طالبعلم کی خود کشی پر تحریر ۔۔ حافظ صفوان

چکوال کے مشہور تعلیمی ادارے "مائرز کالج" میں اے لیول کے پندرہ سالہ طالب علم محمد شہیر سے منسوب ایک سوسائیڈ نوٹ اِس دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ یہ لڑکا نہلسٹ تھا اور اِس نے خودکشی کی ہے۔ میرے نزدیک اِس واقعے کی رپورٹنگ میں کئی جھول ہیں اور اِس کی درست تفتیش شاید بالکل مختلف پہلوؤوں کو سامنے لے آئے۔ میرے اِس خیال کو تقویت سوسائیڈ نوٹ کے مطالعے سے ملی ہے۔ اِس نوٹ کو توجہ سے پڑھنے والے بیشتر لوگ میری تائید کریں گے کہ یہ سوسائیڈ نوٹ اُس بچے کا نہیں ہے اور اُسے نہلسٹ ثابت کرنا سانحے کی تحقیقات کو کسی اور سمت لے جانے کی کوشش کا حصہ ہے۔ 

خودکشیاں پہلے بھی ہوتی تھیں۔ میری مراد ہے کہ جب سوشل میڈیا نہیں آیا تھا تب بھی ہوتی تھیں۔ آج کل یہ چیزیں زیادہ صرف اِس لیے محسوس ہوتی ہیں کہ ایسے واقعات پہلے صرف اخبار میں چھپتے تھے اور اخبار اگلے دن نیا آجاتا تھا چنانچہ پچھلے دن کی خبر پرانے اخبار میں دب جاتی تھی۔ آج ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون میں کئی کئی سافٹ ویئروں پر ایک ہی خبر، اور کئی کئی نیوز چینلز کی خبریں دینے کی آپسی مسابقت کی وجہ سے ایک ہی خبر دماغوں میں گویا چسپاں ہوکر رہ جاتی ہے۔ آج سے کوئی ربع صدی قبل ہری پور میں ایک تبلیغی بزرگ کے سولہ سترہ سالہ بیٹے نے خودکشی کی تھی۔ ایک آدھ دن سناٹا رہا اور لوگ گنگ، کہ تبلیغ والے نیک آدمی کے حافظِ قرآن بچے نے کیا کر دیا۔ پھر سب بھول بھال گئے۔ آج شاید ہی کسی کو یہ واقعہ یاد ہو۔ اُنہی دنوں ہری پور سے ملحق ایک گاؤں میں انیس بیس سال کے ایک طالب علم نے اپنی ماں کو قتل کرکے خودکشی کی تھی۔ اخبارات کے مطابق وجہ والدہ کو کسی غیر مرد کے ساتھ مبتلا حالتِ غیر میں دیکھنا تھی۔ 

سوال یہ ہے کہ لوگ، خصوصًا بیس بائیس سال تک کے بچے بچیاں، خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں؟ ذرا توجہ سے دیکھیں تو وجوہات، بیشتر، وہی ہوتی ہیں جو ہری پور کے متذکرۂ بالا دو نوجوانوں کو درپیش ہوئی تھیں۔ والدین یا بڑوں میں سے کسی کا مذہبی یا اخلاقی رسومیات پر ناروا کھینچ تان اور بات بے بات بے عزتی، یا تعلیمی کارکردگی میں نقص کی وجہ سے مار پیٹ کا خوف، یا پھر کیفرِ قتلِ غیرت میں اپنی جان لے لینا۔ شاذ اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلًا محبت میں ناکامی وغیرہ۔ نتیجہ یہی کہ ذہنی پیچاک یا کسی عمل کی پاداش میں لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ رہنا یعنی لازمی انسانی معاملات میں ہمت ٹوٹ جانا۔ معلوم ہوا کہ قتل کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں جب کہ خودکشی کی وجوہات نفسیاتی امراض کے ذیل میں آتی ہیں۔ 

انسان ایک پیچیدہ مشین ہے۔ اور چونکہ اِس کے پاس اپنا اچھا برا سوچنے اور کچھ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی ہے اِس لیے اِسے آئندہ کے حالات کا خوف پریشان کر دیتا ہے۔ فلاں چیز کھانے سے یہ ہوجائے گا، فلاں کام کرنے سے وہ ہوجائے گا، فلاں چیز نہ ملی تو فلاں نقصان ہوگا، فلاں چیز مل جائے تو فلاں فلاں کام ہوجائیں گے، وغیرہ، امکانات کی ایک لمبی فہرست ہے جو انسانوں کے سامنے گویا جامِ جم کی طرح عیاں ہے۔ آج جوان ہوتے بچوں بچیوں کے سامنے یہی فہرست اِس لیے بھی آجاتی ہے کہ اب دنیا کا دوسرا کونہ تک دیکھ لینا کوئی مشکل نہیں رہا۔ چنانچہ آج کا کم عمر بچہ بچی بھی آئندہ کے حالات و مشکلات کو نہ صرف پورے طور سے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا ہوجاتا ہے بلکہ اکثر تو گھر کے بڑوں سے کہیں زیادہ عملی سوچ کا حامل ہوجاتا/ جاتی ہے۔ پریشانی صرف فہیم انسان کو ہوتی ہے۔ عام اور کم فہم انسان تو محض easygoing ہوتا ہے اور "اللہ کرے گا،" "انشاءاللہ" اور "اللہ توکل" قسم کے الفاظ پر تکیہ کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ پہلے زمانوں کے بچوں کی نسبت آج کا فہیم بچہ بچی بزرگوں کے آگے بول بھی پڑتا ہے، اور ذرا زیادہ ہمت والا/ والی ہو تو اپنے حماقت میں مبتلا بزرگوں کو آگے بڑھ کے ہاتھ سے روک بھی دیتا ہے۔ 

