جدید تفریحی اور معلوماتی انڈسٹری ایک ہی بنیادی اصول پہ کھڑی ہے، اصول یہ ہے کہ کامیاب لوگوں کی نقل کرو، جیسا وہ کرتے ہیں تم ان کے پیچھے دہراؤ تو تم بھی انہی کی طرح کامیاب ہو سکتے ہو، گویا " کامیابی کا معیار " ہمارے ذہنوں میں گھسانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پیروی کرو ہر اس شخص کی جو تمہاری نظر میں کامیاب اور پسندیدہ ہے ۔
اس انڈسٹری کی پھیلائی ہوئی معلومات کا اثر ہمارے لاشعور تک ہے اور یہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے، بالخصوص انسانوں کے باہمی تعلقات میں یہ اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اس کے اثر سے نکلنا شاید ممکن نہیں، اور چونکہ انسانوں کے باہمی تعلقات میں محبت اور جنسی تعلق اہم تر حیتیث رکھتے ہیں تو یہی مقام سب سے زیادہ اس بے ہنگم طوفان کی زد میں ہے ۔
کامیابی کے اس " معیار " پیچھے بھاگنے کی وجہ انسانوں کی کمزور نفسیات ہے، انسان ہمیشہ اپنے قول و فعل متعلق شک میں رہتا ہے کہ وہ ٹھیک کر رہا ہے یا اس سے کہیں غلطی ہو رہی ہے، اور پھر خود کا دوسروں سے موازنہ کرنے کی عادت بھی ہمیں اداسی کی طرح ورثے میں ملی ہے تو دکھائے گئے کامیاب معیارات کی نقل کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔
جنسی تعلقات کی جائے وقوعہ چونکہ گواہوں سے مبرّا ہوتی ہے تو ایسے میں سرزد کردہ فعل کیلئے تصدیق کی طلب بڑھ جاتی ہے کہ نجانے فعل کامیابی سے سرزد ہوا یا کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے، شرم کی وجہ سے کسی مخلص اور تجربہ کار دوست سے مشورہ کرنے کی بجائے فرد گوگل پہ جاننے نکل پڑتا ہے کہ کامیاب فعل کے لوازمات کیا ہیں اور کیا نشانیاں ہیں کہ جنہیں دیکھ کر خود کو سرخرو محسوس کیا جا سکتا ہے، اور گوگل پہ ایسا تمام مواد بدرجہ اتم موجود ہے۔ سرخروئی کا آخری معیار دکھایا جاتا ہے کہ مرد یونانی دیوتا جیسا ایک ماچو ہے اور محبوبہ صدیوں سے پیاسی اور بپھری ہوئی گرم حسینہ، فرد ایسی "تصدیق" دیکھ کر سر پکڑ لیتا ہے کہ " اس سے سستی صرف خاموشی ", اس کے بعد سگریٹ سلگا کر مکیش یا منصور ملنگی کے غمگین گیت سنے جاتے ہیں ۔
اگلی بار فرد پھر اپنے اس کامیاب ہیرو کے جیسا پرفارم کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اپنے پارٹنر پر (اسے بتائے بغیر) ویڈیو والی قاتل حسینہ کا رول مسلط کر دیتا ہے، دورانِ فعل جانچنے کی کوشش کرتا ہے کہ سب کچھ پلان کے مطابق چل رہا ہے یا کہیں کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے، نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا کہ فقط کردار نبھایا جا رہا ہوتا ہے، فرد خود فعل میں شامل نہیں ہوتا، ایسے جیسے وہ سائیڈ پہ کھڑا تنبیہ کر رہا ہے کہ یوں نہیں، بلکہ یوں اور اب یوں،،،،،، لطف کہیں بیچ میں سے کھسک جاتا ہے۔
ازدواجی فعل کی نیچر ایسی ہے کہ سپردگی اس کا جزوِ لازم ہے، جسم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی اسی فعل میں غرق ہوتو ہی سرخروئی کا جھنڈا گاڑا جا سکتا ہے، بغیر کسی رول کی ادائیگی کے ، اور کسی پند و نصائح پر سر دھنتے بغیر، آپ اپنی فطرت اور خواہش مطابق اسے سر انجام دیجئے۔
مگر فطرت اور خواہش کے سامنے کئی رکاوٹیں ہیں، رائج اخلاقیات اور بھاشن ایک ہیں تو تہہ در تہہ چڑھی ہوئی شرم و حیا دوسری، جو کہ اکثر ہماری سماجی پرورش کا نتیجہ ہوتی ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر اچھے خاصے سمجھدار لوگوں میں بھی مباشرت اور محبت میں فرق نہ کر سکنا ہے، ان دو میں فرق جاننا ہر طالب علم کیلئے ضروری ہے۔ محبت اور مباشرت قطعاً ایک چیز نہیں، یہ دو مختلف اظہاریئے ہیں اور ہمیشہ مختلف ہی رہیں گے، البتہ حجرۂ عروسی میں ان دو کو یکجان کرنا ہی اصل کھیل ہے اور پیران حسن و عشق ہی اس میں کامیاب رہے ہیں ۔
محبت کے اظہاریئے کیلئے نازک لمس سب سے بڑی نشانی ہے، مگر مباشرت کا اظہاریہ نازک لمس کی بجائے جارحیت ہے، لیکن لوگوں کی بھاری اکثریت ازدواجی فعل میں جارحیت کے تصور کو جانوروں جیسی جبلت تصور کرتے ہوئے رد کر دیتی ہے کہ پھول جیسی نازک حسینہ کے ساتھ یہ رویہ زیادتی اور جنگلی پن ہے، ہوں پورے عمل میں نازک لمس یعنی محبت کے اظہاریئے تک محدود رہتے ہیں، مگر اندر ہی اندر ایک تشنگی باقی رہتی ہے کہ تصورات اور خواہشات کی مکمل سیرابی نہ ہو سکی، اسی بات کو لے کر فرائیڈ نے کہا تھا کہ بستر پر جب دو پارٹنر موجود ہوتے ہیں تو وہ دو نہیں بلکہ چار ہوتے ہیں، دو تو وہ جو جسمانی طور پر وہاں موجود ہیں، اور دو وہ جو اپنے اپنے دماغ میں سمائے بیٹھے ہیں مگر باہر آنے سے کتراتے ہیں، شرماتے ہیں، جھنجھلاتے ہیں کہ شرم و حیا آڑے ہیں، روایات و سماجی پرورش اجازت نہیں دیتی۔
مرد چاکلیٹی ہیرو بننے کے چکر میں میٹھی اور ہلکی چوٹ تک محدود رہتا ہے کہ پارٹنر کو کانچ کی گڑیا والا پورا پیکج عملی طور پر ثابت کرنا ہے، مگر من میں جو بھڑکتے شعلے بجھ نہ پائیں تو پھر آٹا گوندھتے ہوئی ہلنے پر بھی جھگڑے ہوتے ہیں، پیران حسن و عشق بتاتے ہیں کہ ازدواجی فعل کی شروعات محبت سے کرنا چاہئے یعنی نازک لمس کا اظہاریہ ہی بہترین ابتدائیہ ہے، جوں جوں آگے بڑھتے جائیں تو نزاکت کم کرتے جائیں اور جارحیت کا عنصر شامل کرتے جائیں، یعنی شربت میں پہلے چینی اچھے سے ملا لیں اور اس کے بعد لیموں نچوڑ تے جائیں، شیرینی اور ترشی کا مرکب ہی صحیح پیاس بجھا سکتا ہے ، کوئی ایک عنصر بھی کم ہو تو پیٹ تو بھرا جا سکتا ہے مگر پیاس برقرار رہتی ہے۔ لیکن اکثر معاملات میں ایسا ہو نہیں پاتا کہ یہ توازن برقرار رکھنا تنی ہوئی رسی پہ چلنے جیسا ہے، خوف رہتا ہے کہ کسی ایک طرف جھکاؤ زیادہ نہ ہو جائے، اس پہ طرہ یہ کہ، پارٹنر کیا سوچے گا، جیسے سوال بھی ذہن کی توجہ پروسیس سے ہٹا دیتے ہیں، ان شکوک اور سوالوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کا پارٹنر بھی آپ ہی کی طرح کئی مخفی خواہشات، تصورات رکھتا ہے، تشنگی کی تسکین چاہتا ہے۔