یہ واقعہ تقریباً پندرہ سال پرانا ہے، جب میں سول ایوی ایشن بورڈ میں اسسٹنٹ سیکریٹری بورڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ کبھی کبھی بورڈ میٹنگز میں ماحول قدرے گرم ہو جایا کرتا تھا۔ ایک روز اسی طرح کی میٹنگ کے دوران وقفہ ہوا تو میں ایک افسر کے ساتھ باہر کوریڈور میں محو گفتگو تھا۔ اتنے میں بورڈ کے ایک سینئر رکن وہاں آ گئے۔ ان کے احترام میں ہم خاموش ہو گئے۔ وہ مسکرا کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے: "آپ لوگ کیوں رک گئے؟ اپنی گفتگو جاری رکھیں، ہم سب انسان برابر ہیں۔ ہاں، اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو زیادہ ذمہ داریاں دی ہیں، اسی لیے کبھی کبھار ہمیں سختی کرنی پڑ جاتی ہے۔" اس موقع پر انہوں نے دو واقعات سنائے، جن میں سے ایک نہایت سبق آموز تھا، جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک جاننے والے بڑے دولت مند اور وسیع کاروبار کے مالک تھے۔ انہوں نے ایک شاندار محل نما کوٹھی یا بنگلہ تعمیر کروایا، بہترین فرنیچر اور دنیا کی ہر آسائش سے آراستہ کیا۔ لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے سے محض ایک دو دن پہلے ہی ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
اہلِ خانہ نئے گھر منتقل ہو گئے، مگر وہ خود اسپتال کے بستر تک محدود رہے۔ علاج کے دوران ان کی حالت مزید بگڑتی گئی اور بالآخر ان کا انتقال ہو گیا۔ رونے دھونے کے بعد گھر والے سوچ میں پڑ گئے کہ میت کو نئے گھر لے جایا جائے یا نہیں۔ آخرکار یہ کہہ کر فیصلہ کیا گیا کہ "نئے گھر میں میت لے جانا بدشگونی ہو گی" لہٰذا جنازے کے بعد میت کو سیدھا قبرستان لے جایا جائے۔
یعنی وہ گھر جسے بنانے میں اس شخص نے اپنی دولت، وقت اور زندگی کی ساری توانائیاں لگا دیں، خود اس کے قدم اس دہلیز پر نہ پہنچ سکے۔ اس کے لیے اپنے ہی گھر میں داخلہ "بدشگونی" کے مترادف قرار پایا۔
یہ واقعہ ہمارے لیے انتہائی سبق آموز ہے کہ جس دولت کے پیچھے ہم دوڑتے رہتے ہیں رشتے توڑ لیتے ہیں، برسوں کی دوستیاں ختم کر دیتے ہیں، دن رات ایک کر دیتے ہیں، وہ دراصل کسی کی وفادار نہیں۔ پیسے سے دوا تو خریدی جا سکتی ہے، مگر صحت نہیں۔ دولت سے گھر خریدا جا سکتا ہے، مگر سکون نہیں۔
لہٰذا خوش رہیے، خلقِ خدا کے لیے بھلائی کیجیے، اور دولت کو اپنی زندگی کا واحد مقصد نہ بنائیے۔ ایسے اعمال کیجیے جو موت کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں۔