دستر خوان یا میدانِ جنگ ۔۔ثمینہ رحمت منال

انڈیا اور پاکستان کے ڈراموں میں ایک رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں ملکوں میں دکھائے جانے والے ہر ڈرامے میں جنگ عظیم اول اور دوئم ہمیشہ کھانے کی میز پر شروع ہوتی ہے.
ساس بہو، نند بھابھی، سسر داماد، میاں بیوی، ماں بیٹا تقریباً ہر رشتے کی جنگ کا آغاز کھانے کی میز پہ شروع ہوتا ہے، ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو لگا لگا کے باتیں سنائی جاتی ہیں اور نتیجہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ناشتہ یا کھانا کھائے بغیر کھانے کی میز سے اٹھ جاتا ہے یا کھانا بیچ میں چھوڑ کے اٹھ جاتا ہے.

میں نے زندگی کے اکیس برس پاکستان میں گزارے اور ان اکیس برسوں میں سے چار برس کنیرڈ کالج کے ہاسٹل میں گزارے جہاں لگ بھگ دو ڈھائی سو لڑکیاں ایک ہی وقت میں رات کا کھانا کھاتی تھیں. گھر میں عموماً رمضان میں پورا خاندان دستر خوان بچھا کے بیٹھتا اور روزہ کھلتے ہی دعا سے کھانے کا آغاز ہوتا اور پورا کنبہ خوش گپیوں میں مصروف ہوتا ، عید کے بارے میں بات ہوتی ، رمضان کی برکتوں پہ بات ہوتی مگر کبھی کسی نے دوسرے کو طنز یا چبھتی ہوئی بات نہیں کی، کبھی کوئی کھانا چھوڑ کے نہیں گیا اور یہی حال رمضان کے بعد ہوتا، سب مل کے بیٹھتے، گھر میں کوئی دعوت ہوتی تو سب ہنستے کھیلتے کھانا کھاتے اور کسی کے تصور میں بھی نہیں ہوگا کہ کھانے کی میز کو میدانِ جنگ بنانا ہے.

کنیرڈ کالج کے ہاسٹل میں بھی آٹھ آٹھ لڑکیاں ایک ٹیبل پہ بیٹھ کے ڈنر کرتیں، پورا ہال لڑکیوں سے بھرا ہوتا، کھانا ہمیں میز پر ملتا مگر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، کبھی کسی نے کسی کی دل آزاری نہیں کی، کسی پہ طنز نہیں کیا، کسی لڑائی کا آغاز کھانے کی میز پر نہیں ہوا. سب لڑکیاں ہنستے کھیلتے ہوئے، خوش گپیاں لگاتے ڈنر کرتیں، میٹھا کھاتیں، اپنی ڈاک وصول کرتیں اور واپس اپنے اپنے کمرے میں چلی جاتیں.

کنیرڈ کالج کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے گرل گائیڈ ایسوسی ایشن کا حصہ بنی، پاکستان کے مختلف علاقوں میں گرل گائیڈ کیمپ میں شرکت کی جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں، کشمیر اور اسلام آباد سے پانچ پانچ لڑکیاں اکٹھی ہوتیں، سارا دن کیمپ میں گزر جاتا جہاں اس علاقے کی خواتین اور بچوں کے ساتھ بھرپور دن گزرتا. بچوں کی تعلیم، بڑوں کی تعلیم، میڈیکل کیمپ وغیرہ وغیرہ پہ بھرپور توجہ دی جاتی، شام کو ساری لڑکیاں مل کے کھانا کھاتیں مگر وہاں بھی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، کسی گرل گائیڈ نے کھانے کی میز کو میدانِ جنگ نہیں بنایا.

انڈیا اور پاکستان کے ٹی وی ڈراموں میں کون سا کلچر متعارف کرایا جارہا ہے، کس تہذیب و تمدن کی نمائندگی کی جاتی ہے، کون سی ثقافت پروان چڑھائی جارہی ہے. دستر خوان جو خاندان کو جوڑنے کا سبب بنتا ہے، خوش گپیوں کا محبت کا سبب بنتا ہے اسی دستر خوان پہ کھانے کی بے ادبی سکھائی جاتی ہے، بچوں بوڑھوں کا دل دکھایا جاتا ہے، طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں، کیا یہ ہندوستان کی ثقافت ہے؟ کیا یہ پاکستان کی تہذیب ہے؟.
کیا دنیا کے کسی بھی خطے میں کھانے کے آداب میں طنز کی ڈش کھانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے؟ میڈیا کون سی روش پہ چل رہا ہے، نئی نسل کے دل میں کس زہر کے بیج بو رہا ہے. اگر انڈیا اور پاکستان کے ہر دسترخوان پہ کھانے کی میز کو میدانِ جنگ ہی بنانا ہے، گھر کے مرد کو یا کماؤ پوت کو ناشتے سے لے کے رات کے کھانے تک عورتوں کی لڑائی کی غذا فراہم کرنی ہے تو وہ مرد کیا تخلیقی کام کرے گا، کس محاذ پہ لڑے گا، کیسے اپنے کام پہ، اپنی دکان پہ، اپنے دفتر پہ، اپنی ریڑھی پہ، اپنے کاروبار پہ توجہ دے گا. کون سا مرد چاہے گا کہ وہ بازار کی یا کاروبار کی فکر کرے اور ان لوگوں کے لیے کمائے جو ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں. اگر یہی حال رہا تو انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی سرحدوں پہ مامور فوجی کوئی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے، کیوں کہ وہ چھٹیوں میں گھر جاتے ہی گھریلو خواتین کے جھگڑے سن کے اور دیکھ کے واپس آئیں گے تو ان کا ذہن الجھا ہوا ہوگا تو یہ کون سا تمغہ جیتیں گے، کون سا بہادری کا کارنامہ انجام دیں گے، یہ تو گاجر مولی کی طرح ناکارہ پرزے ہوکے سرحدوں پہ بیٹھیں گے کہ جس نے ہمیں کاٹ کے چھیل کے سلاد کا حصہ بنانا ہے بنالے.

سرحد پہ دشمن کا خطرہ ہے اور گھر میں گھر والے ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں، نہ گھر میں چین نہ سرحد پہ سکون، گھر میں طنز کے نشتر اور سرحد پہ گولیوں کی بوچھاڑ کا کسی بھی وقت سامنا ہوسکتا ہے. جن جوانوں کے دل سے جینے کی امنگ ختم ہوجائے، چھٹیاں ہوتے ہی گھر جانے کی خوشی غمی میں بدل جائے وہ سکون کے لیے کہاں جائیں. 

انڈیا اور پاکستان کے ڈرامے خاندانی نظام کو برباد کر رہے ہیں، جو ثقافت یہ دکھا رہے ہیں وہ ثقافت دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے کا حصہ نہیں ہے حتیٰ کہ ہندوستان اور پاکستان کے معاشرے میں بھی وہ سب نہیں ہوتا. مگر دونوں ممالک کے ڈرامہ رائٹرز، پروڈیوسرز اور ٹی وی مالکان اس بدتمیزی کے طوفان کو اس معاشرے میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور خاندانی نظام کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں.
مغرب میں اگر میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ رجسٹرڈ چائلڈ مائنڈرز اور نرسریاں بنی ہوئی ہیں جن کے اسی فیصد اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے لیکن انڈیا یا پاکستان میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے. اگر میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو انھیں گھر میں دادی، نانی، خالہ یا پھپھی کی ضرورت رہتی ہے جو بچے کو اسی محبت سے پال سکے جو ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے، مگر ان رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھنے کی ترغیب دی جارہی ہے.

ابھی بھی وقت ہے کہ یہ دونوں ملک خاص طور پر اس نفرت پھیلانے والے مواد کو ڈرامہ بنا کر دنیا کو دکھانے کی بجائے ایسے مسودے کو لکھاری کے منہ پر دے ماریں. دنیا کی ہر بیماری کا علاج محبت ہے، چاہت ہے، الفت ہے اور اسی محبت پہ دنیا کی بنیاد رکھی گئی اور یہی محبت دنیا کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے، یہی محبت انسان کا کل اثاثہ ہے اس کے بغیر دنیا کا کوئی کاروبار کوئی ادارہ کوئی خاندان نہیں چل سکتا.

رزق سے محبت، رزق دینے والی جگہ سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے. کھانے کی میز کے آداب محبت کے آداب ہیں. بد قسمتی سے یہ آداب، یہ تہذیب، یہ محبت اور اس محبت کی چاشنی سے ہمارے ڈرامے خالی ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی جگہ سازش، نفرت اور طنز نے لے لی ہے جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں.

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !