پہاڑیاں :
کرشن نگر میں ہمارے بچپن سے پہاڑیاں بنتی تھیں مختلف گلیوں میں کچھ بچے کچھ نوجوان اورکہیں کہیں کاریگر بھی اس کا حصہ ہوتےتھے تربیت البنات جو ہماری ابتدائی تعلیم کی مادرِ علمی تھا اس کے سامنے جو تنور تھا انہیں کے بیٹے عبدالمجید نے پہاڑی بنائی تھی ہمارے اسکول کے سامنے ،اس کےعلاوہ بھی چھوٹی بڑی پہاڑیاں بنتی تھیں جنہیں دیکھنے کے لیے لوگ پہنچتے تھے یاد رہے اُس زمانے میں نہ ٹیلی ویثرن تھا نہ ہر کسی کے پاس ریڈیو تھا نہ کوئی اور تفریح تھی سو جسے جہاں کوئی تفریح کا موقع ملتا اس سے لطف اُٹھانے کو تیار رہتا۔ بچوں کو تو اللہ دے یہ مخلوق ہر وقت محلوں گلیوں میں پھرتے رہتے اور کسی شغل کی تلاش کرتے تھے ایک دو بار ہم نے اپنی گلی میں بھی پہاڑی بنائی تب بھی بچے گلیوں میں ایک پلیٹ میں آٹا ڈال کے بارہ فات کا چندہ مانگتے تھے آج بھی مانگتے ہیں ویسے تام چینی کی رکابی میں آٹا ڈالنے کی منطق اپن کی سمجھ میں نہیں آئی شاید کسی زمانے میں لوگ آٹا بھی دیتے ہیں گے چندے میں ۔
ستر کی دہائی کے ابتدائی سال ہوں گے تب ہمارے تایا ذادوں کے ماموں ذاد راشد ماجد جن کے الشہور نام مونی چندا تھے انہوں نے اپنی گلی میں پہاڑی بنانے کی ٹھانی یہ ہماری عقبی گلی تھی ایک راستہ تو گلیوں گلیوں تھا دوسرا ہمارے باورچی خانے سے ہوکے اُن کے درازے تک پہنچتا تھا سب کی چھتیں بھی بلا واسطہ یا بلا واسطہ ملی تھیں پہنچاچنداں مشکل نہ تھاسو دن رات کی مشقت اور نئے نئے تخلیاتی تجربات کو ملا کے ہم نے ایک عمدہ پہاڑی بنائی اس پہاڑی کو لکڑی کے برادے کو رنگ مختلف رنگ کر کے سجایا جاتا تھا جیسے سڑک دکھانےکے لیے کالے رنگ سے رنگا جاتا گھاس دکھانےکے لیے ہرا رنگ ہوتادوسرے رنگ مختلف جگہوں کی عکاسی کرتے تھے اُس زمانے میں کھلونے کم ہی ہوتے تھے زیادہ تَر گھُگھو گھوڑے ہوتے تھے یا پلاسٹک کے سپاہی اور فوجی ہوتے تھے یا کوئی لاڈلا اور امیر گھر کا بچہ اپنی شو شا دکھانے کے لیےاپنا کھلونا لےآتا تھا اور پھر وہیں بیٹھ کے جی جان سے اُس کی حفاظت کرتا تھا ہم کھلونوں حیثیت کے مطابق مختلف جگہوں پہ تعینات کرتے اس منظر کی پوری ڈرائینگ کرنا دلچسپ کام تھاکہیں کھیتی باڑی کا منظر بنایا جاتا کہیں جنگ کا منظر دکھانا مقصود ہوتا کہیں بازار دکھایا جاتا اسی نسبت سے لکڑی کا بُرادہ مختلف رنگوں میں رنگ کے فرش بنایا جاتا یاد رہے اُس زمانے میں گھروں میں وہ لوہے کی انگیٹھیاں استعمال ہوتی تھیںجن میں لکڑی کا برادہ یا بورہ بطور ایندھن استعمال ہوتا تھا یہ سائینسی ارتقا کا زمانہ تھا بعد میں مٹی کے تیل کا چولہا ایجاد ہوا جن کے پھٹنے سے بہوئیں قتل کی جاتی تھیں خیر بات کہیں اور نکل جائے گی۔
ایک آئیڈیا کسی کے ذہن میں آیا کہ پھر کہیں سے ڈھونڈکے آئینہ لایا گیا جو لمبوترا تھا اور جس کا فریم دیمک کھاگئی تھی اسے پہاڑی کے ڈھلوان میں لگایا گیا اس کے اطراف کنارے بند کر دیے گئے نیچےایک حوض بنایا گیا اُوپر پہاڑ ساپتھروں کا بنا کے اُس کے بیچ میں پلاسٹک کاپانی کا پائپ پھنسا دیا گیا پانی جب اُوپر سے گرتا اور آئینے سے منعکس ہو کےجھیل میں گرتا تو خوبصورت لگتا یہ آئیڈیا ایسا مشہور ہوُا کہ دوُر دور سے لوگ دیکھنے آنے لگے بھیڑ لگ گئی اور ہماری سائینس کامیاب ہو گئی ہم سب خوش ہوگئے ۔
یوں تو کرشن نگر میں پہاڑیاں بہت سی بنتی تھیں مگر سب سے بڑی اور آرٹسٹک نیلی بار بینک کے پاس جہاںرشید سینٹر ہے یہاں دکانیں تو تھیں نہیں ایک پرانے گھرکی دیوار سی تھی یہاں نیشنل کالج آف آرٹس کے نوجوان پہاڑی بنایا کرتے تھے جو بجائے زمین کے میزوں جیسی اونچی جگہ بنائی جاتی تھی اس میں بہت کچھ نئی اختراعیں ہوتیں یہ لڑکے سب آرٹسٹ تھے سویہاں سڑکیں اپنی اصل حالت میں ہوتیں چوک ، اشارے سپاہی ، ڑیفک اور بہت سی دوسرے بہت سے منظروںکی عکاسی کی گئی ہوتی یہاں تو بس لوگو ں کو ایک طرف سے رسیوں سے بنے دائرے میںداخل کیا جاتا دوسری طرف سے نکلا جانا ہوتا تھا ان میں سے ایک آٹسٹ راشد جو کرشن نگر کے تھے بعد ازاں مشعل چینل میں ملےکسی پروگرام کی ریکارڈنگ میں وہ پروڈیوسر تھے انہیں بھی وہ وقت یاد آگیا ہمیں بھی پھر خوب باتیں ہوئیں اُس زمانے کی ۔۔ویسے ہم نے ایک بار اباجی سے پوچھا تھا کہ یہ پہاڑیاں کیوں بنائی جاتی ہیں تو اُنہوں نے بتایا تھا کہ جب رسالت مآب کی ولادت ِ ہوئی تب مکہ کے اطرف پہاڑیاں تھیں انہی پہاڑیوں کی شبیہ بنائی جاتی ہے ایسا ہی عیسائی بھی بناتے ہیں مولودِ مسیح پہ درخت بھیڑ ، حضرت مریم کا مجسمہ وغیرہ بنا ہوتا ہے اور اس کے اطرف کچھ ایسا نقشہ سا بناتے ہیں ۔
سجاوٹ ؛ ایک زمانے میں سجاوٹ کے لیے صرف جھنڈیاں ہوتی تھیں یا پھر تین عدد سیڑھیاں آپس میں باندھ کے دروازہ بنایا جاتا جس پہ درختوں کے پتے باندھے جاتے یوں استقبالی دروازہ تیار ہوتا ، گڈی کاٹ کاغذکی جھنڈیاں بنائی جاتی تھیں رنگ برنگی، یہی بازار سے ملتی تھیں مگر اسے سوت یا پٹ سن کی ڈوری سے چپکایا جاتا تھے پھر بڑے بڑے بانس سڑکوں کے کنارے لگائے جاتے رہے ان پہ کسی زمانے میں ساٹھ سے سو پاور کے بلب لٹکائے جاتے تھے پھر جب مرچوں کی ایجاد ہوئی تو یہ برقی قمقمے کم خرچ بھی تھے اور دیدہ زیب بھی ،بانسوں کےساتھ ٹیوب لائٹس بھی لگائی گئیںانہیں مخختلف رنگوں کے کاغذوں سے سجایا گیا بڑی بڑی سرچ لائیٹیں بھی آگئیں اب نئ نئی چیزیں بازار میں آگئ ہیں
خیریہ تو عید میلادالنبی کے حوالے سے ہمارے بچپن کی باتیں یاد آگئیں جنہیں صفحہ پہ اتارنے کی نوبت آہی گئی ۔مگر ستر کی دہائی کے آخری سال ہوںگے جب ہم ایک دن چند اکے گھر بیٹھے تھے توہمیں چندا کے گھر کے سامنے والےلڑکے بلانے آئے ہم دونوں گئے تو اُن کی چھوٹی سی بیٹھک نماڈرائینگ روم میں پانچ سات لڑکے گار ہے تھے ان مین سے دو تو وہی بلی آنکھوں والے بھائی تھے جو آخری اسٹاپ مسجد کے سامنے گلی میں رہتے تھے ایک کو ننھا کہتے تھے ایک گلو تھا ان کا دوست وقار تھا وہ سب آس پاس کی گلیوں کے تھے ہماری ہی عمروں کے تھے ان لڑکوں کے پاس ایک عدد ڈھولکی تھی جسے باؤ بجا رہاتھا یہ باؤ کرشن نگر کے دیانند روڈکےبینڈ والوں کا بیٹا تھا یہ سارے بینڈوالے غریب تھے عام دنوں میں ریڑھیاں لگاتے تھے ملازمت کرتے تھے فنکشن پہ باجا بجاتے تھے ۔
خیر ہم نے اپنی اپنی پسندیدہ قواالیوں کے بول پڑھےکسی کے ریجیکٹ ہو گئے کسی کی کامیاب ہو گئ ان ہی لڑکوں میں عرفان بھی تھا جسے ہار مونیم بجانا آتا تھا یہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا پڑھا لکھا تھا موسیقی کا شوق تھا ہم کبھی ایک قوالی پکڑتے جسے بھی زیاہ بول یاد ہوتے وہی اس کی آئٹم بن جاتا پھر طے ہوُا کہ اپنی اپنی قوالیوں کے بول لکھ کے لاویں تاکہ پریکٹس ہوسکے ہمارے حصے میں عزیز میاں آگئے ۔
یہ عید میلاد النبی سے کچھ دن پہلے کی بات تھی اگلے دن ہم سب پریکٹس کررہے تھے آج جاوید بھی ہمارے ساتھ تھا جس کے ساتھ پرانا تعلق تھا او ر اب تک ہے جاوید کی آواز محمد رفیع سے ملتی تھی اور وہ ۔۔
او دُنیا کے رکھوالے سُن درد بھرےمیرے نالے،،،، خوب گاتا تھاجاوید نےاپنے لیے مہدی حسن کی آواز میں گائے گئے گانے ۔۔
اپنا جیون شیشے کا کھلوناہی تو ہے ۔۔۔جو ان دنوں مقبول و مشہور تھا اسی کی دھن پہ نعت گانے کی خواہش کی سو ہم نے اس پہ نعت لکھ لی ہم اُس زمانے میں شاعری کرتے ضرور تھے مگر سوائے دوستوںکو سُنانے کے اور کوئی زریعہ نہی تھا یہ نعت اور ایک اور گانے پہ بنائی ہوئی نعت مرزا اقبال نے خوب پریکٹس کی جب ہم ساز و آواز سے یہ سب کررہے ہوتے تو اس چھوٹے سی بیٹھک کے باہر لوگ اکٹھے ہو جاتے کرشن نگر اُس زمانے میں ایسا شور شرابے والا علاقہ تھا نہیں گلیاں خاموش اور سڑکیں آہٹوںکی منتظر رہتیں تھیں اکا دُکا گاڑی گزرتی کبھی بس یا کوئی رکشا گز ر گیا موٹر سائکلوں اور کاروں کا یہ سیلاب کاہے کو ہوتا ۔تبھی اس گھر کےساتھ والے شیخ اسحاق صاحب آگئےجن کا گھر متصل ہی تھا کچھ دیر باہر کھڑے دیکھتے رہے پھر اندر آکے انہوں نےکہاکہ ایتھے کیوں بیٹھے اوایہہ تھاں تھوڑی جے ۔میرے گھر آجاؤ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دعوت قبول کرلی اس سے بہتر کیا ہو سکتا تھا ۔
شیخ صاحب کا گھر نیانیا بناتھا دو چار سال ہوئےہوںگے پہلےیہ جگہ خالی تھی یہ دوتین منزلہ گھر اس جگہ تھاجہاں اب بیکری خانہ کی دکان ہے یہاں تہ خانہ بھی تھاشیخ صاحب نمازی تھےاُن کے بیٹے بھی نمازی تھے جبکہ عادل غالباً حافظ تھا ۔
ہم بیٹھے تو چائے بھی آگئی لوازمات کے ساتھ ۔ہمیں جو کمرہ دیا گیا اس میں کارپٹ بچھے تھے صوفے لگے تھے ہم سب پھسکڑا مار کے بیٹھ گئے ، ہمارے ساتھ کورس کی شکل میں بہت سے لڑکے تھے اسی گلی کے سامنے پانڈو اسٹریٹ تھی جہاں آٹھ ربیع الاول کی مناسبت سےسوگ ختم ہوا تھا(یاد رہے ابھی چُپ تعزیہ نکلنا شروع نہیں ہوُا تھا چُپ تعزیہ اس کے بہت عرصہ بعد شروع ہُوا اس پہ پھر بات ہوگی جب فساد ہوُا) اور نو ربیع الاول کے حوالے سے قوالی جاری تھی ادھر ہماری پریکٹس چل رہی تھی وہاں قوالی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی یا قوال بہت سستا والا تھاتبھی وہاں کے شائقین ادھر آگئے یہ تو بتایا تھا کہ زرا سی آواز ہر جگہ پھیل جاتی تھی کھڑکیاں کھلی تھیں ہر طرف کی لہذا باہر مجمع لگ گیا ہماری تو کوئی خاص تیاری نہیں تھی نہ ہم سب نےکبھی پہلے یہ سب کیا تھا مگر ہم سب سُننے والے تو تھے سبھی سو کسی نے غُلام فرید صابری کی قوالی پکڑی کسی نے عزیز میاں کی سماں بند گیا بس ایک بول اُٹھانے کی دیر ہوتی سب شامل ہو جاتے قوالیاں اتنی بار سُنیں تھیں کہ سب کو ازبر تھیں جو زرا سا لفظ ادھر اُدھر کرتا سب گھورتے، ردھم اور ہارمونیم نے کئی عیب چھپا لیے اور ہماری بات بن گئی کھڑکی سے واہ واہ کی آوازیں ہی نہیں آئیں روپے روپے کے نوٹ بھی آنے شروع ہوگئے جنہیں چندا نے آنکھ کے اشارے سے ایک لڑکے کو جمع کرنے کا کہا باؤ کی ڈھولکی بھی تیز ہوگئی چندا کے سُر بھی پکے ہوگئے چندا یوں بھی مستند نعت خوان تھا محفلوں میں کلام پڑھنا آتا تھا گرہیں لگانی آتی تھیں ہمیں کان میں کہتا فلا ں شعر پڑھ ، فلاں شعر پڑھ یوں پڑھ پھر تو ایسا لطف آیا کچھ نہ پوچھیئے لطف بھی سمیت پیسوں کے، جب تک عیدمیلادالنبی کا دن آیا ہم سب پریکٹس کرکے پختہ ہوگئے ۔۔
جس ٹرالی پہ ہمیں بٹھایا گیا یہ سنت نگر باؤ محلے کے کسی مخیرتنظیم کی تھی اس کانام گلشنِ مدینہ وغیر ہ تھا اس میں بڑی محنت سے کسی مسجد کاماڈل بنایا گیا تھا ساتھ ہم لڑکے بیٹھ گئے جس طرف سے یہ ٹرالی گزری ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے چھتوں سے پلاؤ کے پیکٹ اور نان حلیم ، حلوہ کلچہ کے پیکٹ گرنے لگے پیسے بھی گرے رات تک کرشن نگر میں اس ٹرالی کی دھوم مچ گئی اس سال پہلا انعام بھی ہماری ٹرالی نے حاصل کیا۔۔۔
تمام دن اسی ہنگامہ ہائے جلوس میں گزرتا اور شام میں ہم سب دوستوں نے کرشن نگر کی گلیوں سڑکوں میں گھومنا پھرنا بھی ہوتا تھا اب دوستوں کی نوعیت بدل جاتی تھی ان سب کا گانےاور قوالیوں سے کوئی تعلق نہیں ہو تاتھا بس گھومنا پھرنا اور جب کرشن نگر سے جی اُکتا جاناتو سالم تانگہ کروا کے اندرون شہر چلے جانا صاحبو یہ ستر کی دہائی کا لاہور تھا ابتدا لوہاری دروازے سے ہوتی جہاں کی سجاوٹ کرشن نگر کو دعوت دیتی تھی مقابلے کی پھریہاں سے نوگزہ اور ٹیکسالی کبھی دلی گیٹ کی طرف کبھی اور کبھی ٹیکسالی کی طرف ہوتے ،یاد رہے اُس زمانے میں ہیرامنڈی باقاعدہ آباد تھی، کوٹھوں پہ طوائفیں بیٹھی ہوتیں، بالا خانوں کی رونقیں دو چند ہوتیں، انہیں دیکھنے کے لیے مشتاقانِ حُسن گلیوں میں مارے مارے پھر رہے ہوتے اور سب طوائفیں جلوس کو دیکھ رہی ہوتی تھیںناولٹی چوک میں آس پان والے سے کوکا کولا کی بوتل پینی اور پان کھانا بہت بڑی عیاشی ہُوا کرتی تھی اس زمانے کےنوجوانوں کی دوڑ اتنی ہی تھی نہ ابھی لبرٹی بارونق تھا نہ فورٹس اسٹیڈیم اس رات تو مال روڈ بھی سنسان ہوتاتھابس اندرون شہر ہی توجہ کا مرکز تھا بعد میں اس کی تمام رونق پوش علاقے والے لے گئے اور ان کوچوں کو ویران کر گئے۔