کھاد مہنگی ہے چلیں کوئی مسئلہ نہیں ظلم برداشت کیا جاتا ہے یا ظالم کا علاقہ چھوڑ دیا جاتا ہے ، حکومت کھاد پر اپنے ٹیکس نہیں ختم کرتی نہ کرے مگر ایک کام تو کرے جس کے لیے ادارے بنے ہوئے ہیں تنخواہوں کے ساتھ مراعات دی جا رہی ہیں کہ کھادوں کے فارمولے تو پاکستان کی زمین کے مطابق بنائے جائیں ، مثلاً پاکستان کی زیادہ تر زمینوں اور ٹیوب ویلز کے پانی کا پی ایچ 7 سے زیادہ ہے جب زمین کا پی ایچ 7 سے زیادہ ہو جائے تو وہ پیداوار کم کرنے کے ساتھ ساتھ بنجر ہونے لگتی ہیں ایسی صورت میں تیزابی کھادیں زیادہ فائیدہ مند ہوتی ہیں جن میں آرگینک میٹر کا اضافہ شامل کیا جائے تو رقبے بہتر ہونے لگتے ہیں ، مگر جہالت اور آپسی مخالفتوں میں پھنسے دماغ مستقبل کے بارے کیسے سوچیں ، ہمارا ہر حاکم گذشتہ و آئندہ حاکم کو کمزور بنانے کے حربے سوچتا رہتا ہے ، اسے ہماری آئندہ نسلوں سے کیا غرض ، نہ وہ زمیندار نہ کسان ۔۔۔ صنعتی یونٹ تو کہیں بھی شفٹ کیا جا سکتا ہے ۔
ویسے یہ جو ریاستی بارڈر ہوتا ہے جس کی حفاظت میں آنے والی موت شہادت کہلاتی ہے یہ کوئی فیکٹری نہیں ہوتا بلکہ زمین کا حصہ ہی ہوتا ہے ، کسی بھی ملک کی زمین فتح کی جاتی ہے ، جنگ میں شکست زمین کا چلے جانا طے کرتا ہے ، کس کے کتنے فوجی مرے کوئی نہیں گنتا ۔ ۔۔ تو سرکار و سر سرکار زمین اگر فتح نہیں ہورہی تو بنجر ضرور ہو رہی ہے ، فتح ہونے سے آپ بچائیں بنجر ہونے سے کسان کو بچانے دیں اور جنگ کی طرح اس مسئلے کو ڈیل کریں ۔
سب سے پہلے روایتی کھادوں کو بدلیں جس پر دنیا پہلے سے کام کر چکی ہے ، یوریا فاسفیٹ کھاد جس کی فروخت پر پابندی ہے کیونکہ وہ ڈی اے پی کھاد کے لیے خطرہ ہے کو عام کرنے کی ضرورت ہے جو ڈی اے پی کے مقابلے میں سستی بھی ہے اور اثر بھی زیادہ رکھتی ہے ۔
یوریا کھاد پر پابندی لگائی جائے اور نائٹروجن کے حصول کے لیے امونیم سلفیٹ کھادوں کو سستا کر کے مارکیٹ کیا جائے ۔
نہری پانی کی زرعی رقبے تک پہنچ جلد از جلد ( موٹر وے کی طرح ) مکمل کی جائے یعنی ریاستی وعدے کے مطابق زرعی رقبوں تک نہری پانی پہنچایا جائے اور ٹیوب ویل جو کہ پینے کا پانی ہے کو بچایا جائے ، نہری پانی زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے جبکہ ٹیوب ویل کا پانی زیادہ تر ہائی پی ایچ ہوتا ہے جو زمین کی حدت میں اضافہ کرتا ہے ۔ پی ایچ یعنی پاور آف ہائیڈروجن ۔
اسی طرح بیج مہنگے ہیں کوئی مسئلہ نہیں مگر ان کو تیار یہاں پاکستان میں کیا جائے تاکہ وہ یہاں کے موسم اور زمین کے مطابق پرفارم کر سکیں ۔
ٹریکٹر مہنگے ہیں کوئی مسئلہ نہیں مگر اب آہستہ آہستہ ان کو یہاں بنانا شروع کیا جائے فی الحال امپورٹ ہو رہے ہیں یا اسمبل کیے جا رہے ہیں ۔
اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ہم مینوفیکچرنگ اور کنزیومر ٹیکنالوجی میں دنیا سے بہت پیچھے اس لیے ہیں کہ ہمارے سرمایہ دار کو اور صنعتکار کو ناجائز منافع کی صورت میں باقی کاموں سے بہت کچھ بچ جاتا ہے اس لیے وہ ایک حد سے بڑھ کر نہ رسک لیتا ہے اور نہ پھیلنا چاہتا ہے ، وہ ریسرچ پر پیسے ضائع کرنے کی جگہ امپورٹ کو ترجیح دیتا ہے اور زیادہ منافع کماتا ہے ۔ ہمیں میڈ ان پاکستان ہونا ہے یاد رکھیں 24 کروڑ لوگ ہجرت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اتنے لوگوں کو کوئی ملک برداشت کر سکتا ہے ، ہمیں عارضی پالیسیوں سے اور شاہ خرچیوں سے نکل کر حکمت اور دور اندیشی سے کام لینا ہوگا ۔
اگر ریاست اصلاحات کا آغاز کرے تو سب سے آسان ٹارگٹ زراعت کو درست کرنا ہے اور اس وقت سب سے اہم بھی یہی ہے ، زراعت درست ہوگئی تو ماحول کے ساتھ ساتھ خزانہ بھی بھر جائے گا ، یہ واحد بزنس ہے جس میں ساری بادشاہی گاہک کی ہے ، گاہک خوش کاروبار میں اضافہ ۔