یہ کہانی ہے ایک خالہ کی۔ جو ہر قیمت پر اپنی سیری برل پالسی ( Cerebral palsy )سے متاثرہ بھانجی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتی تھی۔ مجھ سے رابطہ کرکے انکے گھر آنے کی دعوت دی گئی۔ تمام سفری اخراجات یعنی گاڑی کا رینٹ وغیرہ کے سوا مناسب فیس بھی مجھے اس وزٹ کی فیس ادا کی گئی۔ میرے ساتھ اس سفر میں شریک سفر تھے میرے سابقہ کولیگ اور دوست سر شجر حسین مغل۔ لمبا سفر یعنی دو تین ضلعے کراس کرکے ہم انکے شہر پہنچے۔ اور اس دس سالہ بچی کی تعلیمی اسسمنٹ کی۔ والدین سے اسکی سابقہ زندگی کے متعلق جو ضروری انفارمیشن تھی وہ بھی لے کر نوٹ کی۔
مجھ سے رابطہ کرنے والی اس بچی کی خالہ تھی۔ جو وہیں اس گھر میں موجود تھی۔ جہاں ہم گئے تھے۔ وہ ایک چارٹڈ اکاؤنٹنٹ تھیں اور کینیڈا میں انکی ملازمت تھی۔ شاید کینیڈا کی شہریت بھی انکے پاس تھی۔ وہ گھر ماشا اللہ بہت بڑا اور شاہانہ طرز کا تھا۔ کئی گاڑیاں گھر کھڑی تھیں۔ اور متاثر کن حد تک ہر کمرہ ہر واش روم، کوری ڈور، صحن ، کچن وہیل چئیر کے لیے خصوصی طور پر قابل رسائی بنایا گیا تھا۔ کہ وہ ننھی پری جہاں چاہے اپنی وہیل چئیر لے جا سکے۔ اس بچی کا اسٹڈی روم اسٹیٹ آف دی آرٹ تھا۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکلنالوجی اسکی تعلیم و تربیت کو ممکن بنانے کے لیے وہاں موجود تھی۔ آن لائن سپیچ تھراپی، ایجوکیشنل سپورٹ اور کاؤنسلنگ کے لیے پروفیشنلز اس بچی کے ساتھ ریگولر کام کر رہے تھے۔
اب وہ خالہ اس بچی کے متعلق اگلے پانچ دس سال کا ایجوکیشنل اور Rehabilitation کا گول سیٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ کہ کوئی مقصد طے ہو اور اسکے حصول میں ہماری سب کوششیں فائدہ مند ثابت ہوں۔
بہرحال میں نے واپس آکر ان کو پانچ سالہ منصوبہ دیا۔ کہ اس بیٹی کے ساتھ یہ کام کرنے والے ہیں۔ جس میں اسکی زندگی کے ہر ایسے شعبے کو ٹچ کیا گیا تھا جس پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اور اس منصوبے میں بچی کے ساتھ ملٹی ڈسپلنری ٹیم نے کام کرنا تھا۔ اور لمبے عرصے تک کام کرنا تھا۔ تاکہ تعلیم بنیادی حق اور معاشرے میں مساوی شمولیت کا حق اس بیٹی کو مل سکے۔
اس پلان کو دیکھا گیا اور اسے کچھ اور ماہرین کے ساتھ ڈسکس کرکے کچھ ضروری بدلاؤ کیے گئے۔
مجھے ایک ماہ بعد ایک تحریری آفر لیٹر وٹس ایپ پر وصول ہوا۔ جس میں مجھے اس بچی کا استاد بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز میں پانچ سالہ اگری منٹ تھا۔ مجھے انکے اسی شہر ہی رہنا تھا۔ چاہوں تو اسی گھر رہ سکتا ہوں وہ بہت بڑا گھر تھا۔ مجھے سولہ سو سی سی گاڑی برانڈ نیو کار ملنی تھی۔ جو پانچ سال میرے زیر استعمال رہنی تھی اور اسکے بعد ہمیشہ کے لیے میری ملکیت تھی۔
سالانہ تین ملین پاکستانی روپے مجھے سیلری آفر کی گئی۔ جو میری اس وقت کی سرکاری سالانہ پندرہ لاکھ روپے تنخواہ سے ڈبل تھی۔ جس میں ہر سال دس فیصد اضافہ ہونا تھا۔ پہلے سال تین ملین، دوسرے سال تین اشاریہ تین ملین، تیسرے سال تین اشاریہ چھ ملین، چوتھے سال تین اشاریہ نو ملین اور آخری سال چار اشاریہ دو ملین۔ اس سب کا ٹوٹل اٹھارہ ملین بھی اس میں درج تھا۔ وہ بندی سی اے تھی تو اس نے بہت جامع اور مفصل جاب آفر لیٹر بنایا تھا۔
مجھے ان سب گولز جو اس پلان میں لکھے گیے تھے۔ حاصل کرنے میں لیڈنگ کردار ادا کرنا تھا۔ اور تعلیمی سپورٹ وہ گھر پر ہو یا بچی سکول جائے تو بطور سپیشل ایجوکیشن ٹیچر مجھے اسکے سکول جانا تھا۔ پارک، مارکیٹ، کمیونٹی سنٹر اور عبادت گاہ یعنی بیت الذکر بھی چاہوں تو ساتھ جا سکتا ہوں۔ وہ قادیانی/احمدی فیملی تھی۔ اس بچی کو انڈیپنڈنٹ کرنے میں جو بھی کام در پیش تھے وہ سب مجھے اپنی زیر نگرانی پورے کروانے تھے۔ صبح سے شام تک میری ڈیوٹی تھی اور مجھے ایک فلپینی اسسٹنٹ ملنی تھی جو اسکی آیا یعنی دیکھ بھال کے لیے تھی۔
میں نے اپنے قریبی سرکل میں یہ آپشن شئیر کی۔ سب نے کہا بغیر سوچے اسے قبول کر لو۔ اور کیا چاہیے۔ یہاں ہی تمہارا یورپ بن رہا ہے۔ مگر مجھے لگا کہ صرف ایک بچے کی بحالی پر مجھے خود کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے اپنا آلٹر نیٹ دے کر ایسے اور والدین کو یہ سوچ دینی چاہیے کہ آپ بھی اپنے بچوں پر اپنے وسائل خرچ کریں۔ وہ جو آپ کی استطاعت ہے۔ آپ ماہانہ ایک ہزار لگا سکتے ہیں یا ایک لاکھ اپنی حیثیت کے مطابق سروسز لیں۔ اور ظاہر ہے سپیشل ایجوکیشن کی معیاری سروسز پوری دنیا میں خود سے افورڈ کر پانا بہت مشکل ہے۔ آپ اس بات کا اندازہ ایک مثال سے لگائیں کہ ایک سپیشل بچے کی صرف اسسمنٹ کے چارجز یہاں عمان میں سو ریال ہیں۔ یعنی 74 ہزار پاکستانی روپے۔ اور سپیچ تھراپی کا ایک سیشن بیس ریال۔ یعنی پندرہ ہزار روپے۔ پاکستان میں آپ کو اسسمنٹ کی سروس دس ہزار تک مل جاتی اور سپیچ تھراپی کا سیشن دو سے تین ہزار میں۔
بہرحال میں نے اس وقت اپنے لیے اپنے دل کی سن کر جو فیصلہ کیا تھا۔ وہ الحمدللہ آج پورے پانچ سال بعد بہت اچھا ثابت ہوا۔ میں نے اس بیٹی جیسی کئی بیٹیوں، بیٹوں اور انکے والدین کو تعلیم کی راہ دکھائی۔ ہسپتال سے ان کا منہ موڑ کر سکول کی جانب کیا۔ اور خود کو سرکاری ملازمت کی محدودیت سے بھی آزاد کرنے کے بھی قابل ہو سکا۔ میرے خواب کچھ اور تھے جن کا مجھے تعاقب کرنا تھا۔ اورعمر بڑی تیزی سے گزرتی جا رہی تھی ۔
میں نے آج اس بچی کی خالہ کو فون کیا۔ پہلے بھی اکثر رابطہ ہوتا رہتا ہے۔ وہ بچی نہ صرف اس پانچ سالہ پلان کو اسی فیصد تک کامیابی سے مکمل کر چکی ہے۔ بلکہ اب امریکہ کے ایک بہت شاندار سکول میں زیر تعلیم ہے۔ دو سال قبل وہ امریکہ چلی گئی تھی۔ مجھے دعوت دی گئی کہ چند دن کے لیے آ سکوں تو امریکہ آؤں اور دیکھوں کہ وہ ننھا پودا کیسے تنا آور درخت بن رہا ہے۔
وہ پیاری اور مثالی خالہ۔ جس کا دل خلوص اور محبت سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک بچے کو اسکی عملی زندگی میں کامیاب کرنا چاہتی تھی۔ ایسا بچہ جسے ہمارے معاشرے میں بس ٹھیک کرنا ہی والدین کا فوکس ہوا کرتا ہے۔ وہ خالہ قابل تعریف اور مثالی کردار ہے۔ سلام ہے اس عظیم لڑکی کی ہمت ، سوچ، جذبے اور عزم کو۔ کہ جو اس نے سوچا وہ کر دکھایا۔
والدین اس قابل نہ ہوں۔ ذہنی طور پر ، مالی طور پر، شعوری طور پر۔ تو دیگر رشتے، چچا تایا، چچی تائی، ماموں، ممانیاں، خالو، خالہ، پھپھو وغیرہ کوئی اس قابل ہو۔ جو اپنے خاندان کے سپیشل بچے کو تعلیمی اور عملی زندگی میں کامیاب کرنے کا ذمہ لے سکے۔ تو وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟ ایسی سوچ کا ہونا عنقا کیوں ہے؟ کہ جس نے پیدا کیا اب وہی اسکا جواب دہ ہے۔ جو بھی کرے ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں۔ یا کبھی کبھار چند ہزار کا مالی تعاون۔
پنڈی گھیب میں اور مفتی خلیل الرحمان ایک گھر گیے۔ جس گھر میں دو بھائی برٹل بون کی جینیاتی بیماری سے متاثرہ تھے۔ ان کا والد بھی اسی بیماری کے ساتھ تھا۔ انکی ماں کا ذہنی توازن بگڑ چکا تھا۔ اور ان بچوں کی پھپھو نے اپنے بھائی اور بھتیجوں کو سنبھالنے کی خاطر شادی ہی نہیں کی تھی۔
میرے پندرہ سالہ سابقہ کیرئیر میں نجانے کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ جو عورت ذات کی عظمت، عزم اور قربانی کو بیان کرتی ہیں۔ جو انہوں نے سپیشل بچوں کی ماں، خالہ ، پھپھو، سوتیلی ماں، دادی، نانی، چچی، تائی بن کر ایسے نبھائیں۔ جیسے وہ اس بچے یا بچی کی حقیقی ماں ہوں۔
میری یہ تحریر خاص طور پر اس خالہ کو خراج تحسین ہے۔ جس نے مجھے بھی سوچنے کی ایک نئی جہت عطا کی تھی۔ کہ جہاں کچھ والدین اپنے سپیشل بچے کو بوجھ سمجھتے ہیں، اس پر خرچ نہیں کرنا چاہتے وہیں کچھ ایسے رشتے بھی ہیں جو والدین نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے اور ان بچوں کو “قابل” بنانا اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا لیتے ہیں ۔ ان تمام نیک روحوں کو میرا سلام❤️۔