گلگت بلتستان میں مردوں اور لڑکوں کے خلاف جنسی و صنفی تشدد ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے، مگر اس پر بات کم ہی کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد کو زیادہ تر خواتین اور بچیوں کے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پر ہونے والے تشدد کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، اور اگر کوئی اس پر بات کرے بھی تو اسے شرمندگی، مذاق یا طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مرد متاثرین کی خاموشی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سماجی دباؤ، کمزوری کو "عیب" سمجھنے کا نظریہ، اور مردانگی سے جڑے سخت تصورات شامل ہیں۔ ہمارے ہاں مرد کو طاقت، اختیار اور بے خوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس لیے جب کوئی مرد یا لڑکا جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے، تو وہ اسے بیان کرنے سے کتراتا ہے، کیونکہ اسے اپنی "مردانگی" خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔
یہ مسئلہ عموماً ان جگہوں پر زیادہ شدت سے نظر آتا ہے جہاں طاقت کا عدم توازن موجود ہو، جیسے مدارس، جیلیں، سکول، دفاتر، ہاسٹلز، ورکشاپس، ہوٹلز، ڈھابے، ریسٹورنٹس، حتیٰ کہ گھروں اور محلوں میں بھی۔ ان جگہوں پر اکثر بااثر افراد، جنہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا، اپنے اثر و رسوخ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے، جن اداروں کو صنفی تشدد کے خلاف کام کرنے کے لیے فنڈز ملتے ہیں، وہ بھی صرف رسمی تقاریب، ورکشاپس اور فوٹو سیشنز تک محدود رہتے ہیں۔ اصل مسئلے پر نہ تو تحقیق کی جاتی ہے اور نہ ہی پائیدار حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی تنظیمیں اور افراد سامنے آئیں جو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، صرف پروجیکٹس یا شہرت کے لیے نہیں، بلکہ واقعی تبدیلی لانے کے لیے سرگرم ہوں۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں یہ روایات بنی ہوئی ہیں کہ گلی محلوں میں اکثر لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ فلاں شخص لڑکوں کا جنسی استحصال کرتا ہے، اور المیہ یہ ہے کہ وہی شخص کسی سیاسی جماعت یا مذہبی گروپ کا رکن بھی ہوتا ہے۔ گلگت جیسے علاقوں میں جنسی استحصال کے الفاظ طنز و مزاح کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، جیسے یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات ہو۔ ان کے خلاف آج تک کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ کئی کیسز رپورٹ بھی ہوئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ خود کو سوشلسٹ یا حق پرست کہنے والے حلقے بھی اس مسئلے پر خاموش ہیں۔
اس خاموشی کے پیچھے صرف سماجی بے حسی نہیں بلکہ قانونی و پالیسی سطح پر بھی بڑے خلا موجود ہیں۔ پاکستان میں ریپ کی تعریف زیادہ تر خواتین کے خلاف جرم کے طور پر کی گئی ہے، جس کے باعث مرد متاثرین کے لیے قانونی انصاف حاصل کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مخصوص ہیلتھ کیئر، کاؤنسلنگ سروسز یا سپورٹ نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں مردوں اور لڑکوں کے تحفظ کے لیے کوئی جامع پالیسی یا فریم ورک نہیں بنایا گیا، اور نہ ہی ان کے مسائل پر مبنی قابلِ اعتماد ڈیٹا موجود ہے۔
سماجی تربیت، زہریلی مردانگی (toxic masculinity)، اور فحش مواد کے بے جا استعمال نے نوجوانوں کے رویوں کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بچپن سے لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے جذبات نہیں دکھانے، سخت رہنا ہے اور طاقتور بننا ہے۔ یہی نظریہ بالغ ہو کر اس صورت میں سامنے آتا ہے کہ طاقت کا مطلب جنسی تسلط سمجھا جاتا ہے۔ کچھ حلقے مردوں کے ریپ کو "طاقت کا اظہار" یا فخر کی علامت سمجھتے ہیں، جو نہایت خوفناک اور غیر انسانی سوچ ہے۔
جب ہم نے اس موضوع پر کمیونٹی ڈائیلاگز، اساتذہ، اور طلبہ کے ساتھ بات چیت کی تو اندازہ ہوا کہ یہ ایک بڑا مگر دبایا ہوا مسئلہ ہے۔ اس پر بات نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے غیر اہم، شرمناک یا غیر مردانہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے اثرات بھی اتنے ہی شدید اور دیرپا ہوتے ہیں جتنے کسی اور متاثرہ فرد پر۔
جب تک اس مسئلے کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، قانون سازی نہیں کی جاتی، باقاعدہ ڈیٹا نہیں جمع کیا جاتا، اور متاثرین کے لیے سپورٹ سسٹمز، کونسلنگ سینٹرز، اور آگاہی مہمات شروع نہیں کی جاتیں، تب تک یہ خاموش بحران یونہی پھیلتا رہے گا۔ ہمیں اجتماعی طور پر اس خاموشی کو توڑنا ہوگا اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں ہر انسان، چاہے وہ مرد ہو، عورت یا کوئی اور، اپنی کہانی بلا خوف سنا سکے، اور انصاف حاصل کر سکے۔