بنگلا دیش سے نیپال تک ۔۔۔۔ انقلاب یا انتشار
گرامچی کہتے ہیں
“The crisis consists precisely in the fact that the old is dying and the new cannot be born; in this interregnum a great variety of morbid symptoms appear.”
(یعنی: “بحران کی اصل نوعیت یہی ہے کہ پرانا نظام مر رہا ہے اور نیا نظام جنم نہیں لے پا رہا۔ اس درمیانی عرصے میں کئی طرح کی بیمار اور بگڑی ہوئی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔”)
میتھیو آرنلڈ بھی اسی کیفیت کو کچھ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
“Wandering between two worlds, one dead, / The other powerless to be
born”
( “دو دنیاؤں کے بیچ بھٹکتے ہوئے۔۔۔۔۔ایک جو مر چکی ہے اور دوسری جو جنم لینے سے قاصر ہے۔”)
یہ دراصل وہی interregnum ہے جسے گرامشی نے بیان کیا۔
اس Interregnum یعنی درمیانی صورتحال میں جو خلا پیدا ہوتی ہے اس میں فاشزم اور آمرانہ رجحانات کا ابھار، جھوٹے بیانیوں اور پروپیگنڈے کی بھرمار اور سماجی انتشار اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔۔
یہی "interregnum" ہے ۔۔۔۔ایک خلا، جسے اکثر حکمراں طبقے اور میڈیا اکثر عوامی ناکامی یا chaos کہہ کر پیش کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو مایوس کیا جا سکے۔
ہم نے یہ تجربہ جنوبی ایشیا میں بھی دیکھا۔ نیپال میں بادشاہت کے خلاف تحریک، بنگلہ دیش میں عوامی بغاوتیں، سری لنکا میں بغاوت ۔۔۔۔۔ان سب کو elites نے یا تو "ناکام" کہا یا "انتشار" کا نام دے دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسی "خلا" کے لمحات تھے جہاں سے نیا امکان پھوٹتا ہے۔
اروندھتی راۓ اور کیی دوسرے دانشوران دعوی کرتے ہیں کہ یہ chaos محض ناکامی نہیں بلکہ نئی دنیا کے امکانات کا اشارہ ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ طاقتور طبقات کا اصل خوف یہ ہے کہ عوام جب اپنی تخیل کو آزاد کر لیتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ چاہے وہ تحریک مکمل انقلاب نہ بھی لائے، لیکن ایک غیر منظم بغاوت بھی اشرافیہ کی طاقت کو ہلا کر رکھ دیتی دیتی ہے اور انکے ہوش اڑا دیتی ہے ۔
ان کے مطابق خاموشی اور اطاعت حکمراں طبقے کا سب سے بڑا سہارا ہے، جبکہ ادھوری مزاحمت بھی طاقت کے ایوانوں کو لرزا دیتی ہے۔ اور طاقتوں کو ایک خوف میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ elites ایسے لمحات کو انتشار chaos اور عوام کی ناکامی کہہ کر بدنام کرتے ہیں۔
اس "interim" کے خالی پن کو پر کرنا عوام کی ذمہ دارای ہے۔ اگر لوگ اپنی collective imagination اور متبادل نظام کو واضح نہ کر سکیں تو یہی خلا مقتدر اشرافیہ کا کوئی دوسرا گروہ پُر کر لیتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوامی مزاحمت ناکام ہو گئی۔ جیسا Howard Zinn لکھتے ہیں کہ کبھی کبھی بغاوت کی ناکامی بھی طاقتور طبقے کو یاد دلا دیتی ہے کہ ان کی طاقت مکمل نہیں ہے۔
والٹر بینجمن نے بھی کہا تھا کہ انقلاب صرف مستقبل کے لیے نہیں بلکہ ماضی کے مظلوموں کے خون کا حساب لینے کے لیے بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ
The past has a claim … which cannot be settled quickly."
( ماضی کا ایک حق ہے جو جلد ختم یا طے نہیں ہو سکتا۔)
مزید برآں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بعض اوقات حالات ایسے ہوتے ہیں جہاں سب کچھ بدلنے کی طاقت نہ بھی ہو، تب بھی سچائی اور وفاداری پر ڈٹے رہنا ہی سب سے بڑی مزاحمت اور امید کی علامت ہوتا ہے۔
عوام اگر اپنی collective imagination اور سچائی پر قائم رہیں تو یہی ان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
جیسا کہ انجیلِ یوحنا (12:24) میں کہا گیا ہے:
“اگر گیہوں کا ایک دانہ زمین میں گر کر نہ مرے تو وہ اکیلا رہتا ہے؛ لیکن اگر وہ مر جائے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔”
یعنی بظاہر فنا اور شکست ہی دراصل نئی زندگی اور اجتماعی ثمر کا آغاز بنتی ہے۔
لہٰذا، یہ chaos دراصل "بیمار علامت" ہی نہیں بلکہ نئی دنیا کے بیج کا مرحلہ بھی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں "optimism of the will" یعنی ارادے کی امید ضرورت جنم لیتی ہے۔
لہذا chaos اور interregnum کو اشرافیہ کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے عوامی جدوجہد کے تناظر سے دیکھنا چاہیے۔
یہ "ناکامی" نہیں، بلکہ وہ وقت ہے جہاں نئے امکانات جنم لیتے ہیں۔ اور یہی امکانات ruling class کے لیے سب سے بڑا خوف، اور عوام کے لیے سب سے بڑی امید ہیں۔
اس درمیانی خلا کو کامیابی سے بھرنے کے لئے اروندھتی راۓ کہتی ہیں:
"ایک ایسی دنیا کو دوبارہ تخیل کرنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کا صفایا روکیں جو دنیا کو مختلف انداز میں دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔"
یعنی بہتر دنیا دیکھنے والے ویژن اور لوگوں کی حفاظت کریں اور انکی طاقت بنیں ۔
اور پاؤلو فریرے کے نزدیک عوام میں تنقیدی شعور (Critical Consciousness) پیدا ہونا سب سے پہلا قدم ہے تاکہ عوام یہ سمجھ سکیں کہ ان پر جبر کن طریقوں سے مسلط کیا جا رہا ہے۔ صرف تعلیم یا معلومات کافی نہیں، بلکہ عوام میں یہ صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے کہ وہ طاقت کے ڈھانچوں کو پہچان سکیں اور ان کے خلاف اجتماعی عمل منظم کریں۔
یعنی مکمل طور پر کامیاب اور پائیدار انقلاب تب ہی ممکن ہے جب یہ عوام کے شعور اور خوابوں پر مبنی ہو، نہ کہ کسی اشرافیہ کی منصوبہ بندی پر۔