خیبرپختونخوا کے بعد پنجاب بھی پانی میں ڈوب گیا ہے ہزاروں شہری بے گھر فصلیں تباہ بازاروں میں سیلاب اور مکان متاثر ہیں صورتحال یہ ھیکہ جنازے بھی کشتیوں میں منتقل ہورہے ہیں اہل پنجاب پہ قیامت ٹوٹ گئی ہے کھیت کھلیان باغات پانی میں بہہ گئے ہیں بہت بڑی آفت ہے ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے ڈیم بروقت تعمیر ہوتے تو شاید تباھی اتنی نہ ہوتی۔
حکومتوں میں تسلسل نہ ہونے کے سبب سیاستدانوں کی پہلی دوسری اور تیسری ترجیح اقتدار بچانا سنبھالنا اور برقرار رکھنا ہوتا ہے نتیجتاً گورنس کے مسائل چمٹے ہی رھتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم تھا تو شہریوں کی پہلی خواہش امن کا قیام تھا تاکہ کاروبار ہوسکے نسلی لسانی اور فرقہ وارانہ فساد کچھ برس قبل تھما تو اب شہر میں انفراسٹرکچر پانی ڈکیتیوں ڈمپر ٹریفک حادثات گٹر کے ڈھکن تعلیم صحت کے مسائل اور نوکریوں پہ بات ہوتی ہے ورنہ پہلے امن و امان کے بہت بڑے مسئلے کے سامنے یہ سارے معاملات مکمل طور پہ دب چکے تھے یہی معاملہ حکومتوں کے تسلسل کا ہے انہیں مدت پوری کرنے دیں تو پھر وہ ان معاملات پہ سکون سے غور کرسکتے منصوبے بناکر عمل کرسکتے ہیں اور یہ نہ ہو تو پھر ہر سال کی آسمانی آفت ہماری نااہلی کیساتھ ملکر سانحات میں بدل جاتی ہے
خیر کونسا ہمارے کہنے سے مالکان نے مان لینا ہے کرنا انہوں نے وہی ہے جسے وہ درست سمجھتے اور جسے وہ درست سمجھتے ہیں اس نے پاکستان کو مسائل کے انبار تلے دبا دیا ہے جس سے نکلنے کی سبیل انکے پاس ہے نہ وہ کسی دوسرے کو حل کی اجازت دیتے ہیں
پنجاب واسیوں کیلئے قلبی ہمدردی ہے حکومت کیساتھ رفاعی اداروں کو بھی بھرپور توجہ دینی چاھیئے مگر ظاہر ھیکہ رفاعی اداروں کی بھی مخصوص حد ہے وہ پہلے ہی غ ز ہ گلگلت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں کام کر رہے ہیں مگر جتنا ممکن ہو اپنے وسائل اور رضاکار یہاں بھی فراہم کریں تاکہ کسی قدر پنجابیوں کی اشک شوئی ہوسکے جو اس سیلاب میں سب کچھ گنوا بیٹھے