پنجابی شناخت کے سوال پر میں نے دوستوں سے لاتعداد مکالمے کئے ہیں پنجاب کے قومی سوال پر ہم کئی دوست نوے کی دہائی سے مباحث کر رہے ہیں
پنجابی زبان اور شناخت کے حوالے سے لاتعداد پوسٹس کر چکا ہوں شہروں کے قدیم ناموں، یہاں کے قبائل اور لسانی تنوع پر بہت سی زبردست مباحث میں شامل ہو چکا ہوں ۔ اس سسلے میں میرے کئی تھریڈ ایسے تھے جن پر سو کے قریب کمنٹس ہوئے۔ ان کمنٹس میں نہایت علمی و فکری گفتگو کی گئی۔اس گفتگو سے مجھے یہ یقین ہوا کہ فیس بک محض وقت گزاری کا طریقہ نہیں ہے اس کا علمی استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ علمی مباحثوں کے دوران اختلافِ رائے کے باوجود زیادہ تر دوستوں نے باہمی احترام کو برقرار رکھا
میری ایک پوسٹ تھی کہ فیصل آباد کا مستقبل میں نام ساندل کے نام پر ہو گا اور آئندہ بیس سالوں میں ہوگا۔ اس پوسٹ نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی اور لائلپور کے نام کے حوالے سے مختلف لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
اس لئے پنجاب میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ دھرتی کا اصل بیٹا کون ہے
سب سے قدیمی اور سب سے اصلی قبائل کون سے ہیں ۔ پنجاب میں کالونی گیر کا جو طویل عمل چلا ہے اس نے ان اصل قبائل کی شناخت دھندلا دی ہے جیسے جناب منظور اعجاز صاحب نے پنجاب کی اس نسل بارے لکھا ہے جو نسبتا کالے رنگ کی ہے اور مموٹے ہونٹوں والی ہے۔ان قبیلوں پر سب سے زیادہ لطیفے بنائے گئے۔انھیں احمق اور ناکارہ قرار دیا گیا
ان لوگوں کو پنجاب کے ریڈ انڈین کہا جا سکتا ہے۔ ہان کے بارے میں لطائف، اقوال اکھوان اور اشعار جمع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا کیسے استحصال کیا گیا ہے
حتی کی ان کو غیرت مند بھی نہیں بتایا جاتا۔ محققین کا خیال ہے کہ آریا حملہ آوروں کے دور سے ان کو بے غیرت اور دوسری گالیوں کا مستحق قرار دیا گیا کیونکہ وہ مفتوح تھے بندے غلام تھے اور عورتیں گھروں میں ڈال لی گئی تھیں
پنجاب کے نظر انداز خانہ بدوشوں پر بہت دفعہ گفتگو ہوئی ایک دفعہ میں نے یاد دلایا کہ ہر شہر میں خانہ بدوش قبائل کے لئے ایسی زمینیں موجود ہوتی تھی جو پبلک زمینیں ہوتی تھیں لیکن اب یہ زمنینیں کسی نہ کسی کے قبضی گروپ کے پاس ہیں اب پنجاب میں خانہ بدوش ثقافت ختم ہو رہی ہے اس پر بہت سے دوستوں نے اپنی رائے دی تھی
پنجاب میں کوئی بھی ذات اپنے آپ کو مقامی الاصل نہیں بتاتی اس کی کیا وجہ سے کہ سب ذاتیں اپنا ماخذ باہر کسی دوسرے ملک سے جوڑتی ہیں حتی کہ پنجاب کی پس ماندہ اور نظر انداز ذاتیں بھی ایسا کرتی ہیں
ان مین سے ایک چوہڑا قبائل تھے۔ جو مسیحی بنے تھے یہ پنجاب کے سماج میں سب سے زیادہ نظر انداز شدہ قبیلوں میں سے ایک تھے ۔ بعض علاقوں میں ان کو زمین کی ملکیت کی اجازت نہیں تھی آج کل پنجاب میں کوئی شخص اپنے آپ کو چوہڑا کہلوانا پسند نہیں کرتا
پیشوں اور ذاتوں کے حوالے سے تھی پنجاب میں بہت سی ذاتیں پیشے کے اعتبار سے اپنی پہچان کرواتی تھی یہ مقامی الاصل ذاتیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ہاتھ سے کام کرنے والے پیشے تحقیر کا باعث خیال ہونے لگے حتی کی لوہار ترکھان اور دھوبی درزی سیالکوٹ میں بہت مضبوط شناختیں تھیں لیکن اب موجودہ نسلیں اس پر شرمندگی محسوس کرتی ہیں اور ان ناموں سے شناخت نہیں کرواتیں کئی پیشوں نے اجتماعی طور پر اپنی ذاتوں کو تبدیل کیا ہے
پنجاب کے جٹ قابئل بھی مقامی قبائل میں شمار ہو سکتے ہیں لیکن وہ بھی اپنا اصل بیرونی جڑوں میں تلاش کرتے ہیں
پنجاب میں ملک اعوان جٹ گوجر اور راجپوتوں کے بارے میں بھی کافی مباحث ہوئے۔ پنجاب میں کئی جگہ یہ قبائل آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں اور کئی جگہ یہ ایک دوسرے کو کمتر قرار دیتے ہیں ملک اعوان تو اپنا نسب ہی اعلی ارفع ملاتے ہیں جبکہ راجپوت اپنے آپ کو ایران کے شاہی خاندان سے جوڑتے ہیں جٹ کئی معاملات میں مختلف ہیں جبکہ گوجر اپنے آُپ کو سفید ہن سے ملاتے ہیں لیکن زمینوں کی ملکیت اور قبائلی رسومات سے بہت اندازہ لگایا جا سکتا ہئے
اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خانہ بدوش ، چوہڑے، پیشے والی ذاتیں، چنگڑ وغیرہ پنجابی نہیں ہیں
اب یہ لوگ اپنے آپ کو راجپوت جٹ، مغل اور عربی النسل بتاتے ہیں حتی کہ پنجاب کے قریشی قبائل کے بارے کہا جاتا ہے یہ پنجاب کے مقامی قابل عزت قبائل تھے جن کو آریا نے مفتوح کیا اور عربوں کے آنے کے بعد انھٰں عزت کے طور پر قریشی کہا گیا ان کا عرب کے قریشی قبیلے سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ لوگ معلم، طبیب اور استاد تھے بعد میں ملا بھی بن گئے
قریشی خود کو اس کیٹیگری میں ڈالنے پر غصہ کریں گے وہ خود کو ارفع اور اعلی سمجھتے ہیں اور انہوں نے خصوصی طور پر اپنے شجرہ نسب بنا رکھے ہیں
قریشیوں نے جو کیا سو کیا لیکن پنجاب کے دوسرے قبائل نے بھی اپنی عظمت کہ کہانیوں کو عرب شریف میں تلاش کیا ان میں آرائیوں کے قبائل قابل ذخر ہیں جو عرب شریف سے اپنے رشتے تلاش کر کے لائے ہیں کچھ محققین نے لکھا تھا کہ یہ پنجاب کے مقامی کاشتکار تھے جن کو یہاں کے حالات کے مطابق کاشتکاری آتی تھی دوسرے زمینوں کے مالک کاشتکاری کی یہ باریکیاں نہیں سمجھتے تھے لیکن مفتوح ہونے کے بعد یہ عملا آریا قبائل کے غلام بن گئے چنانچہ عربوں کی آمد کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا چوغا تبدیل کر لیا تھا؎
قریشیوں اور آرائیوں نے خود کو سو فیصد مسلمان ڈیکلیئرڈ کیا تھا شاید پنجاب میں بڑے پیمانے پر مذہبی تبدیلی کا حصہ تھے لیکن میراثی جو مقامی فنکار اور موسیقار گھرانے تھے انہوں نے بھی اپنے آپ کو عرب نسلوں میں شمار کر لیا۔
یہ پنجاب کی ثقافت اور رسم و رواج اور موسیقی کے رکھوالے تھے
کئی جگہ میں نے پڑھا ہے کہ پنجاب میں برہمن اور اعلی ملا بھی پہلے میراثی تھے اپنے اعلی حافظے، اپنی سریلی آواز، اعلی لحن اور اس طرح کی خوییوں نے ان کو مواقع دیئے کہ وہ پہلے برہمن بن گئے بعد میں مسلمانوں کی آإد کے بعد اعلی عرب ذاتوں سے اپنا رشتہ ملانے لگے اور بہت سے لوگ ابتدائی زمانوں میں ہی کامیاب رہے۔
راجپوت کے بارے یہی ہے کہ یہ ایرانی ہو نہ ہو آریا ضرور ہوں گے جو اوائل میں زمینوں کے مالک بن گئے اور انہوں نے پنجاب میں طبقاتی معاشرے کا آغاز کیا
جٹ کو کہا جا سکتا ہے کہ یہ پنجاب کے نسبتا طاقتور قبائل تھے جن کو مفتوح ہونے کے بعد بھی راجپوتوں نے عزت دی ان کا اور راجپوت کا فرق ان کے رسم و رواج سے لگایا جا سکتا ہے راجپوتوں میں خواتین کو ستی نہیں ککیا جاتا تھا ان میں دوسری شادی کا تصور محدود ہوتا تھا بعد میں جب طلاق اور بیوہ کی شادی کا تصور تھا عورت طاقت ور تھی بعد میں جب ان کو سماج میں عزت ملی تو ان کی اشرافیہ نے جٹ اشرافیہ کی نقالی میں بعض رسومات کو اپنایا حالانکہ جٹ قابئل میں ایسی رسومات نہیں تھیں۔
پنجاب کی نسلوں قبیلوں اور ذاتوں پر کوئی ٹھوس تحقیقی کام ابھی باقی ہے
غیرت اور عزت کے مصنوعی تصورات آریا قبائل کے ساتھ آئے عربوں کی آمد کے بعد یہان کی مقامی نسلوں اور قبیلوں نے اپنے آپ کو عرب نسلوں اور ذاتوں سے ملانے کی کوشش کی اور ان میں سے بعد تو غزنوی دور میں ہی شروع ہو گئے تھے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے
پنجاب کی زبان پر بھی بہت کچھ لکھا گیا لیکن آجکی پوسٹ نسلوں اور ذاتوں تک محدود رہ گئی ہے یہ کوئی تحقیقی کام نہیں ہے صرف آرا ہیں جو مختلف کتابوں سے لی گئیں ہیں