سیف الملوک اور بدیع الجمال۔
پران کنارے کی دفن داستان
دنیا بھر کے زیادہ تر مورخین اور افسانہ نگاروں نے مصر کے شہزادے سیف الملوک اور بدیع الجمال (المعروف پری) کو ایک افسانوی کردار کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن سندھ کے مورخین کا ماننا ہے کہ یہ دونوں حقیقی کردار تھے اور ان کی باقیات پران سندھ کے کنارے موجود ہیں۔
تاریخی حوالے
سندھی مورخ محمود یوسفانی نے اپنی کتاب لطیف جا تھر تے بھیرا میں دعویٰ کیا کہ ڈگری سے جنوب کی طرف آٹھ کلومیٹر فاصلے پر پران کنارے سیف الملوک کے رہنے کے آثار ملتے ہیں، جو آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح مورخ محمد سومار شیخ نے اپنی کتاب کچھ جو رِن میں لکھا کہ علی بندر کا مشہور سونے کا تاجر دراصل سیف الملوک تھا، اور اس مقام کو آج بھی "سیفل جی وائی" کہا جاتا ہے۔
انگلستان کے مورخ مسٹر رابرٹ لی نے بھی اپنی کتاب میں، جو سندھی زبان میں ترجمہ ہوئی، سندھ میں سیف الملوک کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔
عمرکوٹ کے شاعر محمود پلی نے تو سیف الملوک کی کہانی کو سندھی شاعری میں امر کر دیا۔
سیف الملوک اور بدیع الجمال
اکثر مورخین متفق ہیں کہ شہزادہ سیف الملوک اور اس کی بیوی بدیع الجمال مصر سے تعلق رکھتے تھے۔
سیف الملوک ایک بڑا تاجر تھا جس کے قافلے اور کشتیاں دنیا بھر میں سونے اور دیگر اجناس کی تجارت کرتی تھیں۔ بدیع الجمال کوئی پری نہیں تھی بلکہ مصری النسل خاتون تھی، مگر اس کے حسن و جمال نے لوگوں کو اسے "پری" کہنے پر مجبور کر دیا۔ یوں وقت کے ساتھ وہ ایک افسانوی کردار میں ڈھل گئی۔
سومرو راجہ سے ٹکراؤ
سیف الملوک اپنے قافلے کے ساتھ ایران کے راستے ہندوستان آیا اور پھر دریائے سندھ میں کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اوروٹھا (سکھر کے قریب) پہنچا۔ اس وقت سومرو حکمران دلو رائے کا یہ اصول تھا کہ ہر قافلے کے مال کا آدھا حصہ ضبط کر لیا جائے۔
سیف الملوک کے قافلے میں جب سونے کی بڑی مقدار ملی تو دلو رائے نے نہ صرف سونا مانگا بلکہ بدیع الجمال کو بھی حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
سیف الملوک نے مہلت مانگی، اور اسی دوران رات گئے دریا کی روانی تیز ہوئی تو وہ اپنے قافلے کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
علی بندر میں قیام
سیف الملوک پران سے ہوتا ہوا بدین کی ساحلی پٹی "علی بندر" پہنچا۔ یہاں اس نے قیام کیا اور اپنی بیوی کے ساتھ رہائش اختیار کی۔ اس جگہ پر اس نے کنواں کھدوایا، جو آج بھی "سیفل جی وائی" یعنی "سیف الملوک کا کنواں" کے نام سے موجود ہے۔
چرواہے سے اختلاف
ایک دن وہ دونوں ریت کے ٹیلے پر کھڑے تھے کہ ایک چرواہا بکریوں کے ساتھ پانی پینے آیا۔ اس نے بکریوں کی طرح لیٹ کر پانی پیا۔
یہ دیکھ کر سیف الملوک اور بدیع الجمال میں بحث چھڑ گئی۔ سیف الملوک نے کہا کہ یہ چرواہے کی نسلی عادت ہے، جبکہ بدیع الجمال نے کہا کہ یہ صحبت کا اثر ہے۔
بحث بڑھ گئی، اور غصے میں سیف الملوک نے کہا کہ اگر یہ صحبت کا اثر ہے تو تم اسی چرواہے کے ساتھ جا کر دیکھ لو۔ بدیع الجمال نے بھی انا میں آکر حامی بھر لی اور چرواہے کے ساتھ چلی گئی۔
بدیع الجمال کا نیا قیام
بدیع الجمال نے چرواہے کے خاندان کو راضی کیا کہ وہ بکریاں چرانا چھوڑ کر بہتر زندگی گزارے۔ پھر وہ پران کنارے ڈگری کے قریب ایک مقام پر آباد ہوگئی اور ایک محل تعمیر کرلیا۔
یہاں اس نے محافظ رکھے جو قافلوں سے محصول وصول کرتے تھے، اور انہیں خاص ہدایت تھی کہ اگر سیف الملوک کا قافلہ گزرے تو اسے ضرور روکا جائے۔
دوبارہ ملاقات
کچھ عرصے بعد سیف الملوک وہاں پہنچا۔ محافظوں نے اسے قافلے سمیت روک لیا۔ چرواہے سے ملاقات کے دوران ایک منصوبے کے تحت بدیع الجمال نے سیف الملوک کو ایک ایسا منظر دکھایا جس سے اس کی غلطی واضح ہوگئی۔
چرواہا جوتیاں دور اتار کر نہا رہا تھا اور سیف الملوک نے خوشامد میں وہ جوتیاں اٹھا کر اسے دے دیں۔ یہ دیکھ کر بدیع الجمال نے پردے کے پیچھے سے کہا:
"یہی چرواہا ہے جو کبھی بکریوں کی طرح پانی پیتا تھا، مگر آج آپ نے اس کی جوتیاں اٹھائیں۔ اب بتائیے یہ صحبت کا اثر ہے یا نسلی اثر؟"
سیف الملوک اپنی غلطی پر شرمندہ ہوگیا۔ بدیع الجمال نے بتایا کہ اس نے چرواہے سے شادی نہیں کی بلکہ صرف اس کی تربیت کی تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ صحبت انسان کو بدل دیتی ہے۔
آخری ایام اور قبریں
بعد ازاں سیف الملوک اور بدیع الجمال ڈگری کے قریب پران کنارے آباد ہوئے۔ وہیں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور وہیں وفات پائی۔
آج بھی اس مقام پر دو قبریں موجود ہیں جنہیں مقامی لوگ سیف الملوک اور بدیع الجمال کی قبریں مانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان قبروں کی مرمت اور دیکھ بھال ہوتی رہی ہے۔
اختتام
یوں سیف الملوک اور بدیع الجمال کی کہانی افسانوں اور داستانوں میں زندہ ہے، مگر ان کا محل مٹی تلے دب گیا۔ پران کا کنارہ آج بھی ہزاروں راز اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، مگر افسوس کہ نئی نسل تاریخ اور کتابوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