بڑا سچ ہو کہ بغیر کسی سخت پکڑ کے باز آنے تیار ہی نہ تھے -

 

بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ﴿٤١﴾

 (ایسا ہرگز ممکن نہیں) بلکہ تم (اب بھی) اسی (اﷲ) کو ہی پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو ان (مصیبتوں) کو دور فرما دیتا ہے جن کے لئے تم (اسے) پکارتے ہو اور (اس وقت) تم ان کو بھول جاتے ہو جنہیں (اﷲ  کی ذات و صفات میں ،اسکا ) شریک ٹھہراتے ہو (41)

 

بَلْ إِيَّاهُ :     إِيَّا سے تو فوری طور پر ایاک نعبدو و ایاک نستعین یاد آجاتا ہے (الہی ہم صرف تیری عبادت       

               کرتے ہیں ،صرف تیری ہی مدد مانگتے ہیں ) ،اسے ہم لوگ صرف  نماز  

               ہی میں نہیں پڑھتے بلکہ کامیابی کے وظیفے  کے طور پر بھی اسکا ورد عام  لیکن اس پر کامل عقیدے اور عمل کی  پرسنٹیج کیا ہے ؟ مشکل میں قیامت کی گھڑی ٹوٹ  پڑنے پر کیا صرف اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں ؟ ہم نے  فوکسڈ رہتے ہوئے زندگی کے تین  کونے دیکھے تھے مزہ ،مستی ،معیشت -جب قیامت آن پڑے لوگ مزے اور مستی والے کونے  سے شیطان کو باہر نکال پھینکنے میں تو کمال تیزی دکھاتے ہیں ؛لیکن معیشت کے معاملے میں وہ گرمجوشی نہیں آ پاتی ،سود پر لیے گئے گھر ،کاروبار میں کمی یا خسارے کا خوف گھیر  لیتا  مال تو دور کی بات ،حال بھی درست نہیں کر پاتے کہ کم از کم لباس و انداز کے بدلاؤ سے،توبہ کی جانب سفر شروع کر دیا جاۓ -  یہاں انسان  سب سے بڑا دھوکہ ان مشیروں سے کھاتا ہے  جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا دیکھ رکھی ہے   حقیقت بھی تو یہی ہے نا کہ انہوں نے دنیا ہی دیکھی ہوتی ہے سر کی دو آنکھوں سے ،قرآن تھوڑا 

 ہی دیکھا ہوتا ہے بصیرت کی نگاہ سے -تبھی تو ان کو توکل جیسی نعمت نہ تو نصیب ہوتی ہے نہ   اسکی اہمیت کو سمجھ پاتے ہیں -لوگ خاندان کے جہاں دیدہ افراد کی اطاعت میں اللہ کی معصیت 

 اور  آخرت کی مصیبت کا سودا کر لیتا ہے،جہاں پھر نہ کوئی بہی خواہ نہ بچا سکے گا  ،نہ سفارش چلے گی،نہ کفارہ ادا کیا جاسکے گا، نہ  ہی زمین بھر سونے کا فدیہ قبول کیا جاۓ گا  -

 

‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ﴿٤٢

  ترجمه : اور بلا شبہ یہ حق ہے کہ ہم نے آپ سے قبل  بہت سی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر ہم نے ان کو (نافرمانی کے باعث) تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ لیا تاکہ وہ (عجز و نیاز کے ساتھ) گِڑگڑائیں، (42)

    بِالْبَأْسَاءِ  :  میں جو تکالیف ہیں ،وہ بھوک ہے ،خوف ہے مال و زر کی کمی ہے ،سختی ،شدت ،قوت ہے ،مگر اس اذیت میں صرف ادب سکھانا ہے نقصان دینا نہیں ،صرف سدھار مقصود ہے -

ایسی خوبصورت تادیبی کاروائی  ہے کہ بَاۡسًا شَدِیۡدًا پر رجوع الی اللہ کر لیا جاۓ تو نہ صرف  اللہ تعالیٰ کا اپنے لوٹ آنے والے بندوں سے عَذَابًا شَدِیۡدً سے بچا لینے کا وعدہ ہے ،بلکہ توبہ پر استقامت سے جمے رہنے پر  اَجۡرًا حَسَنًا جیسے فضل کا انعام بھی عطا کیا جاۓ گا ،خوشگوار نتائج  ،اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا -

وَالضَّرَّاءِ:  جسمانی،جذباتی نفسیاتی  نقصان و ضرر  ہے-  اضرار عربی کا ایسا لفظ  ہے جس میں بدحالی ،تنگی کا احساس  بھی شامل ہے اور وہ ضرر بھی  جو خصوصی طور پر ایسی اذیت  کو بیان کرتا ہے جو کسی عورت کو اپنی سوکن سے محسوس ہوتی ہو -  

 لَعَلَّهُمْ: قرآن کریم میں جب جب  لفظ  لَعَلَّ پڑھیں  اس سے متصل پچھلی بات پر غور کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ کس شرط  کے بعد تسلی تسلی دے رہے ہیں،کیونکہ اس کے معنی میں ہوتا ہے  شائد کہ ،گویا کہ ،امید ہے کہ،امکان ہے کہ توقع ہے کہ —- انسان بھی امید دلاۓ تب دل تھم جاتے ہیں ،یہاں تو وہ رب جو فضل فرما کر خوش ہوتا ہے ،جس کی عطا پر نہ کوئی سوال کر سکتا ہے نہ اسے کوئی روک سکتا ہے ،اور جسے عفو پسند ہے ،جو کہتا ہے ہو جا تو بڑے سے بڑا کام ہو جاتا ہے وہ امید افزا بشارت کا اعلان کر رہا ہے ،جو  کبھی  وعدہ  خلافی  نہیں کرتا -

 

 يَتَضَرَّعُونَ: وہ یعنی میرے بندے عاجزی کی روش اختیار کریں ،عبد کے لفظ میں ہی عاجزی اور تذلل ہے ،یعنی گڑگڑا کر  مانگنا -  ضرع البہم ،یعنی چوپائے  کا بچہ جیسے  بچھڑا یا میمنا جب گاۓ بکری کا دودھ پی کر سیر ہوں تو ماں بھی سکون پاتی ہے اور بچہ بھی توانائی پاتا ہے -تو انسسان جب عاجزی و تضرع کے ساتھ رب العالمین سے لو لگاتا ہے تو اسکی روح سرشار ہوتی ہے ،مزاج میں نرمی آتی ہے ایمان میں گرمی آتی ہے،بصیرت کی نگاہ روشن ہو جاتی ہے  ،تعلق باللہ بن جا تا ہے ،رجوع الی اللہ کا سلیقه جاآتا ہے ،توکل علی اللہ کا قرینه آجاتا ہے -

یعنی زندگی کی وہ ٹھوکر جو اله واحد کے حضور سجدے میں گرادے ،سمعنا و اطاعنا کا عادی بنا دے وہ ایک عظیم نعمت ہے -

لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تضرع الہ دین کا چراغ نہیں کہ رگڑا اور کام بن گیا -

عاجزی  اور توبہ اس کیفیت پر استقامت کا امتحان خاصا طویل ہونے لگے  ،تب اللہ تعالیٰ سے بد گمان نہیں ہونا،بد لحاظی نہیں کرنی ،ہمت نہیں ہارنی ،بلکہ،آمنت باللہ  کو زبان سے کہتے دل سے عمل کرتے   اللہ کی رسی کو تھامے رکھنا ہے ،اس یقین کے ساتھ کہ جو کوئی  طاغوت (شیطان اور ہر باطل قوت) کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لائے اس نے یقینا مضبوط رسی تھام لی ہے۔ جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور خدا (سب کچھ) سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔ (البقرہ  256)

بلا شبہ یہ صبر آزما کام ہے لیکن اسی پر اجر بھی ہے اسی  کی تعریف بھی کی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ بڑے کاموں میں سے ہے - 

صبر جمیل کا دامن تھامے رکھنے سے انسان کی شخصیت اور کاموں میں اللہ کی طرف سے جمال آجاتا ہے - 

—----------------------------

   فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾  

 ترجمه :   پھر کیوں نہ کی؟انہوں نے عاجزی و زاری، جب کہ  ان تک ہمارا عذاب آپہنچا - لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے لئے وہ (گناہ) آراستہ کر دکھائے تھے جو وہ کیا کرتے تھے، (43)     

قَسَتْ قُلُوبُهُمْ : قسوه  ہوتی ہے سختی ،لیلتہ قاسیتہ  ہوتی ہے اندھیری سیاہ رات- جبکہ ارض  قاسیہ بنجر زمین -  جبر و حق تلفی کو گناہ نہ سمجھنا ،اللہ کی حدود کو نہ تو جاننے کی کوشش کرنا اور نہ ان پر قائم رہنا ،دل کی زمین کو بنجر کر دیتا ہے ،گناہوں کے اندھیروں کی مستی اور مزے میں ڈوبے  رہنے اور صحیح معنی میں  توبہ نہ کرنے  کی  وجہ سے دلوں میں  سختی پیدا ہوکر بڑھتی چلی جاتی ہے -

 دلوں کی سختی کی بات  البقرہ کی آیت 74 میں بھی کی گئی  ہے  ترجمه : [ پھر اس کے بعد تمہارے دل ایسے سخت ہوگئے کہ گویا وہ پتھر ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو خدا کے خوف و خشیہ سے گر پڑتے ہیں۔ اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے غافل (بے خبر) نہیں ہے-

جسمانی طور پر بھی کوئی دل کے مرض میں مبتلا ہو تو اسے بیحد احتیاط کے ساتھ مسلسل علاج اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے - روحانی طور پر بھی دل کی سختی کا علاج مسنون دعاؤں اور اعمال سے ممکن ہے -

کرنے کے کام :کسی بھی  انسسان کی جائز مجبوری ، چھوٹی بڑی محتاجی میں خلوص نیت سے اسکی مدد کرنا یتیموں بیواؤں کا سہارا بننا دین کے کاموں میں تعاون کرنا -

بچنے کے کام : فرعون والی توبہ سے بچنا ،کہ عذاب پڑا تو رجوع کر لیا ،ساعه  ٹل گئی تو مزے مستی معیشت کے دباؤ کے آگے  پرانی روش اختیار کر لی -      

 

 وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ : الحمد للہ  سورہ یونس کی آیت ١٢ سے یہ  بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے -ترجمه : جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ کے بل لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح (منہ موڑ کے) چل دیتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے کرتوت  خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں۔  

 —----------------

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾

ترجمه : پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو فراموش کردیا جو ان سے کی گئی تھی تو ہم نے (انہیں اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے) ان پر ہر چیز (کی فراوانی) کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں (کی لذتوں اور راحتوں) سے خوب خوش ہو (کر مدہوش ہو) گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے اچانک انہیں (عذاب میں) پکڑ لیا تو اس وقت وہ مایوس ہوکر رہ گئے، (44)

 

اللہ تعالیٰ کی اس  سزا کی کیفیت استدراج کہلاتی ہے ،اردو میں بھی  لفظ  استعمال کیا جاتا ہے بتدریج -

انسان غلط فہمی میں مرا جاتا ہے کہ مجھے تو خوب مل رہا ہے تو یہ پکڑ کیسے ہو سکتی ہے ؟ 

ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں بھی یہ بات شامل رکھنی چاہیے کہ اچھا کرنے پر  ہر بار ہی کچھ اچھا ملنے کی توقع نہ رکھیں ،کبھی ملے گا کبھی نہیں بھی ملے گا - 

 

فَرِحُوا: کمالات اور نعمتوں پر اترا نا ،بطر کرنا یعنی خوشی یا غم یا غصے یا محبت کے  جذبات میں کنٹرول نہ کرپانا،اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو خواہ وہ مال ہو،یا اولاد یا اپنی ہی آنکھ ،کان ،زبان یا صلاحیتیں،انہیں حماقت میں گنواتے چلے جانا مگر اللہ کی راہ میں نہ لگانا -

ہمیں چاہیے کہ  صبح و شام کی دعائیں خود پر لازم کر لیں ،یہ  انسانی   نفسیات اور شخصیات کی صحت کے لیے بہترین علاج ہے - ان ہی میں سے ایک کا مفھوم  ہے کہ الہی بیشک میں آپکی پناہ میں آتا/آتی  ہوں ، بلا کی مشقت ،بدبختی کے پا لینے ،بری تقدیر اور دشمنوں کے خوش ہونے سے - سوچیں ذرا کہ صرف ایک برا فیصلہ  دنیا میں کتنے نقصانات  کا  باعث بن جاتا ہے ؛اور یہ بھی کہ بری تدبیر سے تقدیر بھلا کیونکر سنور سکتی ہے ،اور یہ بھی کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان مردود ہے ،یہ ہم سے خوش بھی نہ ہو ہماری ہنسی بھی نہ اڑا سکے -اسی طرح زوال نعمت سے بچنے کی دعا مانگتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے  عظیم نعمت اللہ کی رضا ہے، نبی ﷺ کی اتباع ہے ،دین اسلام پر جمے رہنا ہے،اللہ کی پکڑ سے بچے رہنا -

 

ایک بات توجہ طلب ہے کہ یہ آیات نبی ﷺ کی ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے کی آیت ہیں ؛تو ہمیں بھی چاہیۓ کہ اپنے گناہوں سے ،تمام تر اخلاقی برائیوں سے ،سود کی لت سے ہجرت کر جانا چاہیے -

اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک در کچھ وقت کے لیے بند ہوتا دکھائی دے تب سو در کھلنے کی چابیاں اللہ ہی کے پاس ہوتی ہیں - ہجرت کے وقت بظاہر مکہ مکرمہ میں حالت ناسازگار دکھائی دے رہے تھے مگر مدینه منورہ میں زمین تیار تھی - 

 

مُّبْلِسُونَ: روند ڈالنا ،کچل کر مار ڈالنا ،ہر خیر سے مایوس ، دائمی طور پر الله کی رحمت سے مایوس ، ابلیس بھی اسی ب ل س کے مادے سے ہے -

 

  ‏ ‏ ‏فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥

 

ترجمه :  پس ظلم کرنے والی قوم کی جڑ کاٹ دی گئی، اور تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے، (45) 

 

ظلم کی وجہ سے لوگوں کا بہت زیادہ حق مارا جانے لگے،ظالم سرکش ہو جائیں تو ایک وقت کے بعد اللہ تعالیٰ مظلوم کی آزمائش ختم کر دیتے ہیں اور ظالم کی بیخ کنی کردی جاتی ہے تاکہ دنیا میں امن برقرار رہ سکے-تو ظلم کے خاتمے پر کل شکر کل حمد رب العالمین ہی کے لیۓ -

 

ترجمه : نبی ﷺ ! ان سے کہیے ، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اورمہر لگا  دے تمہارے دلوں پر، تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلاسکتا ہو؟ دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں (46 )

—کفار مکہ بضد تھے کہ کوئی معجزہ دکھایا جاۓ  حالانکہ انسان  بذات خود مکمل طور پر معجزہ ہے-   سماعت و بصارت اسی معجزے کا حصہ ہیں ، آنکھیں بظاہر تو صرف چربی کی ایک قسم ہے لیکن کیا عظیم نے اور بے مثال نعمت ہے ،اور کیا شاندار کنیکشن ہیں دل و دماغ سے ،اور پھر انسانی دل  بظاہر گوشت کا لوتھڑا ہے ،جس میں جسمانی نظام چلانے کا سسٹم الگ ہے اور دماغ کی طرح سوچنے کی صلاحیت  کے ساتھ  سمع و بصر کی روحانی قوت بھی موجود ہے یہ جسمانی طور پر ٹھیک ہو تو جسم تندرست رہتا ہے ،یہ ایمانی  طور پر صحت مند تو روح توانا ہوتی ہے ؛اور یہ سبھی کچھ اللہ کی رحمت کے سبب ممکن ہوتا ہے اس لیۓ اللہ کی رحمت سے دوری والے کاموں سے کوسوں دور رہنا ہی دانشمندی ہے -   

 

ترجمه : نبی ﷺ ! آپ  کہیے ذرا غور کرکے بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ آجائے تو ظالم لوگوں کے سوا اور کون ہلاک و برباد ہوگا؟ (47) اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے مگر نیکوکاروں کو خوشخبری دینے والا اور بدکاروں کو ڈرانے والا بنا کر جو ایمان لے آئیں اور اپنی اصلاح کر لیں نیک عمل کریں۔ تو نہ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (48) 

 

اصلاح ایک  بیج  کی مانند ہے یہ بیج صحت مند ہوگا تبھی شجر طیبه کی نشونما ہو سکے گی- 

اصلاح کوقرآن و سنت کی روشنی میں ہی  سمجھنا انتہائی ضروری اس لیے  ہے کیونکہ دنیا بھر کے کافر ،فاسق، فاجر، مشرک و  منافق بھی یہی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں جبکہ وہ نرا فساد پھیلا رہے ہوتے ہیں ،اور وہ سب بھی جو ان کو امام بنا کر اندھی تقلید میں مبتلا ہوتے ہیں سپورٹ کرتے ہیں ،تو ہم جب تک جانیں گے نہیں رفتہ رفتہ ہر روز قرآن و سنت کی مستند  تعلیم تفسیر اور سیرت النبی ﷺ کو اپنے دل و عمل میں اخلاص نیت سے جذب نہیں کریں گے اسے  حکمت اور محنت کے ساتھ عام نہیں کریں گے،اپنی ذات کی یا معاشرے کی  اصلاح ہو گی کیسے ؟ اور یہ ایک لازم شرط ہے  رب العزت کی طرف سے کہ اصلاح کی جاۓ تب ہی دونوں جہانوں میں امان نصیب ہوگی -

 

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !