یہ کہانی شاید آپ کے محلے کی بھی ہو، یا پھر آپ کے اپنے گھر کی۔ فرق صرف کرداروں کا ہے، ورنہ قصہ سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
چند روز پہلے میرے ایک دوست نے بڑے فخر سے اپنے بیٹے کا تعارف کرایا۔ “یہ میرا بیٹا ہے… ابھی میٹرک کیا ہے مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے ڈاکٹر بناؤں گا۔” میں نے پوچھا، “بیٹے کی رائے لی ہے؟” وہ ہنس پڑا، “ارے رائے تو میں دوں گا، یہ تو ابھی بچہ ہے، اسے کیا پتہ!” اس بچے نے سر جھکایا ہوا تھا، جیسے کوئی حکم سن کر سپاہی "جی حضور" کہہ دیتا ہے۔ اس لمحے میں نے سوچا، یہ بیٹا ڈاکٹر بنے گا یا ایک ایسا آدمی جو زندگی بھر اپنے خواب کے بجائے اپنے باپ کے خواب کا بوجھ اٹھائے گا؟
ہمارے ہاں اکثر والدین بچوں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ اپنی نامکمل کہانی کے کردار ہوں۔ باپ نے انجینئر بننا چاہا مگر حالات نے اجازت نہ دی، اب وہ بیٹے کو انجینئر بنائے گا، چاہے بیٹا کینوس پر رنگ بکھیرنے میں ماہر ہو۔ ماں نے کبھی گلوکاری کا شوق دل میں دبایا، تو بیٹی کو ساز کے پیچھے بٹھا دے گی، چاہے وہ اپنے خواب کسی اور دھن میں سن رہی ہو۔ ہم اولاد کو اپنے نامکمل خواب پورے کرنے کے لیے پیدا نہیں کرتے، بلکہ اپنی خواہشات کے جیتے جاگتے منصوبے کے طور پر پروان چڑھاتے ہیں۔
ایک اور واقعہ سنیں۔ میرے جاننے والے ایک شخص نے اپنے بیٹے کو کالج میں داخل کروایا۔ بچہ پڑھائی میں کمزور مگر کھیلوں میں بہترین تھا۔ کوچ نے اسے قومی سطح پر کھیلنے کا موقع دیا۔ مگر باپ نے صاف انکار کر دیا: “بیٹا پہلے ایم بی اے کرے گا، پھر کھیلے گا۔” نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ایم بی اے مکمل ہوا، نہ کھیل بچا۔ آج وہ نوجوان ایک چھوٹے سے دفتر میں کلرک ہے، اور کبھی کبھار میدان کے قریب سے گزرتے ہوئے خاموشی سے آسمان کو دیکھ لیتا ہے… شاید اپنے چھپے ہوئے خواب کو وہاں تلاش کرتا ہے۔
ہمارا معاشرہ بچوں کو زندگی کی دوڑ میں ایسے دھکیلتا ہے جیسے گھوڑوں کو ریس میں دوڑایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ گھوڑوں کو کم از کم انعام کا وعدہ تو ہوتا ہے، ہمارے بچوں کو نہیں۔ والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر بچہ الگ مزاج، الگ قابلیت اور الگ خواب رکھتا ہے۔ بیٹے کو بزنس کا شوق ہو تو اسے سائنس کی کتابوں میں قید کر دینا ایسے ہی ہے جیسے کسی پرندے کو پنجرے میں رکھ کر کہنا، “اڑو… مگر میرے بتائے راستے پر۔”
میرا ماننا ہے “زندگی دوسروں کے خواب پورے کرنے کا نام نہیں، اپنے خوابوں کو پہچاننے اور جینے کا نام ہے۔” لیکن ہمارے گھروں میں یہ فلسفہ الٹا چلتا ہے۔ ہم بچوں سے کہتے ہیں: “بیٹا! یہ میرا خواب ہے، اسے تم نے پورا کرنا ہے۔” ہم ان کے کندھوں پر اپنی ناکامیوں، محرومیوں اور خواہشات کا بوجھ رکھ دیتے ہیں، پھر حیران ہوتے ہیں کہ وہ خوش کیوں نہیں ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کامیابی کو صرف ایک ہی شکل میں سوچ رکھا ہے: ڈاکٹر، انجینئر، یا بزنس مین۔ حالانکہ کامیابی کی شکلیں اتنی ہیں جتنے انسان۔ ہر بچہ اپنے خواب کے لیے پیدا ہوتا ہے، مگر ہم اسے اپنے خواب میں کھپا دیتے ہیں۔
کاش ہم یہ سمجھ پاتے کہ بچوں کو اپنے جیسا بنانے کے بجائے، انہیں ان جیسا بننے کا موقع دینا اصل محبت ہے۔ کیونکہ جو پھول اپنی مرضی سے کھلتا ہے، اس کی خوشبو دور تک جاتی ہے… اور جو زبردستی کھلایا جائے، وہ کاغذی ہی رہتا ہے ۔