جندر۔۔۔ خالد قیوم تنولی

جندر کی ایجاد کب ہوٸی اور اس کا مٶجد کون تھا ، اس بارے مستند ثبوت کہیں نہیں ملتا۔ تاہم قیاس ھے کہ پہلی بار جب پہیہ ایجاد ہوا تو اسی خیال کو لے کر آگے مختلف اختراعات کو بھی وقوع کی راہیں ملیں۔ بنیادی طور پر یہ سب انسانی ذہن کی ہی کارستانی ھے جو ضرورت کے تحت سوجھتی گٸ۔ ہتھ چکی اور جندر بھی انسانی ضرورت سے آگے بڑھ کر تہذیبی ترقی کی علامت ، تمدنی فخر اور ثقافت کا عصری استعارہ بنے۔ ہمیں اپنے آباٸی گھر کی ہتھ چکی بخوبی یاد ھے جو قدیمی گھر کے برآمدے میں مغربی سمت تین فٹ اونچے تھلے پر مستقل نصب تھی۔ اس کا نچلا پتھر کا گول پاٹ مستقل جما ہوا جبکہ محور کے مرکز میں کَہٶُ کی لکڑی کی کِلی مضبوطی سے پیوست تھی جس پر دوسرے پاٹ کو ایڈجسٹ کر کے ایک ہاتھ سے درمیانی سوراخ میں مٹھی بھر بھر اناج دھیرے دھیرے ڈال جاتا اور دوسرے ہاتھ سے بالاٸی پاٹ کے کنارے میں فٹ کی ہوٸی دستی سے گھمایا جاتا۔ مکٸ یا گندم پسنے لگتی اور مہین آٹا اس کے نچلے پاٹ کے بیرونی پہلو سے باہر آنے لگتا۔ مشقت طلب کام تھا۔ بازوٶں بلکہ بالاٸی دھڑ کی ٹھیک ٹھاک ورزش ہو جاتی تھی۔ یہ شعبہ خواتین خانہ کے ذمہ تھا البتہ گھر کے کسی سست مزاج بندے کو متحرک کرنے کے بھی سونپ دیا جاتا۔ پانچ کلو اناج پیسنے میں تین گھنٹے صرف ہو جاتے تھے۔ اس کی درمیانی کلی کو گیٸر کی طرح کوٸی ایک مخصوص زاویہ دے کر اناج کا دلیہ بھی نکالا جا سکتا تھے۔ ہم نے یہ ہتھ چکی شوقیہ اور ضرورتاً کٸ بار چلاٸی۔ زیادہ آٹے کے لیے جندر کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ خواتین خانہ میں سے چند مل کر کلہوٹے سے اندازاً دس یا بیس سیر اناج نکالتیں۔ پھر اسے چھاجوں سے کنکر اور تیلے چھہارتیں۔ اس صفاٸی کے بعد کپڑے یا پٹ سن کی بوری میں بھر کے جندر پر لےجانے والے کے سر یا پیٹھ پہ لاد دی جاتی۔ جندر گاٶں کے شمال و جنوب میں دو تھے۔ ایک چَھریاں والا تھا۔ چَھری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لینڈ سلاٸیڈ کا سلسلہ برسوں کا معمول چلا آ رہا ہو۔ اسی نسبت سے جو جندر تھا وہ چھری کہلاتا تھا۔ اس پر گاٶں کے مستری محبوب بحیثیت جندروٸی مامور تھے۔ موصوف اونچا سنتےاور اونچا ہی بولتے بھی تھے۔ غصیلے بھی بلا کے۔ جندر کی مرمت ، پانی کے بند کی تعمیر اور دیگر تمام امور وہ تنہا سرانجام دیتے۔ پساٸی کا عوضانے کے لیے بلحاظ مقدار اناج کچھ پیمانے مقرر تھے۔ بیس سیر اناج میں سے ایک کُڑا (ڈھاٸی سیر) اناج وہ پہلے الگ کر لیتے باقی کے اناج کو پیس کر تھیلا یا بوری مالک کو پکڑا دیتے۔ دوسرا بزورے والا جندر کہلاتا تھا۔ ”بزورے“ کی وجہ تسمیہ کبھی معلوم نہ ہو سکی لیکن وہ تھا تو زمینی حقیقت۔ اس کے راکھے (Miller) خواص محمد تھے۔ بہت حلیم الطبع دھیمے اور خلیق قسم کے۔ جب جندر دانے پیسنے میں مصروف ہوتا تو خواص بابا جندر کے نچلے کھالے میں تند بہاٶ کنارے پتھر کی ایک بڑی سل پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت میں غریق ہو جاتے۔ 

جندر تيز بہاٶ والی ندی یا پہاڑی نالوں پر بنائی گئی وہ پن چکی، جس کی مکمل حرکت کا انحصار پانی کی قوت پر ہوتا ہے۔ جندر کے نيچے لگے ہوئے، پھلاہی یا کھیر کی لکڑی سے بنا گول آلہ جس پر دس یا بارہ لکڑی کے پَر بیس فٹ کی بلندی سے پرنالوں کے ذریعے پانی کی تيز دھار پڑنے سے حرکت ميں آتے اور اس کے زور سے جندر کا بالاٸی پاٹ ايک مخصوص رفتار سے چلنے لگتا۔ دونوں سنگی پاٹوں کے اوپر نصب ہاپر (کھارا) میں اناج کی بوری الٹا دی جاتی جو کیف نما ہوتا۔ اس کے نچلے سرے کے آگے لکڑی کی چھوٹی سی نالی ہوتی جس میں سے گزر کا اناج مرکزےمیں گرتا رہتا۔ واٸبریشن کے لیے ایک لکڑی کا ہی ایک چار انچ موٹا ٹکڑا بالاٸ پاٹ کو مخصوص ردھم کے ساتھ مَس کرتا رہتا۔ جندر کو تیز یا دھیما کرنے کے لیے لکڑی کا کلہ گیٸر کا کام دیتا۔ تیز چلانے کی صورت میں آٹا موٹا نکلنے لگتا جو کہ اناڑی کی پساٸی کہلاتا اور معتدل یعنی مینوول ردھم میں باریک آٹا حاصل ہوتا تو یہ معیاری پساٸی کہلاٸی جاتی۔ راکھے کی موجودگی میں غیرمتعلقہ فرد جندر کے فنکشن میں دخل اندازی کی جرأت یا غلطی نہیں کر سکتا تھا۔ اسے بس صبر و جبر کے تحت اپنی باری کا انتظار کرنا ہوتا تھا۔ البتہ کبھی کبھی جندروٸی کی عدم موجودگی میں اپنا اناج خود پیس لیا جاتا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ اگر جندر کے بارے اسے تجربہ حاصل ہو۔ 
یہ نہیں کہ جندر مفقود ہو گۓ۔ پہاڑی علاقوں میں اب بھی متعدد موجود ہیں۔سوات ، ہزارہ ، کشمیر ، پوٹھوہار ، گلگت اور بلتستان میں بیسیوں مقامات پر فعال ہیں۔ شہری آبادی کی ضرورت کو فلور ملیں پوری کر دیتی ہیں جہاں کی جدید برقی چکیاں چند گھنٹوں میں ٹنوں کے حساب سے آٹا تیار کر دیتی ہیں مگر جندر کو آج بھی کوٸی جلدی نہیں۔ رورل کلچر کی یہ قدیمی علامت اپنی مخصوص چال و رفتار میں مداخلت برداشت نہیں کرتی۔ جندر گویا حجرے میں بیٹھا وہ چلہ کش صوفی ھے جسے بیرونی دنیا کے بدلتے تقاضوں سے کوٸی سرووکار نہیں۔ اسے بس اپنے خالق کی حضوری سے غرض ھے۔ 
ہم نے ذاتی دلچسپی سے جندر کے رموز و اوقاف سیکھے تھے۔ آج بھی ہمارا ماننا ھے کہ نروان کے حصول کی تمنا ہو تو بندہ جندروٸی بن جاۓ۔ اپنے نفس کی تطہیر مقصود ہو اور اسے تمیز کی روش پر لانا ہو تو جندر کی صحبت اور خلوت نشینی سے بہتر شاید ہی کوٸی اور وسیلہ ہو۔ 
یوں تو ہم بیسیوں بار جندر پہ گۓ لیکن ایک دفعہ جبراً بھیجے گۓ۔ وہ بھی مغرب سے پہلے۔ اب یہ خوش نصیبی پہ منحصر ھے کہ آپ جندر پہ پہنچیں تو یہ اتفاقاً سستاتا ہوا یعنی بالکل ویہلا ملے۔ اس صورت میں بیس کلو اناج کی پساٸی میں زیادہ سے زیادہ دو یا ڈھاٸی گھنٹے لگتے ہیں اور آپ ہنسی خوشی گھر لوٹ آتے ہیں۔ 
ہم جب گھر سے بیس کلو کی بوری لے کر چلے تو ذہن وساوس سے بھرا ہوا تھا۔ واٸیکنگ کی طرح ہمارے کرتے کی جیب میں کمانی والا گراری دار شکاری چاکو ، احتیاطاً چھوٹی کلہاڑی ، شاڑھی (بکری کے بالوں سے بنی شال جو ہمارے ایک ہم عمر کوہستانی چرواہےدوست نے تحفہ دی تھی) اور بیٹری سیل کی تواناٸی سے چلنے والا فلپس کا چار بینڈ ریڈیو گلے میں حماٸل تھا۔ قسمت اس دن واقعی انکاری نکلی۔ جندر بے حد مصروف ملا۔ دو بندے اپنے چار گدھوں سمیت جندر کی کوٹھڑی کی چھت پر گپیں ہانکتے ہوۓ موجود تھے۔ ہمارے گاٶں کے نہیں تھے۔ بزورہ نامی یہ جندر دہرے پرنالوں اور دو پن چکیوں پہ مشتمل تھا۔ ایک جندر مکٸ جبکہ دوسرا کنڑک کی پساٸی کر رہا تھا۔ ہمارا نمبر ساتواں تھا۔ مطلب آدھی رات کے بعد ہماری باری آنی تھی۔ جندر کا ایک برطانیہ کے غیر تحریری آٸین کی مانند ایک اصول یہ بھی کہ جندروٸی نہیں مگر اناج کی بوریاں نمبر وار پڑی ہیں تو آپ قطعی مجاز نہیں کہ پہلے نمبروں کو کراس کر کے اپنا اناج پسانے لگ جاٸیں۔ بلکہ اخلاقی ذمہ داری کی رُو سے آپ نے پہلے سے موجود اناج کو بھی پسانا ھے۔ 
رات دس بجے جندروٸی بابا خواص اور ہم ہی رہ گۓ۔ ان کی بھی ڈیوٹی آف ہو چکی تھی۔ ابھی گندم والے ہاپر میں پندرہ کلو اناج پڑا تھا۔ خواص بابا نے ہم سے پوچھا بھی کہ کھانا بھجوا دوں؟ کیونکہ ندی پار ہی ان کا گھر تھا۔ ہم نے انکار کر دیا۔ خواص بابا بتاتے گۓ کہ لالٹین میں کافی تیل ھے ، دیا سلاٸی ساتھ ہی پڑی ھے۔ بے کواڑ دروازے کے باہر خار دار بیریوں کا بندھا گٹھڑ لنگنی میں اڑا دینا تا کہ گیدڑ یا بھگیاڑ وغیرہ اندر نہ آ گھسے۔ موسم خراب ہو چلا تھا۔ بجلی کڑکنے لگی تھی۔ بارش یقینی تھی۔ دسمبری رُت تھی۔ ٹھنڈ عروج پر۔ خواص بابا کے روانہ ہوتے ہی اچانک بھوک بھی چمک اٹھی۔ خود کو ملامت کی کہ کھانے کی ہامی کیوں نہ بھری۔ ایویں ای بغیر سوچے سمجھے ناں کر دی۔ اس جھنجھلاہٹ میں خود کو تین چار گندی گندی گالیاں بھی دے ڈالیں۔ 
لیکن مایوسی کی بات بھی نہ تھی۔ ہم نے روٹی پکانے کا عزم کیا۔ جندر میں اس غرض سے زیادہ اہتمام نہیں ہوا کرتا تھا لیکن خواص بابا چاۓ کے رسیا تھے۔ ایک کالی سیاہ سلور کی چینک کے علاوہ پتی اور شکر کے ساتھ ساتھ ہمالین پنک سالٹ کا بڑا سا روڑا موجود تھا۔ اندھاکیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہم خوش ہو گۓ۔ پڑی کی ایک ہموار سِل پر تین بُکیں بھر کر آٹا لیا۔ یہ سوندھا سوندھا ، گرم اور دیسی گندم کا خوشبودار آٹا تھا۔ کیتلی میں پانی کھالے میں سے بھرا۔ نمک ملایا اور کچھ پانی ڈال کر جیسے تیسے آٹا گوندلیا۔ کوٹھڑی کے اندر ہی طاق نما انگیٹھی میں تین پتھروں کو بنگریزی حرف C کی شکل میں جوڑ کر اوپر ہموار دریاٸی سل رکھی۔ گرنڈے اور سنتھے کا ایندھن جھونک کر آگ جلاٸی اور جب سل اچھی طرح گرم ہو گٸ تو بڑے سارے ایک ہی پیڑے کو دونوں ہاتھوں سے چھنڈ کر فٹ بھر قطر کا من سل پہ پھیلا دیا۔ بہت خوب پکا۔ ازیں بعد چینک میں شکر اور پتی ڈال کر سیل ہٹاٸی اور دہکتے کوٸلوں پر رکھ دی۔ دودھ کہاں سے لاتے۔ چار پیالی برابر قہوہ بنا ۔ مٹی کے آبخورے میں ڈال مزے لے لے کر روٹی کھاتے اور بڑے بڑے گھونٹ بھرتے گۓ۔ رات سوا دو بجے کنڑک والا کھارا خالی ہو گیا تو ہم نے اپنے اناج کی بوری اس میں انڈیل کر ، پہلے والا آٹا سمیٹا ، بوری بھری اور اس کا منہ باندھ کر الگ رکھا۔ پھر جندر کی کلی اٹھا دی۔ اب ہمارا نمبر تھا۔ ریڈیو کی نوب گھماتے تو کبھی آکاش وانی ، کبھی ریڈیو تہران اور کبھی ڈوٸچے ویلے کی نشریات فریکوٸنسی کی رعایت سے سننے لگتے۔ باہر بارش نے کتے بلی والا کھیل شروع کر دیا۔ بجلیاں چمکتیں اور کبھی کڑکتیں۔ جندر کی کوک تھی۔ خلوت تھی۔ بہت سارے خدشے تھے۔ صبح صادق سے پہلے کھارا خالی۔ ہم نے آٹے کی باقی ماندہ مقدار کو بوری میں بھرا۔ امانتاً جو آٹا من بنانے کے لیے لیا تھا اتنا ہی اپنے آٹے سے نکال دوسری بوری میں ڈال دیا۔ 
ٹھنڈ مزید بڑھ چکی تھی۔ ایک دفعہ پھر قہوہ بنایا۔ ابھی قہوہ پی رہے تھے کہ چندروٸی بابا آ پہنچے۔ وہ ہمارے لیے گھر سے ناشتہ بھی لے آۓ تھے۔ کافی دیر ہم دونوں گپ شپ لڑاتے رہے۔ پَو پھوٹنے ہی والی تھی کہ انھوں نے نماز فجر اور ہم نے گھر واپسی کی نیت باندھ لی۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !