برصغیر میں ذات پات کا نظام بہت گہرا ہے ۔ وہ ذاتیں جو کسی وجہ سے وسائل پہ قابض ہو گئیں وہ اعلیٰ قرار پائیں اور محروم قبیلوں کو "نچلی ذات" قرار دے دیا گیا ۔ بڑی ذاتوں کے لوگ فخریہ اپنے نام کے ساتھ ذات لکھا کرتے ۔ ذات پات کا یہ تکلیف دہ نظام اتنا فعال تھا کہ لوگوں کو نام کی بجائے ان کی ذات سے پکارا جاتا ۔ بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ لوگوں نے اپنی ذات کے ساتھ خطاب یا ٹائٹل بھی جوڑ لیے ۔ ذات پات کے نظام میں نچلی ذاتوں کے لوگوں کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی اعلیٰ ذات کے فرد کا نام لیں۔ اس لیے وہ یا تو ذات سے پکارتے یا ٹائٹل سے۔ شروع میں تو یہ ٹائٹل پکارنے کے لیے تھے البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ناموں کا حصہ بن گئے۔ جب لکھنا پڑھنا عام ہوا تو لوگ اپنے نام کے ساتھ ٹائٹل لکھنے لگے جس سے ذات کا اندازہ بھی ہو جاتا البتہ پنجاب میں ذات اور ٹائٹل دونوں لکھے جاتے جیسے ملک فیروز حیات خان نون۔ یہ رواج شمالی ہند کے دوسرے صوبوں میں کم کم نظر آتا تھا ۔
برصغیر میں ذات عام طور پر نام کے بعد لگائی جاتی جب کہ خطاب پہلے بھی لگایا جاتا اور بعد میں بھی ۔ ہمارے یہاں بالعموم لوگوں کو ان کے خطاب سے ہی پکارنے کی روایت رہی ہے ۔ سید ، شیخ، خواجہ ، جام ،راجا ، رانا ، رائے ، راؤ ، چودھری ، ملک ، مہر ( بر وزن شہر) ، سردار ، میر ، شاہ ، خان وہ خطاب ہیں جو زیادہ استعمال ہوتے ۔ راج پوت قبائل عام طور پر رانا ، رائے ، راؤ، راجا ، چودھری، سردار، مہر اور بعض علاقوں میں ملک کہلاتے ۔ مسلمانوں میں نام کے بعد خان لکھنے کا رواج بھی رہا۔ ہندو راج پوت نام کے بعد سنگھ بھی لگاتے ۔ پنجاب اور ہریانہ کے ہندو اور سکھ جاٹ بھی نام کے بعد سنگھ لکھتے اور ان کی خواتین نام کے ساتھ کور لگاتیں ۔ مسلمان جاٹ قبائل چودھری ، سردار ، مہر ، ملک۔۔۔۔۔۔۔ ، سادات سید ،میر اور شاہ ۔۔۔۔۔ بلوچ قبائل میر، خان اور سردار ۔۔۔ ۔ پٹھان خان اور ملک ۔۔۔۔۔،مغل مرزا اور بیگ ۔ گوجر چودھری ، ملک اور سردار۔۔۔۔۔اعوان ملک ۔۔۔۔۔ارائیں چودھری ، مہر اور میاں ( ملک بھی) پکارا جانا پسند کرتے ۔ وہ قبائل جن کا خیال ہے کہ وہ عرب سے آئے ہیں انھیں شیخ کہلوانا مرغوب تھا اور یہی پسند پنجاب کے نومسلم کھتریوں اور کشمیر کے برہمنوں کی بھی رہی ان میں سے بعض خواجہ بھی کہلواتے ۔
اگر خواتین کی بات کریں تو یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ برصغیر میں مرکب نام رکھنے کی روایت تھی ۔ نام کا دوسرا حصہ عزت و احترام کے لیے ہوتا ۔ قدیم رواج تو یہ تھا کہ راجھستان اور اس کے شمالی ملحقہ علاقوں کی راج پوت قبیلوں کے لوگ اپنی بیٹیوں کے نام کے بعد بائی یا رانی لگاتے ۔ پنجاب کے مسلمان جاٹ بی بی یا بیوی، سادات اور ایرانی النسل لوگ بانو ۔۔۔ سکھ اور پنجاب کے ہندو جاٹ کور ۔۔۔۔پٹھان خان کی مونث خانم اور مغل اپنی بیٹیوں کے نام کے ساتھ بیگ کی مونث بیگم یا خاتون کو مرکب کرتے۔ کچھ علاقوں میں مائی بھی مستعمل ہے ۔ مرکب کا دوسرا جزو گویا خطاب ہی تھا اور ملازمین یا نچلی ذات کے لوگ ان خواتین کو نام کی بجائے خطاب یا ٹائٹل سے پکارتے ۔ پنجاب میں ٹائٹلز کو مونث کرکے پکارنے کا بھی رواج تھا ۔ چودھری کے گھر کی خواتین چودھرائن یا چودھرانی اور ملکوں کے گھر والی ملکانی کہلاتیں ۔
بیسویں صدی میں یہ ہوا کہ شمالی ہند کے اردو بولنے والے خاندانوں نے ذات ، قبیلے اور خاندان کو نظر انداز کر کے اپنی بیٹیوں کے نام کے ساتھ خانم ،بیگم ، بانو اور خاتون لگانا شروع کردیا ۔ دیکھا دیکھی یہ رواج شمالی ہندوستان کے سارے مسلمانوں میں پڑ گیا ۔
ناموں میں ایک بڑی تبدیلی انگریزوں کے زیر اثر آئی اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے پڑھے لکھے گھرانوں میں اولاد کے ساتھ باپ کا نام لکھنے کا رواج پڑا جو آج بھی جاری ہے ۔ بیٹیوں کے نام کے ساتھ باپ کا نام لگایا جاتا اور وہ شادی کے بعد شوہر کے نام کو اپنے نام کا جزو بنا لیتیں بلکہ بھول پنے میں لڑکیاں ذات تک تبدیل کر لیتیں ۔ ہمارے اعوان دوست جو نام کے ساتھ ملک لکھا کرتے ان کی شادی سادات خاندان میں ہوئی ۔ شادی کے بعد ان کی اہلیہ نے نام کے ساتھ ملک لکھنا شروع کر دیا ۔
آج کل برصغیر میں ایسا رواج پڑا ہے جو بیک وقت روایت اور گرائمر کے خلاف ہے۔ خواتین اپنے نام کے ساتھ مردانہ ٹائٹل استعمال کرنے لگی ہیں ۔ سمیرا ملک ، رینا رائے ، ارن دھتی رائے ، امرتا سنگھ ، ثمینہ راجا ، خدیجہ شاہ ، مرینہ خان ،ثانیہ مرزا ، سلما بیگ، آئمہ بیگ ، شہناز شیخ جیسے نام سننا معمول کی بات ہے ۔ اب ناموں کے ساتھ جتنے لاحقے ہیں وہ سب کے سب مذکر ہیں جو خواتین کے نام کے ساتھ نہیں جڑ سکتے۔ یہی صورت حال ذات کی ہے کیوں کہ ذات بھی مذکر ہوتی ہے اسے بھی خاتون کے نام کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض نام خواتین اور حضرات میں مشترک ہیں مثلآ راحت، فرحت، تسنیم، نسیم، شمیم،نصرت۔ اگر ان ناموں کے بعد مردانہ ٹائٹل لگا ہو تو تو صرف نام سے جنس کا اندازہ نہیں ہوسکتا حالاں کہ نام کا تقاضا ہے کہ اس سے جنس کا تعین ہونا چاہیے اور دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں ہوتا بھی ہے۔
پہلے عرض کی ہے کہ یہ خطاب پکارنے کے لیے ہیں۔ اگر ہم خواتین کے نام کے ساتھ ٹائٹلز کو جوں کا توں لگا دیں تو ظاہر ہے پکارنے کا وظیفہ ادا نہیں ہوسکتا ۔ہم کسی خاتون کو صرف چودھری ، خان ، شیخ یا رانا کہ کر نہیں پکار سکتے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہم نے یہ حرکت انگریزوں کی دیکھا دیکھی کی مگر یہ بھول گئے کہ وہ مردانہ نام سے پہلے مس یا مسز کہ کر گزارا کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ابھی اس کا کوئی متبادل نہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ تو مس خان یا مسز چودھری کہ سکتے ہیں تاہم ناخواندہ لوگ جو بد قسمتی سے اکثریت میں وہ کیا کہیں گے ۔
ہم ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ جب ہماری بیٹی پیدا ہو تو بیگم ، خانم ، بانو وغیرہ کو اس کے نام کا حصہ بنا کر اسے مرکب بنا دینا چاہیے ۔ یہ الفاظ ہماری روایت بھی ہیں ، ان سے احترام بھی جھلکتا ہے اور نسوانیت بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ صوتی اعتبار سے بھی نہایت کومل اور ملائم ہیں۔ پھر یہ بھی کہ اس طرح عورت کی اپنی شناخت زیادہ واضح ہوتی ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ عورت اپنی شناخت ترک کرکے باپ یا شوہر کے نام سے پہچانی جائے ۔ کیوں اسے مس فلاں یا مسز فلاں کہا جائے؟
