اسلام کا نیا جدید مگر خطرناک فرقہ لانچ ہو سکتا ہے جو روائتی فرقوں کے لیئے قادیانی فرقے سے بھی کئی گناہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔۔
مسلمان صدیوں سے قرآن پاک کی ہر آیت کو تاقیامت نور ہدایت سمجھتے ہیں۔۔ مگر ایک سوال آج بھی سنجیدہ علمی توجہ کا طالب ہے:
کیا رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیا؟ یا حفاظ کرام سے سن کر لکھنے کی کوئی ہدایت دی؟
اس کا جواب ہے نہیں۔۔ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی جہاں رسول ﷺ نے ایسا کوئی حکم دیا ہو اور یہ تمام روائتی فرقوں کے علما کے لیئے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اگر اس بنیاد پر اسلام کا ایک نیا فرقہ بن گیا تو روائتی شریعیت کو ختم کر کے نئی شریعیت بنا سکتا ہے۔۔اس نئے فرقے کا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ مذہبی شدت پسندی مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے اور دین اسلام کو سائنس اور جدید علوم کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے،نئی آنے والی نسل کو مرتد ہوے اور الحاد کی جانب جانے سے روکا جاسکتا ہے۔۔ لیکن اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اس فرقے کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو روائیتی اسلامک کلچر جو نہائت خوبصورت ہے، سخت متاثر ہو سکتا ہے اور صرف اسی بنیاد پر اور بھی نئے فرقے بھی جنم لے سکتے ہیں جو ایورپی طرز زندگی کی طرح جدید ہوں اور یہ واقعی ایک خطرناک بات ہوگی اور شائد مستقبل میں ایسے ہی جدید فرقے مقبول ہوتے نظر آئیں۔۔۔
اگر ایسا فرقہ لانچ ہوتا ہے تو اسے ریاستی چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہو گی تاکہ نئی نئی چیزیں شامل کر اسلامیک کلچر کو تباہ ہونے سے روکا جائے اور دوسرے فرقوں سے تصادم سے خون خرابہ نہ ہو۔۔اس نئے فرقے کو قادیانی فرقے سے بھی زیادہ خطرناک کہا جاسکتا ہے۔۔
اصل حقیقت کیا ہے؟
جب ہم تاریخِ اسلام کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں، تو درج ذیل نکات بڑی وضاحت سے سامنے آتے ہیں:
❖ 1. لکھی گئی آیات::
ان آیات کو رسول ﷺ کے دور میں کتابت کے ذریعے محفوظ کیا گیا تھا.
❖ 2. یاد کروائی گئی آیات::
اس نئے فرقے کی جانب سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرامؓ کو جو آیات زبانی یاد کروائی گئیں، وہ زیادہ تر اسی دور کے حالات، جنگوں، فتوحات، اور معاشرتی نظم سے متعلق ہوں
چونکہ علما اکرام نہ اس خیال کا انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے رد کرنے کے لیئے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر سکتے ہیں اور یہ پوائینٹ ایک نیا جدید فرقہ جنم دے سکتا ہے۔۔
یہ نیا فرقہ یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ جو آیات وقتی رہنمائی کے لیے نازل ہوئیں، ان کا تحریری محفوظ کیا جانا رسول ﷺ نے لازمی نہیں سمجھا تھا، اسی لیئے کوئی ایک بھی حدیث کہیں سے بھی نہیں ملتی کہ رسول ﷺ. نے قران پاک کو کتابی شکل دینے کا حکم دیا ہو یا کوئی وحی آئی ہو کہ ایسا کیا جائے۔یہ فرقہ کہے کہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی یہ حکم نہیں دیا کہ حفاظ سے سن کر قرآن لکھا جائے کیونکہ قران کا وہ حصہ جو صحابہ اکرام کو زبانی یاد تھا وہ صرف اور صرف اسی دور کے لیئے تھا۔۔یہ ہوسکتا ہے کہ یہ فرقہ قران کو دو الگ حصوں میں بانٹ سکتے ہیں،ایک حصہ وہ جس ناسخ اور منسوخ آیات ہوں اور جو صرف اس دور کے لیئے تھیں اسے بلیک سیاحی سے لکھا جا سکتا ہے اور دوسری وہ آیات جو تاقیامت ہداہت تھیں۔اسے سرخ سیاخی سے لکھا جاسکتا ہے اور ان کی تفاسیر نزول قران کے ریفرنس سے روائتی علما کی تفاسیر اٹھا کر کی جاسکتی ہیں اور نیلی سیاہی سے اپنی تفسیر لکھی جاسکتی ہے۔جس سے یہ قرآنی تفسیر دین سے دور ہو چکے لوگوں یا ایسے لوگوں کے لیئے جو شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں ان کے لیئے ہر دل عزیز ہو سکتی ہے اور ایک نیا فرقہ جنم لے سکتا ہے جسے روائتی علما قادیانی فرقے سے بھی زیادہ خطرناک سمجھنے لگیں۔۔۔
قرآن کیسے جمع ہوا؟
درحقیقت ہوا کچھ یوں کہ:
جنگِ یمامہ میں جب سینکڑوں حفاظ شہید ہوئے،
حضرت عمرؓ کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ ایسی آیات جو صرف زبانی صحابہ کو یاد تھیں، وہ ہمیشہ کے لیے مٹ نہ جائیں۔
انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو قائل کیا، جو پہلے اس کام سے ہچکچا رہے تھے کہ:
"رسول اللہ ﷺ نے تو ایسا نہیں کیا، میں کیسے کروں؟"
(صحیح بخاری)
بالآخر زید بن ثابتؓ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مختلف حفاظ سے سن سن کر قرآن کو جمع کریں، مگر شرط یہ تھی کہ ہر آیت پر دو گواہ ہونے چاہییں۔
یہ عمل کسی الہامی حکم کے تحت نہیں بلکہ اجتہادی فیصلہ تھا، جو حالات کی نزاکت کے تحت کیا گیا۔
یہ نیا فرقہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ:
قرآن کا وہی حصہ ہمارے لیئے نور ہدایت ہے قیامت تک جو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دور میں لکھوایا تھا۔زیادہ تر جو آیات حفاظ کو یاد کروائی گئیں وہ مخصوص دور کے لیے رہنمائی تھیں — وہی دور جن میں وہ حالات موجود تھے۔یہ فرقہ کہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام ایک سخت گیر، منجمد مذہب نہیں، بلکہ عقل، اجتہاد اور حالات کے مطابق رہنمائی دینے والا دین ہے۔قرآن پاک کی ہر آیت آج کے دور کے لیے نہیں تھی۔بہت سی آیات مخصوص تاریخی، سماجی، اور سیاسی سیاق و سباق کے تحت نازل ہوئیں۔آج کے دور میں ہاتھ کاٹنے، سنگساری، غلاموں کے حقوق جیسے سخت قوانین کا نافذ کرنا اسلام کی روح کے خلاف ہے لہذا اسلامی شریعت کو نئے انداز میں بنانے کی ضرورت ہے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کون سی آیات اس دور کے لیئے ہدایت تھیں اور کون سی آیات تاقیامت ہدایت ہیں۔۔اسلام کا مطلب اندھی تقلید نہیں بلکہ باشعور اطاعت ہے — اور باشعور اطاعت تبھی ممکن ہے جب دین کو اصل سیاق و سباق میں سمجھا جائے۔
تو آئیے، علما اور سکالرز کا موقف دیکھتے ہیں تاکہ ان کی رائے بھی اس موضوع پر جانی جا سکے۔۔
🌟 1: انجینئر محمد علی مرزا کا مؤقف
مختصر خلاصہ:
مرزا صاحب اجتہاد کو عقل اور حالات کے مطابق شرعی دائرے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت مانتے ہیں، بشرطیکہ اس کا ماخذ قرآن و سنت ہو۔ ان کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ کا قرآن کو جمع کرنا ایک "اجتہادی فیصلہ" تھا، جو رسول ﷺ نے نہیں دیا تھا، لیکن امت کی بھلائی کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔
تفصیل:
