ابا جی (خاکہ) ۔۔ محمد عارف

 ابا کی پہلی شادی پرگائوں بھر میں پانچ دن تک کسی گھر میں چولھا نہ جلا ، یہ الگ بات کہ اس شادی کا قرض اتارتے ”خدا بخش ولد علی محمد سکنہ کوٹ عمر“ کو دس برس لگ گئے۔
 میرے اسکول داخلے کا فارم بھرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر نے ولدیت پوچھی تو بولے: ”خدا بخش ولد علی محمد سکنہ کوٹ عمر“ہیڈ ماسٹر صاحب کی مسکراہٹ اور یہ جملہ مجھے ابھی تک یاد ہے، اور پھرگاہے گاہے زندگی بھر یہ جملہ ہم سنتے رہے۔
 چھے فٹ سے نکلتا ہوا قد، جسم فربہ نہ کمزور، چہرہ لمبوترا، ہونٹ موٹے، گالوں پر گوشت کم تھا، ماتھا کشادہ، جس پر تین افقی لکیریں ، جن کے درمیان دو نالیاں سی بنتیں،متناسب مونچھیں سرکنڈے کے قط لگے قلم کی طرح،قلمیں لمبی ،کانوں پر بال ،ٹھوڑی کے نیچے گردن پر گلے کی ہڈی نکلی ہوئی تھی، جو پانی پیتے ہوئے اوپر نیچے متحرک ہوتی، بچپن میں ہم اسے پکڑنے کی کوشش کرتے، چہرہ سنجیدہ اور با رعب تھا، ہنستے کم کم تھے، رنگ گندم گوں تھا جو سخت مشقت سے تانبے کی طرح ہو گیا۔ بحیثیتِ مجموعی مہاندرہ ناصر کاظمی کی طرح تھا،آج بھی ناصر کاظمی کی تصویر دیکھتے ہوئے دھیان ابا جی کی طرف چلا جاتا ہے۔
  ہلکے کلر کے کپڑے پہنتے، خود اپنے لیےکبھی کوئی کپڑا نہ خریدا،سر پر ہمیشہ سفید پگڑی باندھتے، پگڑی کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلتے، گھر میں چپل، جب کہ باہر کھیڑ ی، ہینڈ میڈ سینڈل یاگرگابی پہنتے۔ گرمیوں میںگھر پر شلوکہ اور دھوتی جب کہ سردیوں میں کلیوں والے کُرتے کے ساتھ دھوتی یا شلوار پہن لیتے۔ الٹی قمیص کو سیدھا کیے بغیر، الٹا کر گلے میں ڈالتے اور پھر اسی طرح الٹے بازو بھی سیدھے کر لیتے۔ سفید لباس کے ساتھ سیاہ گرگابی شوق سے پہنتے۔
 ہر دوسرے تیسرے دن پہاڑ یا جنگل کی طرف نکل جاتے اور”کنھیری بوٹی“ کی مسواکیں لے آتے، روز صبح نئی مسواک سے دانت صاف کرتے، کبھی کبھار برش بھی کر لیتے۔جمعہ کے روز پورے جسم کی مالش کرتے، شیو کراتے، گالوں کے بال موچنے سے اتارتے،آخری وقت تک سر پر اچھے خاصے بال تھے، خاص خاص موقعوں پر سر اور مونچھوں پر خضاب لگاتے، ڈاڑھی رکھنے کے بعد بال رنگنے چھوڑ دیے، کالے چٹے بال اور ڈاڑھی ، جس کےسفید بال حقے کے دھوئیں کے طفیل ٹھوڑی پر زرد زرد تھے، بھلی لگتی۔ نہانے کے بعدسر پر سرسوں کے تیل کی مالش کر کے ، بجائے مانگ نکالنے کے پیچھے کی طرف کنگھی کرکے بال بٹھا لیتے۔ 
 ستر سے زائد بہاریں دیکھی ہوں گی، ان کی حقیقی عمر کا تعین مشکل ہے کہ پہلے فیکٹری میں بھرتی ہونے کے لیے زائد عمر لکھوائی گئی اور ازاں بعد ملازمت اور دیگر کچھ مسائل کی بنا پر ان کی تاریخِ پیدائش کا تعین ایک مخدوش سے اسکول سرٹیفکیٹ سے کیا گیا۔ ابا جی بتاتے تھے کہ میں چوتھی جماعت میں پہنچا تو فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، آپ کے دادا نے اسکول سے اٹھوا لیا،تقریباً نصف صدی بعد اسی اسکول کے سیلاب میں ڈوبے ایک خستہ حال صندوق سے ان کی کلاس کا ریکارڈ برآمد ہوا اور اس کی بنا پر ان کی نئی تاریخِ پیدائش کا تعین کیا گیا۔
  نیشنل سیمنٹ فیکٹری، ڈنڈوت آر۔ایس، میں نوکری جب مستقل ہوئی تودستور کے مطابق سرکار کی طرف سےانھیں ایک دستی گھڑی ملی۔ بڑے ڈائل کی یہ چابی والی سٹیزن گھڑی تمام عمر ان کی کلائی پر رہی،اس کی بہت حفاظت کرتے ، ڈیوٹی کے دوران میں دو تین بار اس کا شیشہ ٹوٹا تو گھڑی کے شیشے کی سائیڈ ہتھیلی کی طرف کر کے باندھنے لگے ، پھر آخر تک اس کی سمت یہی رہی۔ دائیں بازو پر چاندی میں مڑھا ، سوتر بھر موٹاتقریباً ڈیڑھ انچ قطر کا ایک بیضوی عقیق بندھا رہتا، اناری رنگ کے اس عقیق کے کناروں پرگولائی میں سورۃ الناس انتہائی دل کش اور نفیس خط میں کھدی ہوئی تھی،یہ عقیق ٹلہ جوگیاں سے آئے ایک سادھو نے انھیں دیا تھا۔ بزرگوں کا ایک عطیہ آدھے سر کے درد کا دم ان کی پہچان تھی، آدھے سر کی انتہائی تکلیف ایک دم اور تین شف سے فوری طور پر جاتی رہتی۔
  ابا جی کے کھانے کے قصے بہت مشہور تھے، ہم نے ان کی زبانی بھی سنے اور کئی راوی بھی روایت کرتے ہیں۔چار چھے دوستوں کے ساتھ مل کر بچھڑا یا کٹا نبیڑ جانا، پورا بکرا کھا جانا، سالم مرغ اور دیسی گھی کا پیالہ پینا تو معمولی اور عام سی بات تھی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہمارے آبائی گائوں ”کوٹ عمر“ میں زمانہء قدیم میں قصاب کی کوئی دکان نہ تھی، ہر دوسرے تیسرے مہینے چار چھے گھرانے مل کر ایک ”بھارو“ گرا لیتے ، پھر گوشت کے پارچے خشک کر لیے جاتے اور ہفتوں ،مہینوں تک اس کا استعمال جاری رہتا، اس دوران میں کوئی زخمی یا بیمار جانور ذبح ہوتاتو عید ہو جاتی۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا انھیں نپا تلا ہی کھاتے دیکھا، صبح ایک پراٹھا، دوپہر دو روٹیاں اور شام ڈیڑھ روٹی، سالن کچھ بھی ہوتا، ایک ادھ پلیٹ سالن کے ساتھ روٹی کی مقدار یہی رہتی۔ جب کبھی دیسی گھی ختم ہوتا تو ناشتے میں بھی پراٹھے کے بجائے خشک روٹی ہی کھاتے۔ ناشتا، صبح سات بجے،شفٹ ڈیوٹی کی صورت میں صبح آٹھ بجے کے بعد، دوپہر کا کھانا ٹھیک ساڑھے بارہ بجے اور رات کا کھانامغرب کی نماز کے فوراً بعد، کھانے کے یہ اوقات قانون کی طرح رائج تھے، ان سے رو گردانی ممکن نہ تھی،جب کبھی کھانا مقررہ وقت سے لیٹ ہوتا تو بھونچال آ جاتا۔چائے دن میں دو بار پیتے، صبح ناشتے میں اور سہ پہرعصر کے وقت، گرمیوں میں سہ پہر کی چائے پیتے ہوئے پنکھا بند رکھتے، اس دوران میں اچھا خاصا پسینا آتا، جسے خشک کرنے کے بعد پنکھا چلایا جاتا۔کبھی کبھار اس چائے میں ایک چمچ دیسی گھی کا بھی ملا لیتے۔ رات کی شفٹ میں ڈیوٹی ہوتی تو چائے کے لیے پائوکا ملک پیک اور دو روپے کی ہوئسٹ کینڈی ساتھ لے کر جاتے، ایک ادھ بچ جاتی تو اگلے روز ہمیں مل جاتی۔  
 موٹا گوشت، چھوٹا مغز، کریلے اور” نکا لون“ (جڑی بوٹیوں کی ایک خاص کری، جس کا سامان پنساری سے آتا) بہت مرغوب تھا، میٹھے میں حلوے کے شیدائی تھے، جوانی میں تو سرما کے تین مہینے ہر شب حلوہ پکتا اور ٹھیک ٹھا ک پکتا تھا۔ آٹا ہمیشہ دیسی گندم کا پُڑ والی چکی کا کھایا، مل والے آٹے کے بارے میں رائے تھی کہ اس کا ”ست سٹر“ جاتا ہے۔ گھر سے باہر کھانا پسند نہیں تھا، یادداشت پر زور دوں تو مجھے صرف ایک واقعہ یاد آتا ہے، ابا جی، میں اور بھائی جان اللہ دتہ ، ” کوٹ عمر“سے ناشتا کر کے نکلے تھے، کچھ بھاری سامان ساتھ تھا،گائوں سے تانگے پر بیٹھ کر قریبی قصبے” پنن وال“ پہنچے تو ہمارے گائوں جانے والی بس نکل چکی تھی۔چارو نا چار کئی گھنٹے انتظار کے بعد دوسری بس پہنچی تو ہم دن ڈھلے ”کھیوڑہ، شمامہ چوک“ اترے، سامان اتارکر ابا جی نے ہمارے پژمردہ چہرے دیکھے۔۔۔ اس دن ہم جگے کے ایٹمی کباب کھا کر اپنے گھر” ڈنڈوت آر۔ایس“ روانہ ہوئے، ورنہ تو اکثر یہ ہوتا کہ گھر سے باہر ہوتے اور کھانے کا وقت ہو جاتا تو ابا جی ہمیں لیے حلوائی کی دکان پرپہنچتے، گرمیوں میں دودھ کے بڑے پیالے میں پھینیاں اور سردیوں میںجلیبی ڈلوا دیتے اور ساتھ یہ کہنا نہ بھولتے: ”بس پُتر گھر چل کے روٹی کھیندے آں!“
 آج کل کے بچوں کو کیا معلوم کہ والدین کیا ہوتے ہیں؟ خاص کر ابے کیا توپ شےرہے ہیں! اب تو والدین ماں باپ کم اوریار دوست زیادہ ہیں۔ اس نئی نسل کو یہ احساس بھی نہیںکہ والدین کی اتھارٹی کیا ہوتی تھی اور وہ اپنی اتھارٹی قائم کس طرح کرتے تھے۔ ہمارے زمانے کے بیش تر والدین کی سکت سونے کا نوالہ کھلانے کی تو نہ تھی لیکن شیر کی آنکھ سے دیکھنے کا ہنر انھیں خوب آتا تھا۔ابا جی کو اولاد سے پیار ضرور تھا لیکن اس کا اظہار ضروری نہ سمجھتے تھے۔ چوآ سیدن شاہ کی وادی میں سیدن شیرازی کا میلہ لگتا توبڑے دونوں بھائی ماموں زادوں اور پھپھی زادوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلے جاتے، میں اور سہیل رہ جاتے تو ہمارے لیے فیکٹری سے چھٹی کرتے اور سارا دن ہم دونوں کو بیک وقت کندھوں پر بٹھائے میلہ دکھاتے۔ ہاں،گلی محلے میں لڑائی جھگڑے کی صورت میں غلطی نہ ہونے کے باوجود ہمیں گھر سے کبھی حمایت نہ ملی، الٹا ابا جی سے دوچار مزید لگ جاتیں، سو آہستہ آہستہ دنگے فساد سے ہم خود ہی دور ہو گئے۔ پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت تھے، کبھی کسی استاد یا اسکول سے کوئی گلہ ملتا تو ٹھیک ٹھاک ٹھکائی ہو جاتی۔
 ابا جی خود تین جماعتیں پاس تھے، لیکن ہمیں پڑھانے کا انھیں بہت شوق تھا، سو اس شوق کے پیشِ نظر وہ کھیل اور غیر نصابی سرگرمیوں یا کتابوں کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ہمارے ہم جولی جب شام کو گلی کوچوں اور میدانوں میںاودھم مچا رہے ہوتے اس وقت بھی ہم کتاب کے ساتھ بندھے ہوتے۔مہینوں گزر جاتے کبھی اسکول سے چھٹی کی اجازت نہ ملتی، بغیر کسی بڑے مسئلے یا بیماری کے اسکول سے چھٹی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔جب کبھی بخار ہوتا تو تکلیف کے ساتھ ساتھ ایک خوشی یہ بھی ملتی کہ آج اسکول نہیں جائیں گے۔ خیر یہ چھٹی بھی کوئی آسان نہ ہوتی کہ ہم دن بارہ بجے تک بستر سے نکلنے کا خطرہ مول نہ لیتے، ادھر بستر سے نکلے ادھر ابا جی کی آواز آئی:”میرا پُتر ہن ٹھیک اے! چل میں تینوں سکول چھوڑ آواں، میںماسٹر نوں کہہ دیساں کہ سویرے اس دی طبیعت ٹھیک نئیں سی!“ غرض کئی بار دن چڑھے اسکول پہنچے۔
