یہ دوغلا پن ۔۔ تہنیت افتخار

کچھ دن پہلے مجھے کلینک جانا ہوا۔۔ کلینک پر کافی رش تھا۔۔ اس وقت نمبر 15 نمبر چل رہا تھا اور میرا نمبر 25 تھا یعنی کہ طویل انتظار۔۔ 
کافی بھیڑ بھی تھی۔ سامنے دیکھا تو دو بچے بیٹھے تھے۔ اکثر بچے مجھے متوجہ کر لیتے ہیں۔۔ میں انھیں دیکھنے لگی۔۔ بہت کمزور سے تھے۔۔ دبلے پتلے لیکن ایکٹیو لگ رہے تھے۔۔ دونوں بہن بھائی تھے شائد۔۔ سات آٹھ سال عمر ہو گی۔۔ 
میں نے دیکھا کہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔۔ وہ کوئی گیم کھیل رہے تھے زبانی۔۔۔ تھوڑی دیر گزری کہ ایک تیس پینتیس سال کا نوجوان اندر داخل ہوا اور ان بچوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔ نوجوان کافی لمبا اور خوبصورت تھا۔۔ بچی اس کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔ لگا کہ شائد کوئی واقف کار ہیں۔۔ 
اک دم بچہ بولا۔۔ آپ کیا یہاں دوائی لینے آئے ہیں یا بیمار ہیں۔۔ اس شخص نے مسکرا کر کہا ہاں نا مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔۔ افف کتنی سردی ہے نا ۔۔ تو بچی بولی بابا سردی تو نہیں ہے اے سی چلا ہوا ہے مزاق نہ کریں۔۔۔اس طرح کہنے سے تینوں ہنسنے لگے۔۔ 
مطلب وہ ان بچوں کا باپ تھا۔۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جن کا اپنے بچوں کے ساتھ تعلق اتنا فرینک ہے۔۔ پھر وہ بچی پوری طرح اپنے والد صاحب کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔۔ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے۔۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔ پھر وہ کہتی کہ ہم گیم کھیل رہے تھے بابا۔۔ چلو اب بابا سے پوچھتے ہیں۔۔ بابا بتائیں کہ اگر بیس انڈے ہوں اور اس میں سے دو ٹوٹ جائیں اور دو یہ کھا لے تو باقی کتنے بچیں گے۔۔ اسی طرح وہ چڑیا کا پوچھنے لگے۔۔ ایسے وہ گیم کھیلتے بچے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ میری طرح سب ہی ان کی طرف متوجہ تھے۔۔ پھر وہ بندہ اس وجہ سے بھی توجہ کا مرکز رہا کہ اس کی شکل ڈرامہ سیریل ارتغرل میں ارتغرل کے کردار کی طرح تھی اور اس نے بھی لمبے بال رکھ کر پونی کی ہوئی تھی۔۔ شکل بہت زیادہ مشابہہ تھی۔۔ مجھے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ باپ کو تو بہت کم وقت ملتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکے۔۔ لیکن جس طرح وہ تینوں آپس میں بات چیت کر رہے تھے اس سے بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ یہ پہلی بار تھا۔۔ یوں محسوس ہوا جیسےوہ روٹین کی طرح ہی بات چیت کر رہے ہیں۔۔ مجھے اس عورت پر رشک آیا کہ جسے ایسا بندہ ملا ہے۔۔ جو اس کے بچوں کو وقت دیتا ہے۔۔ خیر یہی سوچ رہی تھی کہ ان لوگوں کا شائد نمبر آ گیا۔۔ اب جب وہ اٹھنے لگے تو پیچھے سے ایک عورت آگے آئی۔۔ معلوم ہوا وہ بچوں کی ماں تھی۔۔ وہ ماما کہتے اس عورت کے پاس آے اور کہا کہ باری آ گئی ہے چلیں اندر چلتے ہیں۔وہ عورت بھی کمزور سی تھی۔۔ آنکھیں اس کی کالی ہوئی تھی۔۔ بچے شائد ماں پر گئے تھے۔۔ خیر اس عورت نے آہستگی سے شوہر سے کہا۔۔ میں پیسے نہیں لائی ہوں ۔۔۔ہ ہم تینوں نے دوا لینی ہے پیسے دے دیں۔۔
اس نے بہت آرام سے کہا تھا لیکن خاموشی تھی تو سب کو سنائی دیا۔۔ اس شخص نے اک دم ہی مسکرا کر اونچی آواز سے بولا۔۔ لو ڈاکٹر پاس آئی اور پیسے نہیں لائی ہو۔۔ جاؤ جاؤ دماغ نہ کھاؤ میں تو اپنا پرس گھر رکھ کر آیا ہوں ویسے بھی اس میں دس پچاس ہی ہوں گے۔۔خود کرتی ہو نا تو دے دو ڈاکٹر کو۔۔ بیگ دکھاؤ اس میں ہوں گے۔ یہ سب وہ مسکرا کر مگر اونچی آواز میں کہہ رہا تھا۔۔ 
یقین مانیں میں کیا وہاں موجود سب اس بات پر بوکھلاۓ ہوں گے۔۔ خیر باری کی دیر ہو رہی تھی وہ عورت اندر چلی گئی۔۔ البتہ اس نے دو سے تین بار باہر بچے کو بھیجا کہ بابا سے پیسے لے کر آؤ۔۔۔بچہ جب باہر آتا تو مسکرا کر باپ سے کہتا۔۔ بابا پیسے دے دیں اور باپ بھی آگے سے اسی شفقت سے کہتا بیٹا بتایا تو ہے میرے جیب میں کوئی پیسہ نہیں ہے اپنی امی سے کہو پرس میں دیکھیں ہوں گے۔۔ دوسری بار بچہ آیا تو باپ کہتا ہے کہ یہی غنیمت سمجھو میں تم لوگوں کو یہاں کلینک پر پک کرنے آ گیا ہوں۔۔ ماں سے کہوں کہ پیسے لے کر آیا کرے۔۔ 
مجھے بہت عجیب لگا کہ جو بھی تھا دونوں میاں بیوی کو ایسے یہاں یہ تماشہ نہیں لگانا چاہیے تھا۔۔ بات کرنی تھی تو باہر جگہ بنی ہوئی وہاں جا کر کر لیتے۔۔ لیکن پھر وہ شخص بھی تو اونچا بول رہا تھا جبکہ اس کی بیوی آہستہ ہی کہہ رہی تھی۔۔ 
خیر بات یہ ہے کہ پہلی چیز تو کسی کو ایک نظر دیکھ کر جج نہیں کیا جاسکتا۔۔ جہاں میرے دل میں عورت کے لیے رشک تھا دوسرے لمحے ترس تھا۔۔ 
جہاں وہ شخص مجھے باپ کی شفقت دکھانے والا لگا تھا وہیں وہ مجھے عورت کی تذلیل کرنے والا بھی لگا تھا۔۔۔ 
عورتوں کا مان ہوتا ہے کہ ان کا شوہر کما کر انھیں لا کر دے۔۔۔ خیر اگر وہ شخص کچھ نہیں کر رہا تھا لیکن اس نے اپنے بچوں کے ساتھ اتنی اٹیچمنٹ کی ہوئی تھی کہ بچے اپنی ماں کی بجاے باپ کے ساتھ بیٹھ کر ہنس بول رہے تھے۔۔ ورنہ عموما بچے ماؤں کے پلے سے جڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔۔ 
یہ دنیا کی حقیقتیں ۔۔ کوئی انسان بھی یہاں پرفیکٹ نہیں ہے۔۔ کسی کے پاس حسن ہے تو کسی کے پاس دولت۔۔ کسی کے پاس وقت ہے تو کسی کے پاس وقت نہیں۔۔ 
انسان کو ہر حال میں شکر گزار ہونا چاہیے۔۔ 
بے شک تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔۔ چاہے اس وقت اس عورت کو لگتا ہو کہ یہ تنگی ہے لیکن اگر وہ شخص بچوں سے بھی رویہ بہتر نہ رکھے تب وہ برا ہو سکتا ہے۔۔۔ 
Tags

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !