مجھے وہ بوڑھا شخص نہیں بھولتا جس نے ایدھی صاحب سے کہا تھا آپ مجھے بطور لاوارث لاش دفنا دیجیے گا مگر میرے بیٹے کو اطلاع نہ کیجیے گا ، ایدھی صاحب نے پوچھا آپ کا بیٹا کہاں ہوتا ہے ؟ بزرگ نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں چراتے ہوئے کانپتی آواز میں کہا ,, کینیڈا ،،
یہ وہ والدین ہوتے ہیں جو اپنی ساری جمع پونجی، اپنا آرام، اپنی خواہشیں قربان کر کے بیٹوں کو یورپ ، امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ یا پھر وہ نوکری کے لیے ان ممالک میں چلے جاتے ہیں جس کے لیے والدین اپنی زمینیں تک بیچ دیتے ہیں ، تاکہ ان کے یہ بچے اچھا پڑھ لکھ کے بڑھاپے میں والدین کا سہارا بنیں ، ان کی آخری عمر آسان کریں ۔ لیکن اکثر کیسز میں یہ سب ایک واہمہ ہی ہوتا ہے ، بچے لوٹ کے واپس نہیں آتے ، نہ ہی والدین کو وہاں لے کر جاسکتے ہیں ، بوڑھا اور بڑھیا ایک خالی صحن میں، خالی کرسی پر بیٹھے بیٹے کی راہ تکتے تکتے رخصت ہو جاتے ہیں ۔۔
یہ بچے صرف بیوروکریٹس، ججز، جرنیل، بڑے بزنس مین یا بڑے وکیلوں کے نہیں ہوتے، بلکہ ہر اس شخص کے ہوتے ہیں جو اپنی ہڈی پسلی بیچ کر، زمین گروی رکھ کر، یا برسوں کی کمائی سمیٹ کر اپنے بچے کو "بہتر مستقبل" دینے کے لیے دیارِ غیر بھیج دیتا ہے۔ شروع میں کالز آتی ہیں، میسجز آتے ہیں ، تھوڑے بہت پیسے بھی آتے ہیں۔ لیکن پھر وہاں کی زندگی، وہاں کے رنگ اور وہاں کے رشتے ان بیٹوں کو ایسا جکڑ لیتے ہیں کہ وہ ماں کے بیمار بستر تک نہیں پہنچ پاتے، باپ کے جنازے تک نہیں آ پاتے۔
میں نے اپنی آنکھوں میں ایسے کئی گھر دیکھے ہیں جہاں والد برسوں بیٹے کا انتظار کرتے رہے، لیکن موت آئی تو کندھا دینے والا ملازم تھا، بیٹا نہیں۔ ماں دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کی قبر پر پہلی مٹی بھی بیٹے کے ہاتھوں نہ پڑی۔ کچھ نے تو اپنے والدین کی وفات کے پانچ، دس سال بعد بھی پاکستان کا رُخ نہ کیا۔ وہاں شادی کر لی، بچے پیدا ہوئے، اور زندگی ایک نئے دائرے میں گھومتی رہی۔
یہ صرف ایک فرد کی داستان نہیں، یہ ہمارے معاشرتی المیے کا چہرہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ باہر بھیجنا کامیابی ہے، لیکن کامیابی اس رشتے کا کیا جس میں والدین بڑھاپے کی دہلیز پر تنہا رہ جائیں؟ جہاں ان کا دکھ، ان کا علاج، ان کا جنازہ کسی غیر کے رحم و کرم پر ہو۔
زندگی بہت مختصر ہے۔ اگر آپ کے والدین آج آپ کے پاس ہیں تو یہی اصل جنت ہے، یہی اصل سرمایہ۔ بڑے عہدے، بڑی تنخواہیں، غیر ملکی پاسپورٹ سب کچھ ایک دن مٹی ہو جائے گا، لیکن ماں باپ کا سایہ اگر چلا گیا تو کبھی واپس نہیں آئے گا۔
اپنے بچوں کو پڑھائیں، سنواریں، ترقی دلائیں، لیکن ان کے دلوں میں یہ بات ضرور بٹھائیں کہ "وطن اور والدین" کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ ورنہ ایک دن وہ بھی صرف تصویروں میں رہ جائیں گے… اور آپ کے دل میں ایک ایسا خالی پن چھوڑ جائیں گے جسے کوئی پاسپورٹ، کوئی ڈالر، کوئی شہرت نہیں بھر سکے گی۔