پھلدار پودوں آلوچہ ، انجیر ، انار ، خوبانی ، اخروٹ ، شہتوت ، آلوکاٹ ، امرود، شفتالو ، سیب اور بٹنگ کو بالغ ہونے میں بہت دیر لگی۔ تاہم کیلوں نے دو سال بعد جو حق محنت لوٹایا ، اس کے لنگر میں ایک سو بیس پھلیاں تھیں۔ اسے ہم نے بہیکڑ کے پتوں میں لپیٹ کر ذخیرہ شدہ بھوسے اور گھاس والی گوہال میں دبا دیا۔ تیسرے دن ملاحظہ فرمایا تو پھلیاں پک کر پیلی ہو چکی تھیں۔ ایک پھلی توڑ کر کھاٸی اور قاضی صاحب کو دعا بھی دی اور غاٸبانہ شکریہ بھی ادا کیا۔
ان سبزیوں اور پھلوں کے پودوں سے ہمیں اتنی انسیت ہو گٸ کہ ہم ان سے دل کی باتیں کیا کرتے۔ وہ باتیں جو ہم کسی اور سے شیٸر نہ کر سکتے تھے کہ اگر نکل جاتیں تو دور تک جاتیں۔ مثلاً ۔۔۔ ٹماٹر کے پودے سے ہم نے ایک دفعہ کہا : ”یار اس چٹھی کا جواب نہیں آیا جو میں خود پہنچا کر آیا تھا۔“ بس وہ پودے جواب نہیں دے سکتے تھے لیکن ہمیں یقین کامل تھا کہ ہماری آہوں کو سنتے ہیں۔ مغموم بھی ہوتے ہوں گے اور نوید سن کر نہال بھی ہوتے ہوں گے۔ ہر جاندار چیز توجہ اور پیار کی بھوکی ہوتی ھے۔ ان پودوں سے اپنایت کے اظہار ، رکھ رکھاٶ اور دیکھ بھال کا ردعمل یہ رہا کہ جو بھی پھلا ، بے تحاشا پھلا۔ پُھل دوپہر (گل داٶدی) ، موتیا ، گلاب اور رات کی رانی پر ایسے درخشندہ پھول آۓ گویا رنگوں کے دیپ جل اٹھے ہوں۔ اچھا اس ساری محنت کشی میں مجال ھے جو کسی اور نے ہاتھ بٹایا ہو۔ ایک بار دادی سے گلہ کیا تو بولیں : ”سب تمہیں اس پھلواری مسجد کا امام سمجھتے ہیں اور امام کے ہوتے ہوۓ کوٸی اور کیسے مصلے پر کھڑا ہو سکتا ھے۔“
ہم نے پانچ باٸی پانچ مربع فٹ میں ایک چھوٹی سی پانچ فٹ اونچی کوٹھڑی بنا کر ایک لا وارث کتونگڑے کو اس میں لا چھوڑا۔ گھر والوں نے بہت مخالفت کی کہ رحمت کے فرشتے نہیں اتریں گے۔ یہ پلید ھے۔ ناپاک ھے۔ بھونکے گا تو نحوست پڑے گی۔ ہم مگر ڈٹ گۓ کہ چنے کا تعلق گھر کی چار دیواری سے ھے ہی نہیں۔ رحمت والے فرشتے براہ راست آسمان سے سیدھے صحن میں اتریں گے جیسے ہمیشہ سے اترتے آۓ ہیں۔ اگر انھوں نے کتے کی شکایت لگاٸی تو میں اسے وہیں چھوڑ آٶں گا جہاں سے لایا تھا۔ اس کوٹھڑی میں ہم نے پرانا کمبل بچھا دیا۔ اور ایک سرہانہ بھی رکھ دیا۔ سرہانہ کتے کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے۔ کبھی کبھی دونوں اکٹھے لیٹ جاتے تھے۔ کتے کا نام ہم نے ڈپٹی رکھا۔ بہت سیانا تھا۔ جلد ہی وہ سب کچھ سیکھتا گیا جو ہم اسے سکھانا چاہتے تھے۔ چنے کی ہریالی اور زرخیزی گاٶں بھر میں مشہور ہوٸی۔ آتے جاتے لوگ تعریف سے نوازتے تو ہم یاد دلاتے کہ ”ماشاءاللہ“ کہا کریں ، ورنہ نظر لگ جاۓ گی۔ وہاں بہت پہلے سے ایک تندور نصب تھا جسے ہم نے ضد کر کے مسمار کیا اور اگلے دوسرے صحن میں نۓ کی تنصیب کا مشورہ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ تندور میں بھڑکتے الاٶ کی زبانیں باہر نکلتیں تو ان کی واڑ سے پھولوں اور نوخیز پودوں کے مرجھانے کا خطرہ تھا۔ گھیا کدو کی بیل ہم نے دھمنڑ کے درخت پر چڑھاٸی جس پر مٹکے برابر کدو لگے۔ کریلے اور باغڑے کی بیلوں کو ہم نے دھریک پر چڑھنا سکھایا تو انھوں نے خوشی کے مارے گھنٹیاں لٹکا دیں۔ توری اور چرچنڈے کی بیلوں کو ہم نے بڑے کمرے کی چھت کی راہ سجھاٸی۔ دونوں نے چھت سجا دی۔ جنگلی تل کے بیج ہم نے آزماٸشی بوۓ تھے مگر انھوں نے بھی مایوس نہ کیا۔ جنگلی تل کا بیج سرسوں کے بیج جتنا ہوتا ھے لیکن ذاٸقے میں سفید تلوں کو شرما دیتا ھے۔
اس پھلواری یا باغیچے کی آبیاری کے لیے ہم نے پلاسٹک کا سو فٹ طویل پاٸپ گھر کی ٹونٹی سے لے کر باغیچے کے نصف قطر تک پہنچایا۔
یہ ساری محنت ہماری نصابی سرگرمی کو متاثر کرنے لگی اور ہمیں روزانہ سکول میں مار پڑنے لگی۔ بڑی مشکل سے دل کو سمجھایا کہ پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب۔ ورنہ دوسری صورت میں ہو گے خراب۔
کالج کا زمانہ آیا ، مزاج اور خیالات کمیونسٹانہ ہونے لگے۔ سر پھٹول اور عشق کی تمنا دل میں سر اٹھانے لگی۔ رومانوی سے ہوتے گۓ۔ کالج میں تقریریں اور مباحثے چلنے لگے۔ بننے سنورنے کا شعور جاگنے لگا۔ باغیچے کی طرف سے دھیان ہٹنے لگا۔ ہم سے زیادہ اس تبدیلی اور نقصان کو پودوں نے زیادہ محسوس کیا۔ ایک دن دیکھا تو کچھ اجاڑا سا لگا۔ گویا سبھی پودے بلکہ ان کی پتی پتی ہم سے سخت شاکی ہو۔ دل پہ گھونسا سا پڑا۔ ہم پلٹ کر کمرے میں آۓ۔ سفید سوٹ اور کالی واسکٹ اتاری ، لنگوٹ کسا ، کھرپا اٹھایا اور جا ملے اپنی پھلواری کے یاروں سے۔
چار برس بعد دنیا دیکھنے کی آرزو لیے گھر اور گاٶں چھوڑا۔ واپسی برسوں بعد ہوٸی۔ پلٹے تو چنے کی طرف لپکے۔ کچھ بھی نہ تھا۔ وہی پہلے کا بنجرپن اور اجاڑا جسے ہم نے مدتوں اپنا خون پسینہ سینت سینت کر گلستان بنایا تھا۔