مرزا صاحب کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو مکمل کتابی شکل میں مرتب نہیں کروایا، بلکہ مختلف آیات اور سورتیں مختلف وقتوں میں نازل ہوئیں، اور انہیں صحابہؓ زبانی اور بعض اوقات تحریری طور پر محفوظ کرتے تھے۔
جنگ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ شہید ہوئے، تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو قائل کیا کہ قرآن کو باضابطہ جمع کیا جائے۔
حضرت ابوبکرؓ نے ابتدا میں انکار کیا، کیونکہ یہ کام رسول ﷺ نے نہیں کیا تھا، لیکن بعد میں انہوں نے "اجتہاد" کے تحت یہ کام کروایا تاکہ قرآن ضائع نہ ہو جائے۔
مرزا صاحب اس فیصلے کو درست اور امت کے لیے ضروری اجتہاد مانتے ہیں۔
🌟 2: ڈاکٹر اسرار احمد کا مؤقف
مختصر خلاصہ:
ڈاکٹر اسرار احمد کے مطابق قرآن کا نزول، ترتیب، اور حفاظت ایک الٰہی نظام کے تحت مکمل ہوا، لیکن قرآن کو کتابی شکل دینا اجتہادی معاملہ تھا جو حضرت ابوبکرؓ نے حالات کو دیکھتے ہوئے کیا۔
تفصیل:
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو مکمل کروایا، لیکن کتابی شکل میں compilation کا حکم نہیں دیا، بلکہ زبانی یادداشت اور جزوی تحریری نسخوں پر انحصار کیا گیا۔
جنگ یمامہ کے بعد جب حفاظ شہید ہوئے، حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ پر زور دیا کہ اب قرآن کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے تحریری طور پر جمع کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر اسرار کے مطابق یہ "اجتہادی فیصلہ" تھا، کیونکہ اس کا حکم نہ قرآن میں تھا اور نہ ہی رسول ﷺ سے ثابت تھا، لیکن اس وقت کے حالات نے اسے لازم بنا دیا۔
وہ اس عمل کو "وحی کے تابع اجتہاد" قرار دیتے ہیں، یعنی وہ اجتہاد جو قرآن و سنت کے منافی نہ ہو۔
🌟 3: ڈاکٹر ذاکر نائیک کا مؤقف
مختصر خلاصہ:
ڈاکٹر ذاکر نائیک قرآن کے compilation کو ایک تاریخی اور اجتہادی عمل مانتے ہیں، لیکن اس میں کوئی تضاد یا تبدیلی نہیں مانتے۔ وہ حضرت ابوبکرؓ کے اقدام کو مکمل جائز اور امت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔
تفصیل:
ان کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے دور میں قرآن مختلف حصوں میں نازل ہوا، اور لکھا بھی گیا، لیکن ایک کتاب کی صورت میں compilation نہیں ہوا تھا۔
جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت کے بعد، حضرت عمرؓ نے خطرہ محسوس کیا کہ قرآن کہیں ضائع نہ ہو جائے، اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو قائل کیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ پہلے ہچکچائے، کیونکہ رسول ﷺ نے ایسا نہیں کیا تھا، لیکن بعد میں "اجتہاد" کے ذریعے فیصلہ کیا۔
وہ اجتہاد کو عقل و حکمت کے تحت کیے جانے والے فیصلے کے طور پر دیکھتے ہیں، بشرطیکہ اس کا مقصد امت کی خیر ہو۔
نتیجہ:
اگر یہ نیا فرقہ کہے کہ جس طرح اس دور میں قران پاک کی جمع آوری پر اجتہاد ہوا تھا اور یہ بات بہت واضح ہے کہ قران کو کتابی شکل میں لانے کے لیئے حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر وغیرہ کے ساتھ اجتہاد کیا تھا۔اسلام ایک فطری، عقل پر مبنی دین ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
لہذا ہمیں آج کے دور میں قرآن کو سیاق و سباق میں پڑھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ہر آیت کو موجودہ حالات پر زبردستی لاگو کرنے کی اور یہ فرقہ پاپولر ہو گیا تو روائتی علما کے لیئے یہ قادیانیوں سے زیادہ فتنہ انگیز ہو سکتا ہے۔۔