"انسانی وجود میں دو شہر آباد ہیں:ایک دل اور دوسرا دماغ۔ دونوں کے مابین مشترکہ حکمت عملی کو کا میابی کہا جا سکتا ہے۔"
(تخلیق کار)
اللہ تعالی نے اس پوری کائنات میں لا تعداد نعمتیں پیدا کی ہیں جن کا شمار انسانی عقل و فہم سے قاصر ہے۔انسانی جسم بذات خود لاتعداد بیچیدگیوں اور نعمتوں کا مجموعہ ہے۔ انسان کا دل اور دماغ انسانی جسم کا اہم ترین اثاثہ ہے۔ اس کے بغیر انسان کا وجود نامکمل اور ادھورا ہے۔ انسان کا دل اور دماغ زندگی جیسی نعمت میں جزو کل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی صحیح اصلاح اور بہترین نشوونما کو اولین ترجیح قرار دیا جاتا ہے۔ انسان کی بہترین اصلاح اور نشوونما کے لیے مواقع تلاش کیے جاتے ہیں اور ان مواقعوں سے بھرپور مستفید ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں ایک بات کا واضح ہونا ضروری ہے کہ جس طرح انسانی دماغ اورذہن کی نشوونما اور اصلاح ضروری ہے اسی طرح دل کی اصلاح کرنا اور اسے متوازن رہنمائی فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
" تمہارے جسم میں خون کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست رہتا ہے تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار! وہ تمہارا دل ہے"
(صحیح بخاری،کتاب الایمان:52)
چنانچہ قلب اور نفس کی متوازن رہنمائی کے لیے تعلیم و تربیت کو اپنایا گیا۔ پروردگار عالم نے خود حضرت آدم علیہ السلام کو علم سکھایا اور پھر اس دنیا میں بھیجا اسی طرح حضرت آدم نے اپنی نسل کو وہ علم سکھایا االلّہ تعالی نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے واسطے اپنی الہامی کتب نازل کیں اور اپنے نیک بندوں کو اس کا علم عطا فرمایا۔
القرآن
"اور ہم نے ہر امت میں سے نبی اور رسول اٹھائے"
(سورۃالنحل:36)
دور حاضر میں اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی ادارے قائم ہیں جہاں انسان کی تعلیم و تربیت اور کردار کی بہترین نشوونما کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ موجودہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام انسان کے کردار اور شخصیت کی تکمیل کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر بچے کا ذہن، صلاحیت اوراس کی لیاقت مختلف ہوتی ہے۔ ایک سمجھدار اور تجربہ کار استاد ہر بچے کو اس کی صلاحیت ہمت اور دلچسپی کی بنا پر قابل بناتا ہے۔ اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ معاشرے میں رہ کر اُس کا مقابلہ کر سکے۔ اسی بدولت معاشرے میں ایک استاد کی اہمیت اور قدر و منزلت سے انکار ممکن نہیں۔ ایک استاد کی حیثیت اور مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں"
(سنن ابنِ ماجہ، کتاب السنن حدیث226)
ایک استاد اپنے شاگرد کی زندگی میں کئی کردار سرانجام دیتا ہے مثلاًا بہترین رہنما، ایک روحانی والد،کبھی ایک بھائی، کہیں ایک مخلص دوست اور کہیں ایک مضبوط سہارا۔ وہ سہارا جو ہر بڑھتے ہوئے قدم کو نئی امید دیتا ہے۔ استاد ہی وہ سہارا وہ تعلق اور ذریعہ ہے جو کسی بچے کی زندگی کو کامیاب اور بامقصد بناتا ہے
"مخلص اور شفیق استاد کی مثال اس شجر کی طرح ہے جس کی ہر ڈال اور ہر شاخ انگنت لذیذ اور میٹھے پھلوں سے لدی ہوئی ہو"
(تخلیق کار)
والدین اپنی اولاد کو تعلیمی اداروں کے سپرد کر کے مطمئن اور پرسکون رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے اور یقین رکھتے ہیں کہ ہر تعلیمی ادارے میں ایسے اساتذہ موجود ہیں جو ان کے بچے کی بہتر تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت اور شخصیت کی نشوونما استاد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر معاشرے کا حال اور مستقبل انحصار کرتا ہے۔ استاد کو یہ اہم ترین فریضہ بطور ایمانت سونپا جاتا ہے۔ ایک بہترین اور مخلص استاد اس ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے نبھاتا ہے اور لاپرواہی سے گریز کرتا ہے۔ ایک قابل اور محنتی استاد یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے پیشے سے بددیانتی کرے
"ہر امانت دار خود اپنی امانت کا محافظ ہوتا ہے"
(تخلیق کار)
ایک طالب علم کو اپنی زندگی میں کامیاب اور ہنر مند بننے کے لیے خوب محنت کرنا پڑتی ہے۔ عظیم کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے عزم، ہمت، حوصلے اور مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسی بنیاد جو کامیابی کے لیے محنت ہمت اور بلند حوصلے کو زندہ رکھے۔ وہ بنیاد ہر طالب علم کو ایک استاد اس کی قابلیت، دلچسپی اور ذہنی شعور کے مطابق فراہم کرتا ہے۔ یہی بنیاد ایک بچے کی کامیابی اور روشن مستقبل کی ضمانت بنتی ہے۔ ایک استاد نہ صرف نصابی سرگرمیوں بلکہ بچے کی ذاتی زندگی ، روزمرہ کے معاملات اور اپنے تجربے کی مدد سے بچے کے دل اور دماغ میں وہ لگن اور خواب دیکھنے کا شوق پیدا کرتا ہے جو جو آئندہ زندگی میں اُسے ایک منفرد اور کامل شخصیت کا حامل بناتا ہے۔
"سنہری خوابوں کو دیکھنے کے لیے نرم و ملائم بستر اور پرسکون نیند کا ہونا بہت ضروری ہے"
(تخلیق کار)
نرم و ملائم بستر اور پرسکون نیند سے مراد وہ تمام سہولیات اور بنیادی معلومات ہیں جو کسی طالب علم کو کامیابی کے سفر میں بطور زاد سفر معاونت دیتی ہیں۔ ایک استاد ہی ہے جو انسان کی زندگی کا سب سے اہم محور ہے جس کے بغیر زندگی ساکن ہو جاتی ہے۔دور حاضر کی ایک اہم اور خوفناک خامی یہ ہے کہ استاد کی عزت مقام اور مرتبے کا گزشتہ معیار اب قائم نہیں رہا۔ دور جدید کے کسی بھی شعبے میں استاد کی قدر و منزلت کی شرح کئی درجے کم ہو چکی ہے۔تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو وہ عزت اور سہولیات میسر نہیں ہیں جن کے وہ حقدار ہیں۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے تعلیمی نظام بے حسی اور دھوکہ دہی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرہ بدحالی اور ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں جب ہم ایک مخلص اور مہربان استاد کے محتاج تھے، جس نے ہمیں وہ بنیاد فراہم کی جس کی بدولت آج ہم کامیاب ہیں۔ ہم نے اپنے ماضی اور پہلے قدم کو فراموش کر دیا ہے
" جو لوگ دوڑنا سیکھ لیتے ہیں، وہ اکثر اپنے قدموں کی اہمیت بھول جاتے ہیں"
(تخلیق کار)
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے معاشرے میں موجود کامیاب لوگوں کی ہے جو کامیاب ہونا اور کامیاب ہی رہنا تو سیکھ چکے ہیں مگر اپنے گزرے کل کو بھول چکے ہیں۔ وہ جگنو جس نے انہیں چمکنا سکھایا، اپنے بل بوتے پر دوڑنا سکھایا، اور اپنے قدموں کو مضبوط رکھنے کی طاقت دی۔ انہیں بھلا دیا گیا ہے۔ بلا شبہ انسان کو کامیاب ہونے کی طاقت اور مقدر اللّہ پاک کی عطا کردہ ہی ہوتا ہے۔ اس کائنات میں کوئی عمل ایسا نہیں جو پروردگار کی رضا سے نہ ہو مگر زندگی جیسی نعمت میں کامیابی حاصل کرنے کا کامل ذریعہ استاد کی محنت اور اس کی مفید رہنمائی ہے۔
" محنتی، پر امید اور بلند ہمت استاد کا ملنا بذات خود نعمت سے کم نہیں"
(تخلیق کار)
اللّہ تعالی کی رضا اس کی رحمت اور فضل و کرم کی بہترین شکل ایک منفرد اور محنتی استاد کا ہونا ہے۔ یہ اُس پاک ذات کی کرم نوازی ہے کہ وہ انسان کو بہترین اور محنت کرنے والے اساتذہ سے نواز دیتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم باری تعالی کی عطا کردہ اس نعمت کی قدر کریں، اس کا احترام کریں، اور اس کے حقوق پورے کریں۔
" استاد کسی شجر نعمت سے کم نہیں۔"
(تخلیق کار)
ایک طالب علم کو خاص طور پر زندگی کے ہر موڑ میں اپنے استاد کا احسان مند رہنا چاہیے۔ جس نے اپنے رب کے فضل و کرم سے اُسے کامیاب بنایا۔ ایک طالب علم کے لیے زندگی میں والدین کے بعد سب سے معتبر رشتہ استاد کا ہے۔ بحیثیت طالب علم استاد کی عزت اور اطاعت فرض عین کی طرح ہے۔ طالب علم کو استاد کی خوشنودی اور اطمینان کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ وہ طالب علم جو اپنے استاد کی عزت کرے اور اسے ہر ممکن آسانی فراہم کرے وہ روحانی طور پر کامیاب ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ اور وجود میں کامیابی اور عاجزی کا جذبہ بیدار رہتا ہے۔ وہ اپنے استاد کی شفقت اور رضا کے حصول کے لیے محنت جاری رکھتا ہے۔
"میں اس کامیابی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں جس کے لیے میرے استاد نے محنت کی۔"
(تخلیق کار)
یہاں ضرورت اس عمل کی ہے کہ اپنے اساتذہ کو ان کا جائز حق دیا جاۓ۔ ان کی عزت کی جاۓ اور معاشرے کی کامیابی کے لیے محنت کی جاۓ۔
"محنت کامیابی کا سایہ ہے۔"
(تخلیق کار)۔