 داخلہ اور خارجہ کی وزارتیں ہمیشہ ان کے پاس رہیں اور خزانہ کا قلم دان اماں کے پاس ۔ اماں اور ابا کے درمیان کوئی ان لکھا سمجھوتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے وزارتی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتے تھے ۔ابا اور اماں کی زندگی پنجابی گھرانوں کی روایتی اتار چڑھائو والی زندگی تھی، ابا بعض اوقات بڑی بڑی باتیں ہضم کر لیتے اور کبھی کسی عام سی بات پر اڑ جاتے، اس صورت میں نتائج کچھ اچھے نہ نکلتے، گھمسان کا رن پڑتا اور لفظی گولہ باری ،زبانی کلامی مہا یدھ تک چلی جاتی۔
  ایک مرتبہ ابا نے خزانہ کا آڈٹ کر تے ہوئے چند غیر ضروری اخرجات کی طرف توجہ دلائی۔( ”تہاڈی تے صرف زبان ہلنی اے“غیر ضروری اخراجات پر ان کایہ جملہ خاندان بھر میںمشہور تھا) اماں پہلے ہی کسی بات پر بھری بیٹھی تھیں، مہینے کا آغاز تھا ، اماں نے حساب کتاب جوڑ کر باقی رقم ان کی ہتھیلی پر رکھی اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ابا بھی کسی لہر میں تھے، انھوں نے بخوشی یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی۔اب یوں ہوتا کہ ابا جی کسی کو بازار بھیجتے، جب وہ واپس آتا، ابا کام پر نکل چکے ہوتے یا بھول جاتے یا گھر سے باہر ہوتے تو بازارسے لوٹنے والا بقایا گول کر جاتا۔ ابھی دو ہفتے ہی گزرے ہوں گے کہ ابا جی کی جیب کھنک گئی، پھر دہائیاں گزر گئیں لیکن انھوں نے بھولے سے بھی خزانہ کے معاملات ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کی۔
 بھائی تو رہا نہیں، تین بہنیں تھیں، جو ہمارے گائوں سے چند میل دورایک ہی گائوں میں بیاہی ہوئی تھیں،فیکٹری ایریا میں اپنے زمانے کا ایک بڑا اسٹور تھا، ہم ضروریات زندگی کی بیش تر اشیا اس اسٹور سے حاصل کرتے، مہینے بھر کا سودا سلف بھی یہیں سے لایا جاتا جس کی کٹوتی تنخواہ سے ہوتی، مہینے کے آغاز پر ابا جی ہمارے ساتھ اسٹور جاتے، سودا سلف کپڑے کی تھیلیوں میں پیک کیا جاتا کہ اس وقت تک شاپنگ بیگ کی وبا اس قدر عام نہیں تھی، اسٹور سے باہر نکل کر اس راشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا، ایک حصہ ہم گھر لے آتے، ایک حصہ لیے ابا جی اپنی بہنوں کے ہاںپیدل نکل جاتے اور دن ڈھلے لوٹتے۔بہنوں کے گھر سے ماسوائے پانی کے کچھ کھانا گناہ سمجھتے، جب کبھی کھانا ناگزیر ہوتا تو اٹھتے ہوئے کچھ روپے بہن یا بھانجھی کےہاتھ پر رکھ دیتے۔ تنخواہ لگی بندھی تھی لیکن ہر تنخواہ میں بہنوں کا نقد حصہ بھی ہوتا ، سال میں ایک مرتبہ بونس ملتا تو پوری برادری میں حصہ بقدرِ رشتہ تقسیم ہوتا۔
 قوم کے گکھڑتھے ، باپ دادا نے مختلف کام کیے لیکن یہ سب چھوڑ چھاڑ کے نوکری کی طرف آ گئے۔ گکھڑوں کی ضد، انااور غیر ت ضرب المثل ہے، جہاں اڑ گئے، کٹ گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے۔ اپنے ددھیال کی انا، غیرت اوربے جا ضد ہمارے ننھیال اور علاقے بھر میں مشہور ہے، ایک روز اسد محمد خان کی کہانی ”قافلے کے ساتھ ساتھ“ نظر سے گزری تو گکھڑوں کی نفسیات، مزاج، انا، ضد، ہٹ، عزت، غیرت اور پیشے کے حوالے سے بہت سی گرہیں کھل گئیں۔
 خاندان کے بڑوں میں شمار تھا،کسی بھی جھگڑے یا جرگے کی صورت میں ان کا فیصلہ حتمی ہوتا، جسے عام طور پر مان لیا جاتا، ہاں اس دوران میں اگر کوئی چوں چراں کرنے کی کوشش کرتا توابا جی کی گالی گولی کاکام کرتی اور مقدمہ فیصل ہو جاتا۔غصے کے بہت تیز تھے، میں نے جب ہوش سنبھالا تو ان کی بعض گالیوں پر تعجب ہوتا کہ ان کا تلفظ روز مرہ سے مختلف تھا، میںاس تلفظ کو ابا جی کا طبع زاد سمجھتا، لیکن بہت بعد میں بلونت سنگھ کاپنجابی رہتل کا شاہ کار ناول ”چک پیراں کا جَسا“ پڑھتے ہوئے پتا چلا کہاابا جی کا تلفظ ہی عین درست تھا۔ غصہ جلالی اور مثالی تھا، ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے غصے سے بچا جائے۔ بیوی بچوں سمیت تمام عزیز و اقارب اور داماد تک غصے کا نشانہ بنتے ، بیوی بچوں میں بیٹیوں کو شمار نہ کیا جائےکہ بیٹیوں کے ساتھ ان کی محبت خصوصی تھی بالخصوص چھٹی بیٹی نویدہ کے ساتھ، کھانے پینے کی کوئی بھی شے لاتے تو سب سے پہلے بیٹیوں کو حصہ دیتے۔ بچوں کے بچوں (بیٹوں) کو بلا تخصیص ”تورو بچیا“ کہہ کر بلاتے۔اکلوتےبھائی نے فیکٹری حادثے میںداعی اجل کو لبیک کہا تو بہت سے لوگوں نے انھیں پہلی اور آخری مرتبہ روتے دیکھا۔ اپنے برادرانِ نسبتی کو برادرانِ یوسف گردانتے اور ان کے ساتھ سلوک بھی اسی قسم کا روا رکھتے تھے۔ ابا جی سے مار ہم بھائیوں نے کم ہی کھائی ہے، اماں کے مقابلے میں تو شاید ایک پچاس کی نسبت ہو لیکن اس کے باوجود کبھی بھی اماں کا ڈر محسوس نہیںہوا اور ابا کا ڈر کبھی ہوانہیں ہوا۔ فیکٹری میں رات کی شفٹ کے بعدلوٹتے تو ناشتا کرتے ہی بڑے کمرے میں سو جاتے پھر ظہر تک کسی کو اس کمرے میں جانے کی اجازت نہ ہوتی، اماں بھی خاص خیال رکھتیں کہ ان کی نیند خراب نہ ہو۔ کسی ایسے ہی دن کا ذکر ہے، ابا جی سوئے ہوئے تھے، میں اور سہیل اماں سے کئی بار تقاضا کر چکے تھے کہ بڑے کمرے میں موجود ہمارے کھلونوں کا ڈبہ ہمیں لا دیا جائے، اماں ہمیں ٹال رہی تھیںاماں کام کرنے کے لیے ادھر ادھر ہوئیں تو ہم چھپتے چھپاتے کمرے میں جا پہنچے، ڈبہ ابا جی کی چارپائی کے نیچے تھا، ہم چارپائی کے نیچے پہنچے تو ابا جی نے کھنگھورا بھر کر کروٹ بدلی، ہم دم سادھے وہیں دبک گئے اور پھر کافی دیر بعد جب ان کے خراٹوںکی آواز گونجنا شروع ہوئی تو ہم لوگ ڈبہ اٹھائے بغیر آہستہ سے باہر سٹک لیے۔
   ناصر کاظمی کو ”پرائیڈ آف پرفارمنس“ عطا کرتے ہوئے صدرِ پاکستان نے ان سے پوچھا:”آپ کی کوئی خواہش؟“ صدر ہائوس میں جاری اس تقریب میں سیکڑوں ملکی اور غیر ملکی مہمان شامل تھے، ناصر کاظمی جو اس وقت ریڈیو پاکستان میں سٹاف آرٹسٹ تھے، ان کی خواہش نے سب کے چہروںپر مسکراہٹیں بکھیر دیں، کہا:”ایک تنخواہ ایڈوانس دے دیں!“ صدرِ پاکستان کی استفہامیہ نظروں کو تاڑتے ہوئے ناصر کاظمی گویا ہوئے:”مہینے کے آغاز میں جو تنخواہ ملتی ہے وہ پچھلے مہینے کا قرض چکانے میں تمام ہو جاتی ہے اور میں پھر سے قرض پر کمر باندھ لیتا ہوں۔ ابا جی کا بھی یہی حال تھا، گوشت، سبزی، کریانہ اور دودھ کا کھاتہ چلتا تھا، تنخواہ لینے کے بعد سب کا حساب چکتا کرکے گھر آتےا ور پھر اگلے دنوں کی ضرب تقسیم شروع کرتے۔
 سردیوں میں دھوپ نکلتے ہی ابا جی کی چارپائی صحن میں لگ جاتی اور گرمیوں میں چھڑکائو کے بعددن ڈھلے پچھمی دیوار کے سائے میں، ہر دو صورتوں میں تازہ حقہ ہمراہ ہوتا۔ماسوا چند آخری ایام کے، ہمیشہ چاک و چوبند اور چلتے پھرتے رہے، گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج کے ساتھ پنج گانہ نماز کا اہتمام زندگی بھر رہا، کبھی کبھار بھاری اور سخت کام جو ہم جوانوں سے نہ ہو پاتا اور وہ دیکھ رہے ہوتے تو فوراً لپکتے۔۔ ۔ جیسے ایک بار ہم چاروں بھائی لکڑی کا ایک سخت جان تنا چیرنے کو شش کر رہے تھے،پے در پے اس میں تمام چھینیاں کھب گئیں لیکن یہ پھٹ نہ سکا ،ہم ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے کہ چار پائی پر نیم دراز ابا جی حقے کا ایک لمبا کش لگا کر اٹھے ،اندر سے کلہاڑا اٹھایا اور آن پہنچے، اس کلہاڑے کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ اس قدر وزنی تھا کہ ہم سے ٹھیک سے اٹھایا بھی نہ جاتا تھا، یہ کلہاڑا ”ٹوان ون“تھا اس کی ایک سائیڈ پر دھار تھی اور دوسری طرف ہتھوڑا نما، ابا جی نے ہتھیلیوں پر تھوک لگا کر انھیں آپس میں رگڑا ، کلہاڑا سر سے بلند کیا اور بھان۔۔۔کےایک ہی نعرے سے تنا پھاڑ دیا،پھر کلہاڑے کی پے در پے ضربوں سے تنے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں چیر دیا۔اس کے بعد چارپائی پربیٹھے، حقے کی نے ہونٹوں میں دبائی اورحقہ گڑ گڑاتے ہوئے ہماری جوانی کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے۔
 ”چھوٹے ایمبیسی“ کا ایک پیکٹ سگریٹ روزانہ ختم کر لیتے، سگریٹ پینے کا ایک خاص اسٹائل تھا، شہادت اور درمیان کی انگلی میں سگریٹ دبا کر مٹھی بند کر لیتے اور پھر بند مٹھی کے اوپر سے سگریٹ کو منہ لگائے بغیرکش لگاتے، گھر میںصرف حقہ پیتے، جس کو تازہ کرنا ہم بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی۔پیتل کی نے ہونٹوں میں دبائے، حقہ گڑگڑاتے اکیلے ہوتے تو یوں لگتا جیسے سوچ بچار میں بھی گم ہیں۔پیچوان کو صاف ستھرا اور لاڈلا رکھتے، گرمیوں میں نیچہ ”چموڑا“ اور سردیوں میں دھاتی ہوتا، چموڑے میں پانی ٹھنڈا اور تروتازہ رہتا لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ اس کا پانی رستا رہتا، سو جہاں بیٹھتے حقے کے پانی سے واٹر پینٹنگز کے ایبسٹریکٹ آرٹ وجود میںآتے رہتے، اماں کا سال ہا سال کا احتجاج رنگ لایا اورآخر آخر صرف دھاتی نیچہ استعمال کرنے لگے۔
 ہمارے دادا جی کا وزن تین من کے قریب تھا، آخر آخر چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے، ابا جی صبح ڈیوٹی سے قبل انھیں کمر پر اٹھا کر ، گائوںکے اکلوتے چائے کے کھوکھے پر جہاں ٹاہلیوں کے نیچے چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں ، لاتے۔ گائوں کے بیش تر بزرگ دن کا کچھ حصہ یہیں گزارتے، ابا جی گھر پر ہوتے تو دوپہر کے وقت انھیں گھر لے آتے ورنہ یہ ڈیوٹی عمرے نائی کی ہوتی۔ہماری دادی، جو اپنے جوان بیٹے کے غم میں رو رو کر اپنی بینائی کھو بیٹھی تھیں،نے اپنی زندگی کے آخری پندرہ سال چارپائی پر گزارے،ابا جی اور اماں نے ان کی ضروریات اور خدمت گزاری کاحق ادا کر دیا، یہ میں نہیں کہتا ایک زمانہ کہتا ہے۔ 
 پیر نواب شاہ صاحب ابا جی کے خاندانی پیر تھے، ان سے بہت عقیدت تھی، کوٹ عمر میں قیام اپنے مکان پر جب کہ طعام پیر صاحب کے ہاں ہوتا۔ سال میں ایک بار پیر صاحب ہمارے ہاں تشریف لاتے، کئی روز ٹھہرتے۔ان کے لیے نیا بستر بچھایا جاتا، نئے برتن نکالے جاتے، کھانے پینے کا خاص اہتمام ہوتا،نائی گھر آ کر ان کا خط اور حجامت بناتا، روزانہ ان کے پائوں دابتے، ان کے سامنے بیٹھنے کی جسارت بھی کم کم کرتے، ہمیں بھی خدمت گزاری کی تلقین کرتے، پیر صاحب رخصت ہوتے تو کپڑے لتے کے ساتھ ساتھ انھیں نقد نذرانہ بھی پیش کرتے۔
  جب تک حیات رہے، ایک لیاری (دودھیل گائے) کِلے پر رہی، ان کی وفات کی بعد ہم نے گائے کو جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چلانا شروع کیا،تو کبھی دن ڈھلے گائے واپس نہ آتی، اور کبھی دن چڑھے تک کِلے پر بندھی رہ جاتی، خیر چار چھے مہینوں میں ہی گائے بیچ دی گئی۔ گائے جس کے ڈھارے کا شہتیر ٹوٹ گیا تھا اور اسے پاکستانی معیشت کی طرح کا دیا گیا سہارا بھی ڈانواں ڈول تھا، چھت کسی بھی وقت گرنے کا اندیشہ تھا، مستری کو بلایا تو اس نے مکمل چھت اٹھا کر دو تین دن کے کام کا تخمینہ لگایا۔ ابا جی ان دنوں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے، ہماری چھٹی والے دن صبح گائے کو جیسے ہی کھولا گیا ابا جی آن پہنچے،شہتیر کے عین نیچے اینٹوں کا ایک تھڑا یوں بنایا کہ جب اس پر کھڑے ہوں تو سر شہتیر سے ٹکرائے، ایک اور شہتیر کا اہتمام کیا گیا، ابا جی نے اپنی پگڑی کھول کر اسے گول گول لپیٹ کر چوٹی پر رکھا، اینٹوں کے تھڑے پر کھڑےہوئے، سرشہتیر کے نیچے جمایا اور ایک جھٹکے سے ڈھارے کا چھت سر پر اٹھا لیا، ہم نے بمشکل تمام اس شہتیر کے ساتھ دوسرا شہتیر لگایا۔ 
 خوشی غمی میں ہر کسی کے ہاں تشریف لے جاتے، چلتے ہوئے سلام کے ساتھ ساتھ قائد اعظم اسٹائل میں ہاتھ بھی اٹھاتے، جب بھی قبرستان سے گزر ہوتا، رات ہو یا دن،سواری پر ہوتے یا پیدل ، ہاتھ اٹھا کر باقاعدہ دعا کرتے، بعض اوقات پبلک ٹرانسپورٹ میں ہوتے تو لوگ حیرت سے انھیں دیکھتے۔دوست گنے چنے تھے، جن کے ساتھ کبھی کبھار بیٹھ جاتے، فارغ اوقات میں راج ولی دکان دار، شبیرنائی اور منظورقصائی کےپاس بیٹھتے۔ غلام ربانی ، اور مصطفیٰ جائے کار کے دوست تھے،بابا احمد خاندانی دوست ، اسلم کھنڈوعہ، رزاق مہاجر اور منظور کمہار گائوں کے دوستوں میں سے تھے۔ زندگی بھر کبھی سائیکل یا موٹر سائیکل پر نہ بیٹھے، کہتے، جس سواری کو خود کھڑا ہونے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو وہ کسی کو کیا سہارا دے گی۔جوانی میں تپ کی شدت سے قوتِ سماعت متاثر ہوئی جو بحال نہ ہو سکی، جو کسر رہ گئی تھی اسے سیمنٹ فیکٹری کے بے پناہ شور نے پورا کر دیا،ہم نے جب ہوش سنبھالا انھیں ثقلِ سماعت میں مبتلا دیکھا۔ بیماری کی صورت میں پنڈ دادن خان کے حکیم غلام رسول سےعلاج کراتےیا فیکٹری کے ڈاکٹر عابد صدیق سے دوا لے آتے لیکن کامل یقین دیسی علاج پر ہی تھا۔ 
 ابا جی کی طبیعت رمضان کے آخری عشرہ میں خراب ہوئی، دوا دارو جاری تھا، ان کی دو بہنیں تیمارداری کر کے چلی گئیں۔ چھوٹی عید گزرے چند دن ہوئے، ابا جی جو کئی روز سے بخار اور بے آرامی میں مبتلا تھے، گذشتہ شب بہت پر سکون سوئے۔ جنوری کی ایک کہر آلود اور انتہائی سرد صبح، سورج ابھی دھند کے دبیز پردوں میں چہرہ چھپائے بیٹھا تھا کہ ان کی چھوٹی بہن اور ہماری ناراض پھوپھی جنھیں ابا جی کئی روزسے یاد کیے جا رہے تھے، اپنے لالہ سے ملنے آ پہنچی۔ اماں اور شازیہ باورچی خانے میں تھیں اور ہم سوتے جاگتے بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے۔یکا یک ہماری پھوپھی کی تیز اور دل دوزآواز فضا میں گونجی:” لالے نوں کیہ ہو گیا اے! لالہ، لالہ ، لالہ“ یہ آوازیں سن کر سب ابا جی کی چارپائی کی طرف بھاگے۔۔۔بھائی جان اللہ دتہ دوڑے دوڑے انور ڈسپنسر کو بلا لائے، جس نے کچھ دیر قبل ان کی روح پرواز ہونے کی اندوہ ناک خبرسنا دی۔۔۔ ابا جی کی چارپائی صحن میں لائی گئی، پاس پڑوس کے لوگ پہنچے، پھر احباب آئے،دن چڑھے تک رشتہ دار بھی پہنچ گئے،لیکن ابا جی کے ہونہار، لاڈلے اور پردیسی بیٹے محمد فاضل سے ابھی تک رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا،ان کے پتے پر شخصی پیغام بھجوایا گیا، عصر کے بعد نماز جنازہ ادا ہوئی، پھرانھیں کندھوں پر لیے احباب، رشتہ دار اور بیٹے قبرستان پہنچے، محمدفاضل کا انتظار شروع ہوا، سورج کوہستان نمک کے سلسلوں کے پیچھے گم ہوا، مغرب کے بعد سناٹا چھانے لگا،عشا کی اذانیں فضا میں گونجیں تو دکھ ، درد اور اکلاپے کے شدید احساس سے دل بھر آیا ۔۔۔ آخر گہر ی ہوتی ہوئی سرد رات میںمحمد فاضل کے بے پناہ انتظار کے بعدآخری سل رکھ دی گئی، قبر نے سر زمین سے باہر نکالا تو یار، رشتہ دار اور سوگوار رخصت ہونے لگے۔۔۔ قبرستان کی تاریک ، یخ بستہ اور خاموش فضا سے اٹھنے والی آخری چاپ پیر نواب شاہ صاحب کے قدموں کی تھی۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !