جب اُسے بستی سے نکالا گیا تو دیکھنے والوں نے بس یہی دیکھا کہ اُس کا کُل ظاہری اثاثہ تن پہ لٹکتے ہُوے چیتھڑےتھے ۔ لیکن جو دیکھنے والوں نے نہیں دیکھا وہ اُس کے دماغ میں بھڑکتی جوالہ مُکھی سوچ ، اُس کے من میں لپٹیں دیتی عشق کی لَو اور اُس کی آنکھوں میں بسنے والے وہ روشن خواب آئینے تھے جو وہ بے حس معاشرے کی بے نُور راتوں میں جامد ذہنی دیواروں پہ لگانا چاہتا تھا جس میں لوگ اپنی اصلی شکل دیکھ سکیں اور پہچان سکیں کہ وہ کون ہیں ۔
سترہویں / اٹھارویں صدی کے ایک عام آدمی کو اُس کی پہچان کی گواہی دینے والا یہ فلسفی خود کلامی کیوں کرتا رہتا تھا کہ بُلھیا! کیہہ جاناں میں کون ؟
کیا واقعی اُسے اپنی کھوئی ہُوی ذات کی کھوج ہے اور “ کُھرا” نہیں ملتا ؟ کیا در حقیقت اُسکی اپنی مٹی کی شناخت کا رنگ غیر مُلکی گھوڑوں کے سُموں سے اُڑتی گرد میں گُم ہو گیاہے جسے وہ دیوانہ وار ہٹانے کی کوشش میں اپنے ناخن زخمی کر رہا ہے ؟
اس کو سمجھنے کے لیے آئیں کچھ وقت نکال کر ٹائم مشین میں بُکنگ کرواتے ہیں اور چلتے ہیں 1680 سے لے کرسن1757 کے ہندوستان میں ۔ یہ عہد ، اورنگ زیب عالمگیر کے ریاستی جبر ، مذہبی انتہا پسندی ، عدم برداشت اور پھر اسکی وفات کے بعد مغلیہ خاندان کے شاہ بہ شاہ زوال کا عہد ہے ۔ یہ عہدایسٹ انڈیا کمپنی کے “ سونے کی چڑیا “ پر تجارتی غلیل کا نشانہ باندھنے اور دھیرے دھیرے اُس کے پر کاٹتی قینچی کا بھی ہے ۔یہ دَور اُس دارا شکوہ کی بدقسمتی کا تماش بین بھی ہے جس نے روا داری اور صوفیانہ محبت کا جھنڈا لہرانا چاہا لیکن نفرت کی آندھیاں زیادہ تیز نکلیں ۔ (وہی دارا شکوہ جو اگر اجمیر کے قریب والی جنگ جیت جاتا تو شاید تاریخ کچھ اور ہوتی )۔
اس عہد تک آتے آتے ہندوستان پہ بیرونی حملہ آوروں کے لگاۓ ہُوےپے در پے زخموں کی داستانیں گلی گلی بین کرتی پھر رہی ہیں ۔ راجدھانی دِلّی دوبارہ بستے ہی ایک بار پھر اپنے اُجڑنے کا اندیشہ لیے سہمی بیٹھی ہے ۔
یہ دور پہلے فارس سے نادر شاہ اور پھر کابل سے احمد شاہ ابدالی کی بڑھتی ہُوی یلغاروں کا بھی ہے جنہوں نے مُغلیہ سلطنت کے ڈوبتے سُورج کو علاقائی خون کی لالی میں رنگنے کا ثواب حاصل کیا ۔
اب آئیے نقشے پر”زوم اِن”کرتے ہُوے پنجاب کے شمال مشرقی گاؤں “ پانڈو کے “ پر فوکس کرتے ہیں جو قصور شہر سے چند میل کی مُسافت پر ہے ۔یہاں کے امام مسجد سخی محمد شاہ درویش اپنے فرزند عبداللہ شاہ کو قُرآن ،حدیث ، فقہ اور منطق کی تعلیم دلواتے ہیں اور فارسی میں اعلی زبان دانی کے لیے گلستان ، بوستان پڑھانے کا بندوبست بھی کرتے ہیں ۔لیکن ایسا کیا ہُوا کہ فارسی اورعربی پر خصوصیت سے اِترانے اور عوام کو اپنے علم کی گھن گرج سے متاثر کرنے کے بجاۓ بیٹےنے سیّد عبدالللہ شاہ کی
با رعب خلعت ترک کر کے عوامی “بُلھا” کا چولا پہن لیا؟ کیا اُنہوں نے آنے والے وقت کے آئینے میں جھانک لیا تھا کہ بُلھا مرنے والا نہیں ۔
بُلھے شاہ ! اساں مرنا ناہیں
گور پِیا کوئی ہور !!
باطن کی آنکھیں کھول کر دیکھنے والے نے ایسا کیا دیکھا کہ “اشرافیہ” کی زبانیں بُھلا کے عام آدمی کی آسان پنجابی میں فلسفے کی گُتھیاں سُلجھانی شروع کر دیں ۔پنجابی ۔جی ہاں وہ مظلوم زبان جسے اگر صوفی شاعروں نے نہ اپنایا ہوتا تو شاید اسے تھوڑی سی یہ اہمیت بھی نہ ملی ہوتی جو آج حاصل ہے ۔پنجابی جس میں خواجہ فرید ، بُلھے شاہ ، سُلطان باہُو ، شاہ حُسین اور وارث شاہ نے کلام کیا اور قلم توڑ گئے ۔پنجابی کی اہمیت بلھے شاہ جانتے تھے ۔پھر اتنا کچھ جاننے والا خود سے یہ سوال کیوں کرتا رہتا ہے کہ : بُلھیا کیہہ جاناں میں کون؟
ایک خیال یہ بھی اُبھرتا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہیں اپنا پتہ نہیں تھا ۔مطلب یہ کہ اچھائی ، بُرائی اور ہیرو ، ولن کے مجوزہ “درآمد شُدہ “اصولوں میں میری ذات “فِٹ “نہیں بیٹھتی۔ وہ جوبہت دُور کے طُور کے شناسا مُوسی جیسا کلیم نہ ہو اور مصر یُوں کے ( پہلے افریقی اور پھر یُونانی )فرعونوں سے بھی قُرب نہ رکھتا ہو وہ اپنی ذات کا تعین کیسے کرے ؟ مسجد کے مومن جیسی پاکیزگی اور باہر نالی صاف کرتے جمعدار کی ناپاکی دونوں کے درمیان کی اکثریت کی پہچان کیا ہے ؟ ایک عام گُنہگارانسان کی اپنے رب تک رسائی کیسے ہو ؟ وہ جو شہہ رگ سے بھی قریب ہے اُس سے بات کیسے کی جاۓ ؟ کیا اُس کے لیے اپنی مادری زبان میں شکوہ کیا جاۓ یا پھر غیر مُلکی زبان میں شُکرانہ ادا کیا جاۓ ؟
بُلھے کی یہ باتیں دلوں کو لگتی تھیں اور سوچنے والے لوگ اُس پر یقین کرنے لگے تھے خاص طور پہ نوجوان نسل ، ( اسی عُمر کے لوگ انقلابی خیالات رکھنے ، پالنے اور اُن پہ عمل کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں )اُس وقت کے خوف زدہ معاشرے نے اپنا چہرہ دیکھنے کے عذاب سے پہلے آئینہ دکھانے والے کو ہی نکال باہر کیا تو اُس نے بستی سے باہر اپنی دنیا بسا لی اور رب کی ذات کو پہچاننے میں مدد دیتا کلام کہتا رہا۔ استحصالی نظام اور طبقاتی گروہ بندی کے خلاف باغیانہ روش اپنانے والے اور دل کی راہ پہ چلنے والے سّید نے شاہ عنائت ارائیں کے ہاتھ پہ بیعت کر لی
جے تُوں لوڑیں باغ بہاراں ،
چاکر ہو جا رائیاں !
اسی مُرشد کو منانے کے لیے گھنگرو باندھ کے خواجہ سراؤں کے ساتھ رقص بھی کیا ۔۔
تیرے عشق نچایا کر کے تھّیا تھّیا !
اب بات حد سے آگے نکل گئی تھی اور عشق کا جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تھا۔”سٹیٹس کو”
کے مارے حاکموں کے ہاتھ سے کھیل نکل چکا ہے لیکن ایک داؤ ابھی باقی ہے ۔ ایسے سر پھرے لوگ اگر زندگی میں کسی طرح قابو نہ آئیں تو اُن کے مرنے کے بعد ایک ہتھیار تو استعمال ہو سکتا ہے نا کہ ایسے باغی کا جنازہ ہی نہ پڑھایا جاۓ ۔خیر یہ سب تو ہُوا لیکن بستی کی اخلاقیات کے مالکانہ حقوق رکھنے والوں نے آنے والے وقت کا یہ منظر نہ دیکھا تھا کہ بستی سے باہر ایک کچی ڈھیری کے گرد عقیدت مندوں کے ہجوم میں اضافہ ہوتا گیا اور نئی بستی بسنا شروع ہو گئی ۔آج اس مزار پہ ہجوم رہتا ہے اور مزار کے اندر کی دیواروں سے جھانکتا یہ شعر ہر ایک ملاقاتی پہ مُسکراتا ہے کہ “ بُلھے شاہ ! اساں مرنا ناہیں ”
اب واپس آتے ہیں کیہہ جاناں میں کون جیسی گُنجل دار بُجھارت کی طرف ۔ اِس کا جواب بھی تو بلھے شاہ کے پاس ہی ہو سکتا تھا ۔
اوّل آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! اوہ کھڑا ہے کون!
میں ہی وہ ہُوں جو اپنے آپ کو جانتا ہُوں اور مکمل جانتا ہُوں ۔۔۔میں یعنی میں خود ایک شخصیت۔۔ایک انفرادی پیکر ۔ذرا ٹھہریے کیا بلھے شاہ انسان کی اُس انفرادیت کی بات تو نہیں کر رہے جس کو آگے چل کر بیسویں صدی میں اقبال نے “ خُودی “ کا نام دیا اور جس کی گواہی مذہب اور سائنس دونوں میں صاف ملتی ہے “ جس نے خود کو پہچانا اُس نے اپنے رب کو پہچانا”
کیا بلھے شاہ نے رب کی تلاش کا سفر خود کو جان لینے کے راستے سے کیا؟
لیکن بُلھے شاہ جیسا انسانیت کا عاشق عوام دوست شاعر اور فلسفی صرف اپنی بات کرے گا؟ شاید ایک قوم کی بھی اپنی انفرادیت ہوتی ہے اور وہ اپنی قوم کی بات بھی کر رہے ہوں گے ۔۔ جُزو بول کے کُل مُراد لینا ۔۔قطرے کی کیمسٹری بھی وہی ہے جو دریا کی ہے ۔ایک ایٹم سب کی کاپی ،وحدت الوجود!
کیا واقعی ہم ایسی مٹی کے وارث ہیں جہاں صدیوں پہلے خود کو جان لینے والوں نے جنم لیا تھا۔ لیکن ہم خود آج کہاں کھڑے ہیں ؟
ایسا لگتا ہے کہ چار پانچ سو سال کے بعد آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں شش جہات میں دُھند ہی دُھند ہے۔ایک کے بعد ایک نظریاتی یلغار نے اپنی ہی مٹی سے ہمارے پاؤں اُکھیڑ دیے ہیں ، ہماری اپنی ہواؤں میں ہمیں وہ گیت گانے کی اجازت نہیں جو لہلہاتی فصلوں پہ گاۓ جاتے تھے ۔مذہبی انتہا پسندی ، عدم برداشت ، زباں بندی اور نظریاتی جبر نے سوچنے ، سمجھنے اور سوال اُٹھانے کی ہمت سے محروم کر دیا ہے ۔
مٹی سے پاؤں اُکھڑ جائیں تو انسان جڑ سے کاٹے گئے پیڑ کی طرح گرنے لگتا ہے ۔
ہم احساسِ کمتری کی “سموگ” میں لپٹے ایسے بے سُدھ ہیں کہ یہ بھی نہیں پُوچھتے “ کیہہ جاناں میں کون “ ؟