واضح رہے کہ یہ رویہ بچوں میں عملیت پسندی کی وجہ سے ابھر رہا ہے کیونکہ وہ غیرت، خاندانی روایات، بزرگوں کا احترام، وغیرہ جیسی اقدار میں موجود افسانوی اور غیر حقیقی عناصر کو بہتر طور پہ سمجھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ آپ بے شک کہہ لیجیے کہ آج کے دور کا انسان بے حس اور بے مروت ہوگیا ہے، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ آج کا انسان زیادہ عملیت پسند ہوگیا ہے اور فالتو و غیر اہم چیزوں کو بالفعل دھتکارنے پر آگیا ہے۔ 

علمیت پسندی بہت بڑی خوبی ہے۔ یہ کامیابی کی کنجی ہے۔ یہ موجود و میسر پر انحصار اور غیر موجود پر بے اعتباری سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت میں بڑی بڑی چیزیں ملنے کے وعدوں پر یقین کے بجائے آنکھوں کے سامنے نظر آنے والی پر یقین پکا ہوگیا ہے۔ آج کی دنیا یہ یقین رکھتی ہے کہ خالق بھی وہی کرتا ہے جس کا عزم مخلوق کرلے۔ 

آج کا بچہ بچی اَن دیکھے خدا اور اُس کی قدرتوں پر اور یومِ آخرت کے وعدوں پر ویسا اٹل یقین نہیں رکھتا جیسا آج سے دو نسل پہلے کے لوگوں میں موجود تھا۔ آج کے بچوں کو خدا کے خوف سے ڈرانا قریب قریب ناممکن ہوگیا ہے۔ اِسی لیے بعض سمجھدار لوگ خدا سے خوف دلانے کے بجائے اُس کی محبت پیدا کرنے کا باقاعدہ نصاب ترتیب دیتے دیکھے گئے ہیں۔ 

چنانچہ یہ بات واضح طور پہ سمجھ لینی چاہیے کہ لڑکوں لڑکیوں کے ذہنوں میں خودکشی کا خیال بھی اپنے اندر لازمی انسانی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی ہمت نہ پانے کا احساس ہونے پر پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ اگر اِس بچے بچی کے دوستوں میں بھی اِسی قسم کے خیالات والے لوگ ہیں تو یہ احساسِ ندامت بڑھتا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اِن سب میں سے کوئی نہ کوئی بچہ یا بچی خودکشی کی ہمت کرلیتا ہے۔ ذرا توجہ سے دیکھیے تو خودکشی کرنے والے کم عمر لوگوں کے قریبی دوست بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں، جو کم ہمتی کی وجہ سے ابھی تک خودکشی سے رکے ہوتے ہیں۔ 

واضح رہنا چاہیے کہ کسی کو قتل کرنا یا خودکشی کرنا انسانی فعل ہیں اور کوئی مذہب اِن کا ذمہ دار نہیں ہے۔ چنانچہ کسی مذہبی کتاب میں یا کسی مذہبی عبادت میں اِن دونوں افعال کا حل تلاش کرنا بالکل غلط ہے۔ اور چونکہ یہ دونوں افعال جرم ہیں نہ کہ گناہ، اِس لیے اِن کی سزا بھی کسی مذہبی کتاب میں ڈھونڈی جانا غلط ہے۔ مذہبی کتابیں نفسیاتی امراض کے علاج کا دعویٰ لے کر نہیں اتریں۔ جرم کی سزا حکومت و ریاست نے آج دینی ہے جب کہ گناہ کی سزا روزِ حشر میں خدا دے گا۔ 

تحریر مکمل ہوگئی۔ صرف ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہر ایک کو حق ہے کہ اپنی وال کے زائرین کے لیے جو چاہے لکھے۔ چکوال کے محمد شہیر والے اِس سانحے پر بہت لوگوں نے لکھا۔ سب کا شکریہ۔ لیکن حیرت ہوئی کہ اِس نوجوان کے مبینہ سوسائیڈ نوٹ کو بعض بڑی فالوونگ رکھنے والے لوگوں میں گلیمرائز کیا ہے اور اُس میں موجود ادبی نکات اور بڑے مصنفین کے حوالے نکال کر گویا بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ ایسی تحریروں سے سخت تکلیف ہوئی۔ حیرت ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اپنے بچے پال پوس کر بڑے کیے ہیں وہ بھی ایک بچے کی مبینہ خودکشی کو کسی نہ کسی انداز میں گلیمرائز کر رہے ہیں۔ جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا۔ ہائے ہائے۔ 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !