غلام حسین ساجد بحیثیت تنقید نگار۔۔احمد ساقی

 
غلام حسین ساجد اپنی شاعری کی طرح پُروقار اور خوبصورت شخصیت کا مالک ہے اردو اور پنجابی کا ایک معتبر اور کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ایک عمدہ نثر نگار بھی ہے اس کے فنی اہداف میں تنقیدی ادب کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اس کے نوک قلم سے اب تک 14اردو کے 8 پنجابی کے شعری مجموعے منصّہء شہود پر آ چکے جبکہ 4 اردو اور تین پنجابی کے نثر پارے کتابی صورت اختیار کر چکے ہیں گو غلام حسین ساجد سے میرا تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے مگر میرا اس سے زیادہ تعارف اس کی شاعری کے ذریعے ہوا شاعر کا کلام اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے شاعر اپنے ہر شعر کے پیچھے نیم وا حجاب میں چھپا دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی حسینہ چلمن سے لگی بیٹھی ہو ، اس کی فنی مہارت اس چلمن کی تہہ داریوں میں چھپی اسے دلکش بناتی ہے ۔
اچھے شعر کو آج تک کسی تعریف میں نہیں ڈھالا جا سکا کیونکہ یہ شاعر کی داخلی شخصیت کے رنگ میں لتھڑا ہوا ہوتا ہے جو کسی قاری کی ذوقی حس کو چھو کر سرشار کر جاتا ہے اور کسی کو بیدار بھی نہیں کر پاتا مگر کچھ ایسے شعری اشتراکات ہیں جن کو شعر سے متعلقین یکساں اہمیت دیتے ہیں یاد رہے شعر بھی انسان کی طرح داخلی اور خارجی شخصیت کا مالک ہوتا ہے ۔خیال شعر کی داخلی شخصیت کا دوسرا نام ہے جبکہ لفظی بندش اسکا خارجی حصہ ۔ لفظی بندش کو ہم کرافٹ بھی کہتے ہیں شاعر کے ذہن میں خیال اس کے مشاہدے تجربے اور اس کی داخلی شخصیت کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے اور فنی اعتبار سے شاعر جتنا مضبوط ہوتا ہے اسی مہارت سے اسے مناسب آہنگ کا انتخاب کر کے لفظوں میں ڈھال دیتا ہے ، یا خیال خود بخود کسی آہنگ میں ڈھل کر باہر آ جاتا جسے شعراء آمد کا نام دیتے ہیں غلام حسین ساجد کے ہاں شعر کے دونوں پہلو جس اعلیٰ سطح کو چھوتے ہیں وہ اس کی شعری شخصیت کو متعارف کراتے اور اس کے مقام و مرتبے کا تعین کرتے ہیں ۔ جس طرح اس کے مضامین ابتذال سے پاک ہیں اسی طرح اس کی لفظیات بھی باوقار دکھائی دیتی ہیں، وہ الفاظ کی نشست و برخاست کا اسی طرح اہتمام کرتا ہے جیسے کسی بڑی تقریب میں مہمانوں کے مقام اور مرتبے کے مطابق نشستوں کا انتساب کیا جاتا ہے ۔ وہ مفاہیم و معانی کے مطابق لفظوں کو استعمال میں لاتا ہے ۔ آپ جب اس کے اشعارِ پڑھتے ہیں تو یہ خیال کبھی ذہن میں نہیں کلبلاتا کہ اس نشست پرکسی اور لفظ کوبھی بٹھایا جا سکتا ہے ، 
ان کے مضامین میں ندرت جس لطافت سے آتی اسی فصاحت سے سیراب بھی ہوتی ، ہر شاعر جب اپنا نظام شعری ترتیب دیتا ہے تو کچھ الفاظ اس کے شعری مزاج کے ساتھ جڑت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں وہ استعارے کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے، ان سے تراکیب بھی بناتا ہے، رنگ برنگے معانی بھی کشید کرتا ہے اور انہیں نئے نئے روپ میں ڈھالتا چلا جاتا ہے اس طرح وہ الفاظ شاعر کی ذاتِ کا خاصا بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مضامین بھی اس کی ذات سے منسوب ہو جاتے ہیں جو کہ تدریجاً اس کا خاصا اور امتیاز بن جاتے ہیں جو اس کی شخصیت کے نظری پہلو کے غماز ہوتے ہیں ۔
غلام حسین ساجد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے مگر میری اس تحریر کا اختصار اس تفصیل کا متحمل نہیں ورنہ اس کے متنوع موضوعات اور نادر خیالات پر جو کہ اچنبھے سے پاک ہیں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔
اگر آپ اس کی نثر پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک خاموش ندی کا پانی بہہ رہا ہو جس کی چال میں ایک حسینہ کی شوخی اور وقار ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے مٹک رہے ہوں ، قاری اس ناظر کی تحریر کی رم جھم میں اتنا منہمک ہو جاتا ہے کہ بیگم کی تیسری یا چوتھی آواز ہی اس کا انہماک توڑتی ہے ۔
خیر اس ساری تمہید کا مقصد تو یہ ہے کہ غلام حسین ساجد کے اندر وہ کون ہے جو اس کی لگام کو تھامے ان ادبی پگڈنڈیوں پر اس شان و شوکت سے دوڑائے چلا جا رہا ہے نہ اس کا شعر ڈگمگاتا ہے نہ اس کی نثر ۔
ہم اسے نقاد کا نام دیں یا تنقید نگار کا ۔ یہ نقد و نظر کا پہلو ہر اچھے تخلیق کار کا حصہ ہے ورنہ اچھا ادب تخلیق ہونا بعید از قیاس ہے ۔ میرے خیال میں تنقید ایک طبعی جوہر ہے جو انسان کے اندر اچھے اور برے کی تمییزی صلاحیت سے پھوٹتا ہے۔
غلام حسین ساجد جس پائے کا شاعر اور نثار ہے اسی پائے کا نقاد بھی ہے میں نے اس کے بہت سے تنقیدی مضامین پڑھے ہیں وہ اپنے آپ کو مغرب سے در آمد کردہ تنقیدی اصطلاحات کا پابند خیال نہیں کرتا جو اکثر تنقید نگار اپنے دبدبے اور طنطنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، غلام حسین ساجد ایک جگہ لکھتا ہے " میں کوئی سکہ بند نقاد ہوں نہ ہی میں تخلیقات کو جدید ادبی تحریکوں کے تناظر میں دیکھتا ہوں" الحمرا لاہور میں میرے پہلے شعری مجموعے "کھنکتی خاک" کی تقریب پزیرائی میں غلام حسین ساجد نےاپنا مضمون پڑھا جب وہ اس مقام پر پہنچا " بحر میں معمولی تبدیلی سے فکری اور شعری وفور کی ایک اور ہی دنیا ظاہر ہوتی ہے، ہر بحر کے اپنے ہی امکانات ہوتے ہیں جو بار بار استعمال ہونے سے بلآخر اپنی چمک اور تاثیر کھو دیتی ہے" یہ تھیسز شاید نہیں بلکہ یقیناً کسی تنقید نگار نے پہلی بار پیش کیا تھا جس نے وہاں موجود زعماء شعرو ادب کو چونکا دیا تقریب کے صاحب صدارت دنیائے ادب کے مایہ ناز نقاد ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب نے اس کو خصوصی توجہ کا حامل قرار دیا ، تنقیدی ادب میں ادب کو ماپنے کے لیے نئے پیمانے وضع کرنے کی صلاحیت بھی غلام حسین ساجد میں موجود ہے ۔ غلام حسین ساجد اردو پنجابی شعر و ادب میں ہمہ جہت شخصیت کا حامل ہےجو اونچی مسند اور منصب پر براجماں ہے اور اسی ہمہ جہتی کی بناء پر اپنے ہم عصر شعراء و ادبا میں 
قد آور نظر آتا ہے ۔
اس کی شخصیت اور فن پر قلم اٹھانا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے مجھے خواص کی تقریب میں ایسی مسند پر بٹھا دیا جائے جس کا میں اہل نہیں۔ مجھ جیسے کج علم اور کج ہنر کی بساط میں شائد یہ نہیں ۔اس شذرے میں غلام حسین ساجد کا ذکر میں نے جس بے تکلفی سے کیا ہے اس پر معذرت خواہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ غلام حسین ساجد کے قلم کو مزید توفیقات سے نوازے اور صحت و ہدایت والی عمر خضر عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !