تقویٰ۔ـــــ۔آسیہ عمران

 

 


 

            رات کا اندھیرا ایک صاحب جوتے ہاتھ میں لیے گلی میں سے خاموشی سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب  پاس سے گزرتے پہچان لیتے ہیں اور حیرانگی سے پوچھتےہیں۔رات کا اندھیرا پاؤں میں کنکر لگ سکتا ہے۔ کیڑےمکوڑے کاٹ سکتے ہیں۔ یہ بے احتیاطی کیسی ؟ اشارہ سے چپ کرواتے سرگوشی میں کہتے ہیں یہی تو احتیاط ہے۔ صاحب سوال کے تجسس پر وضاحت کرتے ہیں ۔رات کا وقت ہے لوگ سو رہے ہیں میرے جوتے کی آواز ان کی نیند خراب کرسکتی ہے۔صاحب سوال کو تجسّس ہے رات کے اس پہر کہاں جا رہے ہیں۔خاموشی سے پیچھا کرتے ہیں۔ایک بڑھیا کی کٹیا میں انھیں کھانا کھلاتے خدمت کرتے پاتے ہیں۔ یہ صاحب کوئی عام شخص نہیں خلیفہ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  ہیں۔یہ انکا تقوی ہے جو انھیں ذاتی خطرہ سے بے نیاز کر کے لوگوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالنے دیتا اور دنیا سے چھپ کر ایک بڑھیا کی خدمت پر ابھارتا ہے۔

            تقویٰ کی تعریف عموماً ڈر اور خوف ،پرہیز کرنا، نگرانی کرنا، بچاؤ کرنا ، حفاظت کرنا سے کی جاتی ہےلیکن تقوی کے لفظ کی گہرائی پر ان میں سے کوئی لفظ پورا نہیں اترتا۔تقویٰ دراصل بہت  ہی پیارا جذبہ ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک انسان کسی شیر ،ہاتھی یا درندے کو دیکھتا ہے اور خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔اس کے شر سے بچنے کی ہر ممکن کوشش اوراحتیاطی تدابیر اختیار کر تا ہےلیکن ایک دوسرا شخص اپنے محبوب کی محبت میں محبوب کا ہر پسندیدہ انداز دل وجان سے اپناتا ہے۔ اس کی ناراضگی سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتا ہے  ۔تقویٰ اللہ کی محبت میں اللہ کا پسندیدہ طرز زندگی دل وجان سے اپنانے کا نام ہے۔

            گزشتہ دنوں ایک لیکچر میں تقویٰ کا ایک اور منفرد پہلو سامنے آیا۔ جب لیکچر دینے والے نے تقوی کا متضاد لفظ مرعوبیت بتایا۔ایک شخص جو کسی دوسرے شخص یا قوم  کے مرتبے،حیثیت، شاندار طرز زندگی ،بود و باش سے مرعوب ہو کر ویسا ہی طرز زندگی اختیار کرنے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتاہے۔اس کا تقویٰ جیسے مقام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔تقویٰ دراصل ذات باری تعالٰی کی کبریائی کے حصار میں مستقل ڈوبے رہنا ہے۔ یہ کیفیت اس قدر خود پر غالب کرنا کہ اسکی شخصیت ذات باری تعالٰی کے سوا کبھی کسی کے رعب میں نہ آئے ۔

            تقویٰ کا تصوردین کا بنیادی ترین تصور ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اٹھاسی دفعہ قرآن کریم میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کا باقاعدہ حکم موجود ہے۔جبکہ دو سو مقامات پر مختلف اعمال کے ضمن میں تذکرہ ہے۔ایک شخص جو کسی کو ہاتھ ،زبان ، انداز کسی بھی لحاظ سے تکلیف نہیں پہنچاتا۔جہاں زیادتی کا خدشہ ہو اس کے قریب بھی نہیں جاتا ۔دوسروں کی نیند ،آرام ،سکون میں خلل ڈالنے سے بچتا ہے۔ نرم چال چلتا ہے۔ اپنی شخصیت سے جڑے ہر رشتے کی قدر کرتا ہے ۔ والدین کے جہاں پاؤں دباتاہے تو بیوی کی بے آرامی کے خیال سے بچے کو  فیڈر پکڑا دیتا ہے۔ بہن کے معصومانہ لاڈ اٹھاتا ہے تو بھائی کا کندھا بنتا ہے۔ اپنے کنبے کے ساتھ ارد گرد کئی کنبوں کی خبر گیری کرتا۔ مال کو عیب بتائے ۓ بغیر نہیں بیچتا۔ کچرا کچرے کی جگہ رزق کو رزق کے مقام پر رکھتا ہے ظلم وزیادتی سے دور رہتا ہے حتی کہ کھانے میں سے صرف اپنے حصے کے بقدر نکالتا ہے۔ نا محرم سے نظر یں بچاتا،جھکا تا زوجہ کو خوشی فرض سمجھ کر دیتا  ہے ۔حق بات کہنے سے جھجھکتا نہیں ۔ کمزور کی عزت  اعلیٰ منصب والے کی طرح کرتا ہے۔ دوسروں کو سہولت اور آسانی دیتا ہے۔ باوجود طاقت کے اپنا حق چھوڑ دیتا ہے۔اپنی رائے اجتماعیت پر قربان کرتا ہے ۔غلطی  پر ڈٹ نہیں جاتا۔  دوسرے کی ضرورت کو خود پرمقدم رکھتا ہے ۔ کمی کوتاہی پر اللہ سے ڈرتا رہتا ہے درحقیقت وہ تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر ہے۔

            سفید ٹوپی پہنے ،لمبی سی داڑھی کے ساتھ،  براک کپڑوں میں ملبوس ،ہاتھ میں تسبیح لیے شخص کسی دیوار پر تھوکتا ،بغیر ضرورت ہارن زور سے بجاتا ،گھر میں داخلے پر ڈر کی لہر دوڑاتا،زرا دیر یا کوتاہی پر بنت حوا کی سانسیں خشک کر تا،معمولی بات پر بےعزتی کرتا،  نمازوں اور تسبیحات پر نازاں ، بیچتے وقت عیب نہ بتانے والا ، ناجائز منافع لیتا ، غصہ ناک پر رکھےخود پر کنٹرول کھو دینے والا ، وعدہ خلاف، سخت گیر شوہر ، اناپرست بیٹا اور گردن اکڑاباپ ، جھوٹے وعدوں پر سیاست چمکاتا، دو وقت کھلا کر دوسروں کو غلام سمجھنے لگتا ہے،  اپنی بات پر کسی کا جملہ بھی سننے کا روادار نہیں ،  اللہ کے دیے حقوق  ،دوسروں کی آزادی کو سلب کرتا شخص ، اس کا تقویٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔یہ سب میری رائے نہیں قرآن کا فرمان ہے۔

             آئیے قرآن کریم میں چند آیاتِ تقویٰ پر نظر ڈالتے ہیں۔سورہ بقرہ کی ابتدا میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ یہ قرآن تقویٰ والوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اس کے بعد اہل تقویٰ کی صفات بتائیں جن میں ایک اہم صفت یہ بتائی کہ تقویٰ والے اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ رزق میں مال، اولاد، عزت، شہرت، مرتبہ ، دوست ، آسانیاں، علم ، شعور، حوصلہ ، دلیری ، توفیق وغیرہ سب شامل ہیں۔مال،دولت، عزت ،آسانیاں، علم وشعور، مطلب یہ کہ جو شخص اللہ کی دی ہوئی جو بھی رزق کی شکل ہے وہ دوسروں پر خرچ کرے گا تو تقویٰ والا ہوگا۔ قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کی وجہ بھی تقویٰ کا حصول قرار دی گئی۔ فرمایا :

 "لعلکم تتقون"۔

 روزہ میں کیا ہے اللہ کی منع کی گئی غذا اور منع کیے گئے کاموں سے انسان رک جاتا ہے۔ دراصل اللہ کے لئے رک جانے کی پریکٹس ہے۔

             تقویٰ کا لفظ وقایہ سے ہے ۔مطلب ہے حفاظت کرنا ،احتیاط کرنا۔ یعنی اللہ کی منشا کے خلاف جانے سے اپنی حفاظت کرنا۔حج جیسی بڑی عبادت میں تقویٰ کو زاد راہ بنانے کو کہا گیا۔قربانی کے بارے میں فرمایا گیا کہ اللہ کو گوشت اور خون نہیں تقویٰ مطلوب ہے۔

مسجد بنانے میں بھی تقویٰ کو بنیاد بنایا گیا۔"لمسجد اسس علی التقویٰ"

لباس ،زیب و زینت میں بھی تقویٰ کو رکھاگیا۔"و لباس التقویٰ ذالک خیر"

 اللہ رب العزت نے سارا اخلاقی نظام تقویٰ کی بنیاد پر قائم فرمایا۔

"انصاف کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔"

"تم درگزر کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔"

"اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔"

"تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کی صلح کروا دیا کرو۔"

اللہ ربی نے آخرت کی ہر نعمت اور بھلائی کے لئے اہل تقویٰ کا انتخاب فرمایا۔

"کہ متقی امن والے مقام میں،نعمت والےباغوں میں،اپنے رب کے پاس ہونگے"

متقین کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی سند دی ۔فرمایا:

ان للمتقین مفازا۔"کامیابی تو اہل تقویٰ ہی کےلئے ہے۔"

            اہل تقویٰ فور ی نتائج نہیں چاہتے وہ بڑے دن کے منتظر ہوتے ہیں۔ دنیاوی فوائد سے بے نیاز۔اللہ نے ان کے لئے وعدہ فرمایا کہ انھیں کوئی ڈر اور خوف نہ ہوگا۔ دنیا میں میں اہل تقویٰ سے بہت سے وعدے ہیں۔اگر اسلام کا مطلوب نمونہ ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ متقی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔

"اللہ سے ڈرو (تقویٰ)جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔"

            کووڈ کے بعد اومی کرون اور نہ جانے کیا تجربے ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ ہر جگہ مخصوص فاصلہ رکھتے ہیں۔ دل لاکھ چاہے قریبی سے بھی معانقہ،گلے ملنے سے اجتناب ہے ۔ مساجد تک میں نمازوں  میں خاص فاصلہ ہے۔ یہ وہ حدود ہیں جو ایک بیماری کے خوف نے طے کیں۔ لوگ ایسا کرنے پر مجبور کیے گئے ۔ قید تنہائی کی سزا بھی ہے۔ اللہ خالق کائنات نے حدود طے کی ہیں ان کے اندر رہنا تقویٰ ہے۔ رمضان المبارک اس مبارک جذبے کی افزائش کے لئے ہے۔اللہ کرے ہم تقویٰ والوں میں شامل ہونے کے قابل بن جائیں۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !