کیا خیر ہے اور کیا شر ؟۔۔ ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی ارتقاء میں کئی ایسے افکار اور نظریات گزرے ہیں جنہیں انسان مسلمات (axioms ) سمجھتا رہا مگر وقت کے ساتھ یہ مسلمات ٹوٹتے بھی ہیں، کچھ ٹوٹیں تو پھر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں کہیں گم ہو جاتے ہیں، جیسے ایک طویل عرصے تک سائنس ہمیں بتاتی رہی کہ دو متوازی لکیریں ابد تک متوازی ہی رہیں گی ، کبھی ایک دوسرے سے مل نہیں سکتیں، لیکن نکولائی لوباچیوسکی نے یہ ثابت کر دیا کہ دو متوازی لکیریں کبھی نا کبھی ایک مقام پہ جا کر ضرور ملیں گی ۔
جبکہ دوسرے مسلمات رد ہونے کے باوجود انسانی نفسیات سے کبھی نکل نہیں پاتے ، جیسے کسی دور میں انسان خود کو ہی کائنات کا مرکز سمجھتا تھا ، سائنس نے بتایا کہ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ اس کائنات میں ہماری زمین کی حیثیت کسی صحرا میں پڑے ہوئے ریت ذرے برابر بھی نہیں،،، یہاں سے گویا ہماری بے وقعتی ثابت ہوتی ہے، یہ بات ہم جدیدیت پسند اکٹھ میں علم جھاڑنے کیلئے تو ڈسکس کر سکتے ہیں کہ انسانی وجود کائنات کی بیکراں وسعت میں قطعا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن کسی گوشۂ تنہائی میں فرد کے اندر یہ احساس نہایت شدت کے ساتھ موجود ہے کہ وہی اس کائنات کا مرکز اور وہی اس تخلیق کا مقصد ہے، انفرادی سطح پر فرد خود سے سچ بولے تو وہ تصدیق کرے گا کہ کائنات کے مقابلے میں زمین اور انسان کی بے وقعتی مسلمہ حقیقت سہی، مگر اندرونی آواز یہی ہے کہ میں ہی اس کائنات کا مرکز ہوں۔

  اور کئی مسلمات وہ ہیں جن پر کوئی بھی فکر رکھنے والا انسان نظر ثانی کا تکلف ہی نہیں کرتا ، جیسے خیر اور شر کی تعریف میں مسلمہ حقیقت جو مانی جاتی ہے، وہ یہ کہ یہ تمام وجودیت درحقیقت خیر ہے اور شر کا اہنی اصل میں کہیں کوئی وجود۔ نہیں، بس جہاں سے خیر کا عنصر کم ہو جائے تو وہاں شر داخل ہو جاتا ہے ورنہ شر اپنا کوئی علیحدہ وجود نہیں رکھتا، یہ فقط خیر کی غیر موجودگی ہے، ایسے ہی جیسے اندھیرا اپنی اصل میں کوئی وجود نہیں، روشنی کی غیر موجودگی ہی اندھیرا ہے۔۔۔ گویا کہ وجودیت کی سطح پہ خیر سے بھرا جام دھرا ہے، جونہی جام سے کبھی خیر چھلکے تو جام کی خالی جگہ میں شر داخل ہو جاتا ہے،،،،،،،،،، یہ فکر افلاطون سے لے کر ہیگل تک چلی آ رہی ہے، افلاطون نے اسے خیرِ مطلق کا نام دیا ، مذہبی شخصیات میں زرتشت، مترا، بدھا اور رام وغیرہ بھی اسی فکر کے علمبردار تھے۔

لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ اصل وجود اندھیرا ہی ہو ؟ روشنی صرف وہ چیز ہو جو غیر موجود ہے، یعنی کہ اس بحث کی طرف توجہ کم ہی جاتی ہے کہ وجودیت اپنی اصل میں شر بھی تو ہو سکتی ہے، شرِ مطلق، اور شر کے مقابلے میں جو چیز موجود نہیں ہے وہ خیر ہے، گویا کہ وجودی جام شر سے بھرا ہے، شر کہیں چھلک جائے تو خیر کیلئے تھوڑی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔

خیرِ مطلق کا تصور اس بنیاد پہ کھڑا ہے کہ فرد اپنی وجودی حقیقت اور اس وجودی حقیقت کے تجربے میں اتفاق پاتا ہے، سادہ زبان میں فرد زندگی کو پسند کرتا ہے، زندگی سے جڑی ہر اس چیز کو پسند کرتا ہے جو اسے زندہ رہنے میں مدد دیتی ہیں، وہ اپنے وجود اور فطرت کے درمیان ایک ہم آہنگی محسوس کرتا ہے، یہی ہم آہنگی آگے جا کر وحدت کے تصور سے جڑتی ہے، وحدت میں پھر خالق اور مخلوق یک جان دو قالب ہیں تو مطلقاً یہ خیر ہی ہوئی، جہاں شر کی کوئی جگہ نہیں ۔

لیکن اس تصور میں مشاہدہ کرنے والے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ، تمام وجودی حقیقت اگر وحدت میں ڈھلی ہوئی ہے تو ہر وجود کی اوقات پھر وہی ہے جو ایک پتھر کی دوسرے پتھروں کے درمیان ہے، جو اپنے اور دوسرے میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

فرق کرنے کی صلاحیت کیلئے دو وجودوں کے درمیان اجنبیت کے عنصر کا ہونا لازم ہے، اور اجنبیت کے ہوتے ہوئے پھر وحدت کو قبول نہیں کیا جا سکتا ۔

خیرِ مطلق والے پارلیمنٹ میں انسانی احساسات ، جزبات، تخیل اور شعور ، یہ سب پارلیمانی ارکان ایک ہی جماعت کے ہیں، سپیکر بھی اپنا ہے اور اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہے، یعنی انسانی شخصیت کا ہر وصف بطور thesis کام کر رہا ہے ، 

 لیکن شر مطلق کی پارلیمنٹ میں شعور بطور اپوزیشن لیڈر کام کرتا ہے، جس کا مقصد اس پارلیمنٹ یعنی کامل وجودیت کی غلط پالیسیوں کو پہچاننا اور اسے چیلنج کرنا ہے۔ یہاں انسانی شخصیت میں موجود باقی ماندہ اوصاف بطور thesis کام کر رہے ہیں مگر شعور antithesis ہے۔

گویا کہ وجودیت اور شعور ایک دوسرے کے متضاد کھڑے ہیں ۔

اگر شر مطلق والی بات پر بحث کو آگے بڑھایا جائے تو یقینا پہلا سوال یہ ہوگا کہ شر کیا ہے ؟
جواب ہوگا کہ، شر وہ ہے جو خیر نہیں ہے
اگلا سوال ہو گا کہ پھر خیر کیا ہے ؟
جواب ہوگا کہ خیر وہ ہے جو موجود نہیں ہے۔

اب یہ جو موجود نہیں ہے، غیر حاضر ہے، اس غیر حاضر کا مظہر یہی شعور ہے، اور شعور کا تعلق خالصتاً زبان کے ساتھ ہے، اگر زبان نہ ہوتی تو انسان اور لومڑی میں جسمانی ساخت کے علاوہ اور کوئی فرق ممکن نہیں تھا، زبان ہی اس پوٹینشل کو جنم دیتی ہے جہاں سے شعور ابھرتا ہے۔ شعور کے ابھرنے کے پھر آگے اپنے مراحل ہیں ۔

لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے، وہ یہ کہ خیرِ مطلق تو ایک آئیڈیا ہے، موجودہ کائنات اس خیرِ مطلق کا عکس ہے، یعنی خیر ایک آئیڈیا ہے اور اس آئیڈیا کا مادی عکس یہ وجودیت ہے،،،، ایسے میں لازم ہے کہ اگر ہم خیر کی بجائے شر کو آئیڈیا کی جگہ رکھتے ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ شرِ مطلق ایک آئیڈیا ہے، اور موجودہ کائنات اس شر کے آئیڈیے کا فقط عکس ہے،،،، یعنی کہ شر کی بھی دو سطحیں ہوئیں ، ایک یہ مادی دنیا جو کہ عکس ہے، یہ نچلی سطح ہے، اور ایک شر کی مادی دنیا کا اصل، شرِ مطلق ، اسی شرِ مطلق کیلئے وجودِ اعظم کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شر کی دونوں سطحیں واضح تر ہوتی جا رہی ہیں ، فرد کی اندرونی اور بیرونی دنیا شر سے بھری ہے، خیر ڈھونڈھنے سے نہیں ملتی، کیونکہ شعور (اپوزیشن لیڈر) کو ہر طرف سے گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، زبان اب فقط اشاروں اور ایموجیز تک آ چکی ہے، وجودِ اعظم اب خود کو حقیقی خیرِ مطلق کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !