متوقع شنگھائی کانفرنس اور پانی کا مسئلہ۔۔ گل ساج

اس ماہ کے آخری دنوں چائنا میں شنگھائی کانفرنس منعقد ہورہی ہے ۔
جہاں چائنا،انڈیا اور پاکستان کے سربراہان موجود ہونگے۔
کلائمٹ چینج کی تباہ کاریوں سے تینوں ممالک کو بڑے بھاری چیلنجز در پیش ہیں ۔۔
مگر تینوں ممالک نہ صرف سرحدی معاملات میں بلکہ دریاؤں کے پانیوں پہ بھی باہم اختلافات رکھتے ہیں ۔

آئیے
ان تینوں ممالک کے دریاؤں کے پانی کے تناظر میں تنازعات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں ۔

انڈیا میں کئی بڑے دریا ایسے ہیں جن کا ماخذ بھارت سے باہر ہے۔۔

دریائے برہم پترا۔۔

ماخذ۔۔۔تبت چین میں "یالونگ سانگپو " سے نکل کے براستہ تبت اروناچل پردیش میں داخل ہوتا ہے پھر آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش میں گنگا سے مل کر "پدمہ/جمنا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔
چین نے اس دریا پر ڈیمز بنائے تو بھارت کو ویسی ہی شکایت ہے جیسی پاکستان کو انڈیا سے کہ چین انکا پانی روک رہا ہے۔

دریائے گنگا ۔

ماخذ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ ہے گومکھ اتراکھنڈ سے 
 نیچے جا کے بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ویسے ہی اختلافات ہوئے جو پاکستان اور بھارت کے ہیں۔۔اور سندھ طاس معاہدے کی طرح انہوں نے بھی "Ganges Water Sharing Treaty (1996)" سائن کی ہے۔

شاردا اور
گندک دریا کا ماخذ نیپال ہے
بھارت میں بہار سے گنگا میں شامل ہوجاتا ہے ۔۔
بھارت اور نیپال میں پانیوں کی تقسیمِ کے کئی معاہدے موجود ہیں ۔۔۔

بھارت کے اوپر چین بیٹھا ہے۔
وہ ڈیمز تو بنا رہا ہے اس پہ بھارت کو تشویش بھی ہے۔ مگر چین نے برہم پترا کا پانی کبھی نہیں روکا۔۔

 " اصل فکر اب یہ ہونی چاہیے کہ انسان اور خاص طور پر خود کو ’’جدید ترین مہذب دنیا کے باسی‘‘تصور کرتے لوگ جس بے دریغ انداز میں اپنے طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں زمین کی حرارت میں اضافہ کررہے ہیں وہ ہمالیہ کے گلیشیئروں کو روایتی برف باری کے موسم سے عموماََ محروم رکھتی ہے۔ 

شدید ترین برف باری کا موسم مختصر سے مختصر تر ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے گلیشیر ایک حوالے سے ’’بے موسمی‘‘ صورت میں پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔
 درجہ حرارت میں اضافہ ان گلیشیرئوں کی جانب سے آئی ہوا میں نمی کے تناسب کو بڑھائے چلا جا رہا ہے، جسکے باعث ہم آئے روز’’کلاوڈبرسٹ‘‘ کی اصطلاح سن رہے ہیں۔ 

چین، بھارت اور پاکستان ہمالیہ کے گلیشیرز ۔کے مشترکہ وارث ہیں 

اب ان ممالک کو شدید ترین باہمی اختلافات کے باوجود ہمالیہ کے گلیشیرئوں کو بچانے کے لئے اجتماعی بصیرت سے کام لینا ہوگا۔۔"

کیا ہمارے وزیراعظم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ شنگھائی کانفرنس میں ہمالیہ کی مشترکہ وراثت پہ تعمیری گفتگو کی داغ بیل ڈالے۔۔؟
انہیں ضرور اس پہ گفتگو کرنی چاہیئے ۔۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خطے کے ان تین بڑے ممالک کو دنیا کی ایک تہائی آبادی کو بچانے کے لئیے دور رس فیصلے کرنے ہونگے ۔۔اختلافات میں مشترکات پہ تو کم از آگے بڑھنا چاہئے ۔۔

(ایک پیراگراف ماخوذ ) 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !