یہود نے عیسی علیہ السلام کو اس لئے رسول ماننے سے انکار کیا کیونکہ وہ یہودی کانگرس کی یہ شرائط ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ شریعت موسوی کے دوران جو کچھ بھی فقہی طومار تیار کیئے گئے تھے تورات کو ڈس ایبل یا معطل کرنے کے لئے ،جب تک کوئی نبوت کا دعویدار ان کی تصدیق و تعمیل نہیں کرے گا وہ نبی نہیں ہو سکتا ۔
الٹا حضرت عیسی علیہ السلام فریسیوں کے لکھے اس علمی مواد کو تورات کے خلاف سازش سمجھتے تھے ۔ جب باڑ ہی فصل کو کھانا شروع کر دے تو کھیت کی حفاظت کون کرے گا ؟ اسی پس منظر میں فرمایا گیا قول زریں ہے حضرت عیسی علیہ السلام کا ۔
افسوس کا مقام یہی ہے کہ آج مسلم علماء بھی فریسیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سلف کے لکھے گئے مخطوطات کو قرآن کریم سے بالا سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کے واضح حکم کے باوجود مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک کوئی روایت یعنی حدیث اس کے حق میں پیش نہ کی جائے تب تک یہ حکم قران میں محفوظ و موجود ہوتے ہوئے بھی صرف تلاوت کیا جا سکتا ہے مگر عملاً منسوخ رہے گا ۔
یہود نے چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بطور رسول مسترد کر دیا لہٰذا ان کا متبادل تخلیق کیا کہ اصلی مسیح نے تو آنا ہے اور اس نام نہاد آنے والے میں وہ تمام معجزات بیان کرنا شروع کر دیئے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے صادر ہو رہے تھے ،،
یہی نام نہاد جعلی مسیح جس کو ہماری روایات میں مسیح الدجال یعنی جھوٹا مسیح کہہ کر متعارف کرایا گیا ، اس کو اسلامی عقیدے میں داخل فرما لیا گیا ۔ ہمارے تضاد کو شاباش دیجئے کہ یہود تو عیسی علیہ السلام کے متبادل یا سبسٹیٹیوٹ پر غائبانہ ایمان لا کر اس کا انتظار کر رہے ہیں ، مگر ہم یہ ایمان رکھتے ہوئے بھی کہ اصلی عیسیٰ علیہ السلام تشریف لا کر ہمارے ایمان کا حصہ بن چکے ہیں ، پھر بھی ان کے متبادل یعنی مسیح الدجال کے آنے کے منتظر بھی ہیں 😳یہود نے پہلا مسترد کر کے دوسرے کی آمد کا ڈول ڈالا ،ہم یہود کے بھی باپ نکلے کہ پہلے پر ایمان لا کر دوسرے جعلی والے پر بھی ایمان لانے کی مہم چلا رہے ہیں ، اور دجال کے منکر کو گمراہ کہتے ہیں ۔
پھر یہود نے دجال کی شکتیوں کو عیسی علیہ السلام کے مقابلے میں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کیا ،،حالانکہ ان میں بہت ساری قران کریم کے خلاف ہیں ۔ ہمارے لٹریچر میں دجال کو باقاعدہ وہ شکتیاں عطاء کر دی گئ ہیں جن کو قرآن کریم صرف اللہ کے ساتھ مخصوص کرتا ہے ، یعنی انبیاء و رسل بھی وہ شکتیاں نہیں رکھتے جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ییں ۔ و ان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو ۔۔ قل انی لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا ۔
دجال خدائی طاقت رکھتا ہے ، جس کو چاہے نفع دیتا ہے اور جس کو چاہے نقصان دیتا ہے ۔
جو اس پر ایمان لائے گا اس کے کھیتوں پر بارش ہو گی اور ان کی کھیتیاں ہری بھری ہوں گی ۔
جو اس پر ایمان نہیں لائے گا ان کی کھیتیوں پر بارش نہیں ہو گی اور وہ بھوکے مریں گے ،
وہ زندگی بھی دے گا اور موت بھی دے گا ۔
وہ بیت اللہ کا طواف اس حال میں کرے گا کہ اس پر دو چادریں ہونگی اور دو آدمی اس کو دائیں بائیں سے سہارا دیئے ہونگے ۔
وہ بیت اللہ کو ھدم کر دے گا
مدینہ سے پچاس ہزار لوگ باہر آ کر اس پر ایمان لائیں گے ۔ واضح رہے یہود کا دجال دعوی نبوت کرے گا کہ وہ عیسی ہے ۔ مگر ہم مسلمانوں کا دجال دعوی خدائی کرے گا جس پر مدینہ شہر کے پچاس ہزار لوگ باہر نکل کر ایمان لے آئیں گے ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ بیت اللہ میں تو دجال داخل ہو کر طواف کرے گا ،،یعنی حرم مکی کے فرشتے اتنے ماٹھے ہیں کہ وہ مسیح الدجال کو نہیں روک پائیں گے ، مگر حرم مدنی کے محافظ فرشتے دجال کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ،جس پر دجال زلزلے سے مدینہ شریف کو ہلا مارے گا اور پچاس ہزار لوگ باہر نکل کر دجال کو خدا مان لیں گے ۔
ظلم یہ کہ ہماری روایات میں بھی اس کو مسیح الدجال کہا جا رہا ہے ، یعنی جھوٹا مسیح ، جب ہم اصلی مسیح پر ایمان لا چکے تو ہمیں نقلی یا دجالی مسیح کا انتظار کیوں ہے ؟ کیا قرآن کریم نے مسیح الدجال پر ایمان لانے کو ایمانیات کے پیکیج میں شامل کیا ہے۔ ؟