واٹر منیجمنٹ۔۔ ندیم رزاق کھوہارا

تین مہینے پانی میں ڈوبتے ہیں۔ چھ مہینے پانی کو ترستے ہیں۔ 
آبی کثرت اور آبی قلت دونوں کا مشترکہ حل۔۔۔۔ آبی تنظیم یعنی واٹر مینجمنٹ، فیلڈ کی سطح پر، آن فارم واٹر مینجمنٹ۔۔۔۔

صرف بڑے ڈیموں کی شکل میں ہی نہیں بلکہ صوبے کے قریے قریے، گاؤں گاؤں میں واٹر مینجمنٹ۔۔۔۔ دیہات کی سطح پر آبی تالابوں کی تعمیر، لاتعداد چھوٹے آبی ذخائر بنانا، آبی ترسیل کے نظام کو پختہ کرنا، اور کھیتوں کو ہموار آبی فراہمی کو یقینی بنانا۔۔۔۔۔ 
یہ سب کام آبی تنظیم یعنی واٹر مینجمنٹ کا حصہ ہیں۔ اور بدقسمتی سے پچھلے ایک سال سے خصوصاً پنجاب میں ان کاموں کو نہ صرف روک دیا گیا ہے بلکہ ان پر 20, بیس سال سے کام کرنے والوں کو نوکریوں سے نکال کر دربدر کر دیا گیا ہے۔ 

آپ سوچیں گے کہ انہوں نے بیس سال میں کیا کیا تو اگر یہ کام پچھلے بیس سال سے جاری نہ ہوتا تو آج گاؤں اور دیہات کی سطح پر بمپر اور وافر فصلیں پیدا نہ ہو رہی ہوتیں۔ جو گندم، چاول ضرورت سے زائد پیدا ہوتا ہےاس کے ایک ایک دانے کو لوگ ترس رہے ہوتے۔ نہ یہ پانی بچایا جاتا اور نہ فصلیں ہوتیں۔ 

لیکن یہ کام مسلسل جاری رکھنے والا ہے۔ ہر سال آبی تنظیم کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ فیلڈ کی سطح پر پانی کی اسٹوریج اور موثر ترسیل۔ اور اس کام کو کرنے والوں کی بھی مسلسل ضرورت ہے۔ کجا یہ کہ انہیں سڑکوں پر لا کھڑا کیا جائے۔ جیسا کہ محکمہ زراعت کے این پی آئی ڈبلیو ملازمین اس وقت بحالی کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ 

ہم بڑے بڑے ڈیموں کی تعمیر کی بات تو کرتے ہیں۔ ان ڈیموں میں پانی ذخیرہ کر کے پھر فیلڈ کی سطح پر تک پہنچانا کیسے ہے؟ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ کم پانی سے بھی بہتر کاشتکاری کیسے ہو سکتی ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ بے آباد اور بنجر زمینوں کو بہتر واٹر مینجمنٹ کی مدد سے کیسے آباد کیا جا سکتا ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ 

تین مہینے سیلاب میں ڈوبتے ہیں۔ تین مہینے سکون سے گذرتے ہیں اور پھر باقی چھ مہینے پانی کو ترستے ہیں۔ پورے سال کے صرف تین مہینے سکون نو مہینے ہم ٹنشن کا ہی شکار رہتے ہیں۔ اور اسی ٹنشن کو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر صرف واٹر مینجمنٹ کی مدد سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ 

حکومت، ادارے، میڈیا، سوسائٹی سب کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ سیلاب سے پیچھا چھڑانا اور بوند بوند کو ترسنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس پر بھی بات کریں۔ 

پانی کی قلت اور کثرت دونوں کے مشترکہ حل پانی کی مینجمنٹ پر فوکس کریں۔ اور اس پر کام کرنے والے جیسا کہ "این پی آئی ڈبلیو" ملازمین کے تجربے سے فایدہ اٹھائیں۔ اسی میں ملک، صوبے اور عوام کی فلاح ہے۔ محکمہ زراعت، منسٹر زراعت، سیکرٹری زراعت، ڈی جی واٹر مینجمنٹ سمیت تمام معززین اور متعلقہ حکام سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔ 
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقیم لوگوں کے جان و مال کی عافیت کی دعائیں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔ 

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !