پروفیسر صاحب ۔۔ عمر فاروق

یونیورسٹی کا غالباً چھٹا سمیسٹر تھا، گرمیوں کے دن تھے، زندگی میں پیسوں کی کمی تھی البتہ محبت وغیرہ سر پر سوار نہ تھی تو مطالعے وغیرہ میں دل لگتا تھا ۔ ہمارے لیکچر چونکہ پچھلے پہر ہوتے تھے اس لیے ہم ظہر کے وقت آرام سے تیار ہو کر یونیورسٹی آیا کرتے تھے ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ گرمیوں کا موسم تھا، میں تھوڑا جلدی آ گیا اور اپنے شعبے کے باہر لگی دھریکوں کی چھاؤں میں لگے سیمنٹ کے بینچوں پر بیٹھ کر اپنی پسندیدہ کتاب "کئی چاند تھے سر آسماں" پڑھنے میں محو تھا ۔ اچانک ہی میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہمارے ایک نہایت معزز پروفیسر صاحب ڈیپارٹمنٹ کے چند لڑکوں کو لیے ایک دو بینچز کی جگہ بدلی کروا رہے تھے تا کہ وہاں کھڑے طلباء و طالبات چھاؤں میں بیٹھ سکیں، اُن لڑکوں میں میرے ایک دو ہم جماعت بھی تھے جو سر کے قریبی تھے، ظاہر ہے یونیورسٹی میں اچھے سے وقت گزارنے کے لیے کسی نہ کسی پروفیسر کا دست شفقت سر پہ ہونا لازمی ہے۔ 
چونکہ مجھے کسی نے بلایا نہیں، نہ ہی میں نے بن بلائے رضاکار بننا مناسب سمجھا اور مطالعہ کرتا رہا ۔ اتنے میں کسی نے مجھے آواز دی کہ سر تمہیں بلا رہے ہیں، مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے لڑکوں کے باوجود بینچ اٹھانے کے لیے مجھے کیوں بلا رہے ہیں میں کونسا کیپٹن امریکہ ہوں ۔ جب میں اُن کے پاس پہنچا تو بولے 
"ہم تمہارے ملازم ہیں؟" 
مجھے اس بے موقع سوال پر حیرت ہوئی، میں نے کہا 
"نہیں سر، کیوں کیا ہوا؟" 
اگلا سوال بھی نہایت واہیات تھا 
"تو کیا تم کسی نواب کے بچے ہو؟" 
مجھے اتنے عجیب انداز میں کیے جانے والے یہ سوال سخت نامناسب لگے لیکن میں حیرت سے یہی کہہ سکا کہ 
" سر کیا ہوا ہے؟ "
فرمانے لگے 
"ہم سب یہاں کام کر رہے ہیں، اور تم ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھے کتاب پڑھ رہے ہو، اتنے تم کتابی کیڑے "
میری زبان گنگ ہو گئی کہ میں ملازم تھوڑی ہوں کہ مجھے مدد کے لیے کہا بھی نہ جائے اور میں آ کر جی سر جی سر کرنے لگوں، سخت کوفت ہوئی لیکن چپ ہی رہا ۔ 
لیکن میرا دیگر لڑکوں کی طرح سر کے ارد گرد نہ منڈانا سر کو بہت بُرا لگا تھا، مطلب میری ہمت کیسے ہوئی کہ میں اُنہیں پروٹوکول نہ دوں ۔ پھر خود ہی بولے 
"میں نے اکثر نوٹ کیا ہے تم پاس سے گزرتے ہوئے مجھے سلام بھی نہیں کرتے، تمہیں کس بات کی آکڑ ہے؟" 
اُن کے اس سوال پر میں حیران ہوا کہ کیسا پروفیسر ہے جسے طالب کو کہنا (بلکہ ڈانٹا) پڑ رہا ہے کہ تم مجھے سلام کیوں نہیں کرتے ۔ بھئی اپنے آپ سے بھی پوچھ لیجیے کہ آپ میں کیا کمی ہے۔ میرے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں تھا کیونکہ میں اچھے نمبر لینے کے لیے خوامخواہ کی چاپلوسی نہیں کر سکتا، جو بھی میرا CGPA ہے یہ یا تو محنت سے لیا ہے یا اپنے سے آگے بیٹھنے والی دوست کی مہربانی ہے جو پیپر کے دوران مدد کر دیتی تھی، باقی کبھی کسی پروفیسر کے ساتھ اس لیے راہ و رسم نہیں بڑھائے کہ وہ مجھے اچھے نمبر دیں گے۔ 
اور یہ جن پروفیسر صاحب کو مجھ سے گلہ تھا کہ میں انہیں سلام نہیں کرتا، ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ پندرہ دنوں میں ایک آدھی کلاس لیتے تھے، کچھ وقت کلاس کے کسی ایک لڑکی یا لڑکے کی بے عزتی کرنے میں نکال دیتے، باقی کچھ بھاشن دیتے اور پانچ دس منٹ اپنے مضمون کے بارے میں بات کرتے اور کہتے جاؤ، اب کیا خاص خوبی تھی کہ جن سے ہم متاثر ہوتے؟ کلاس کے لوگ متاثر تھے، متاثر ہونے کی یہی وجہ تھی کہ جو طلباء آتے جاتے اُن کے کمرے میں جا کر سر جی سر جی کرتے یا سر راہ ملنے پر کندھے جھکا کر سلام لیتے اُن کے نمبر ہمیشہ اچھے رہتے ۔ میں تو یہی وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ سلام بھی بس اُن ہی اساتذہ کو کرنا ہے کہ جن کو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے ہوئے پایا، خوامخواہ کی باتیں کرنے والوں سے ہمیں کیا سروکار ہوگا ۔ 
خیر اُنہوں نے مجھے سخت بے عزت کیا، کئی سینئر، جونیئر اور میرے کلاس فیلو میری حوصلہ افزائی لائیو دیکھ رہے تھے، ندامت سے میرا گلہ خشک ہو رہا تھا البتہ میں نے اپنی زبان پر قابو رکھا کیونکہ میں بولتا تو یہ ساری باتیں اُن کے منہ پر کر جاتا جو ابھی ڈگری مکمل ہونے کے ایک ڈیڑھ سال بعد کر رہا ہوں ۔ مجھے بس اس بات نے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا کہ مشکل سے ایک سال باقی ہے، یہ صاحب سینئر پروفیسر ہیں، خوامخواہ میرے لیے مشکلات کھڑی کریں گے ۔ 
یہ ساری باتیں کرنے کے بعد مجھے کہنے لگے چلو جاؤ اور اب وہاں نہ بیٹھنا، یہ میرے صبر کا امتحان تھا جو انہوں نے لیا، میں وہاں کھڑے کسی بھی لڑکے یا لڑکی سے نظر نہ ملا پا رہا تھا اور میرے قدم اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ چلنا محال ہو گیا ۔ اب میں کبھی اساتذہ کے متعلق کچھ لکھوں تو کئی دوست میرے گلے پڑ جاتے ہیں کہ استاد عظیم انسان ہوتا ہے، استاد قوم کا باپ ہوتا ہے، استاد ترقی کا مینار ہوتا ہے، استادی پیغمبری پیشہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات سے پوچھیے استاد کیسے کیسے جاہل بھی ہوتے ہیں، مطلبی، ٹھرکی اور حاسد بھی ہوتے ہیں ۔ 
میں نے بی ایس میں داخلہ لینے کے بعد تہیہ کر لیا تھا کہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی کروں گا اور پروفیسر بنوں گا، لیکن یونیورسٹی میں ماحول دیکھا تو مجھے لگا یہ سب فضول ہے، یہاں سیاست ہے، یہاں ایک دوسرے کی غیبتیں ہوتی ہیں، پارٹی بازی چلتی ہے، بس وقت کو دھکا لگایا جا رہا ہے، بہت مشکل سے میں نے ڈگری مکمل کی اور اب میں (کم از کم اردو میں) ایم فل کرنے کا ارادہ بھی ترک کر چکا ہوں، ایسا نہیں کہ سبھی اساتذہ بُرے ہوتے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ بیشتر کو میں نے عجیب ہی پایا، کہ تعلیم دینا اور اچھے شہرہ پیدا کرنا اُن کی ترجیحات میں نہیں، اُن کے لیے یہ پیسے کمانے کا ذریعہ ہے اور پروٹوکول اور عزت ساتھ بونس میں لے کر طلباء و طالبات پر حکمرانی کرتے پھرتے ہیں ۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !