یہ لگ بھگ ایک سال چار ماہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے فیسبک کی ایک پوسٹ سے پتہ چلا کہ راؤ آفتاب عارض کا شعری مجموعہ " ربط" کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے ۔ اس پوسٹ میں موجود انتخاب نے خاصہ متاثر کیا ۔ اس سے پہلے موصوف کی پوسٹوں اور وال پر آویزاں کی گئی مشاعرے کی ویڈیوز سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ دل میں خیال آیا کہ موصوف سے نہ صرف ربط کے حصول کے لیے رابطہ کیا جائے بلکہ اپنی کتب بھی ان کو دی جائیں ۔ سو اس سبب سے راؤ آفتاب سے رابطہ ہوا۔ کتابیں بھیجیں اور ان کی " ربط " منگوائی۔ کتاب کو پچھلے مہینے باقاعدہ پڑھنا شروع کیا ۔
" ربط " کے مطالعہ سے سب سے پہلی بات یہ علم میں آئی کہ یہ کتاب محض دوستوں کی فرمائش ، اپنے تئیں غالب ہونے کی خام خیالی یا خود نمائی کے سلسلے میں مصنہ ء شہود پر نہیں لائی گئی بلکہ اس کی بنیادی وجہ میں شعری ریاضت اور بامعنی مواد کا اس تعداد تک ہو جانا کارفرما ہے جہاں اسے کتاب کر دینا ضروری ہوتا ہے ، اس کتاب کے مطالعے سے فارسی عربی ہندی کے علاوہ انگریزی الفاظ کو شعر میں برتنے کا عمل مستحسن لگا اور ایسا بالکل نہیں لگا کہ کسی لفظ کو شعر میں گھسیڑنے کے لیے شعر کہا جا رہا ہے بلکہ شعر میں اس لفظ کی آمیخت اس بات کی شاہد نظر آئی کہ وہ لفظ وہاں زبان و مضمون کی ترسیل میں ضروری ہے۔
"ربط" کے اشعار فلسفیاتی ، الوہیت آمیز ، کونٹینٹ میں زرخیز ، تجرباتی ، سماجی تہ داریوں سے آگاہ ، فکری اور شعوری امکانات سے مملو ، زندگی کے مختلف شیڈز سے لبالب اور پیشکش و بنت میں چمکدار محسوس ہوئے۔ غزل در غزل راؤ آفتاب عارض نے اس کتاب کے ذریعے اپنے شعور ، بالیدگی ، احساسات ، نظریات ، حجابات ، ذات کے پوشیدہ مناظر ، ان کہی نفسیات اور باطنی رجحانات سے پردے اٹھائے ہیں ۔ اس مجموعے میں موجود شعری منظر نامہ قدیم سے درآمد شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جدید حسیات کا مؤثر عکاس بھی ہے ۔ اشعار اپنے پورے وجودی اعتبار سے مکالمہ انگیز پہلوؤں سے آگاہ نظر آئے ۔ بیشتر جگہوں پر ایک ایک مصرع اپنی جگہ پورے شعر کی فضا بناتا ہوا بھی ملا۔
یوں تو " ربط " کے مطالعہ سے راؤ آفتاب عارض کی کئی شعر جہات سے بغلگیر ہونے کا بھرپور موقع ملا مگر جمالیاتی حس جو راؤ آفتاب عارض کو نصیب ہے اس پہ رشک آتا ہے ۔ اس پہ اس کی دیدہ دلیری کو بھی داد نہ دی جائے تو زیادتی ہو گی جس کے زیرِ اثر اس نے شعر میں ایسے ایسے زاویے محفوظ کیے کہ جن پہ گفتگو کرنے کے لیے ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ ہم پر سطحیت کی چھاپ نہ لگ جائے ۔ راؤ آفتاب عارض کا شعری کمال یہ ہے کہ اس نے جمالیاتی آنکھ کو اس باریک زاویے پہ سیٹ کر رکھا ہے جہاں ارفعیت اور سطحیت منقسم ہو کر الگ الگ پہچان بناتی ہیں ۔ اس رویے پہ اس نوجوان کی شعری جرأت کو سلام پیش کرتا ہوں
راؤ آفتاب عارض سے تین یا چار بار فون کال پہ بات ہوئی ہو گی جس سے اس بات کا علم ہوا کہ یہ شاعر مشورہ قبولنے سے ہچکچاتا نہیں ۔ اپنے شعری منظر نامے پر بے لاگ گفتگو کو خندہ پیشانی سے سنتا بھی ہے اور سراہتا بھی ہے ۔ اسی رویے سے قائل ہو کر ایک دو نکات ایسے بیان کر رہا ہوں جہاں راؤ آفتاب عارض کو آئندہ مجموعے تک آنے کے لیے کام کرنا ہے
" ربط کا مطالعہ کرتے کہیں کہیں اس احساس نے شدت پکڑی کہ قوافی محض شعر کے مضمون کے لیے زبردستی اختیار کیے گیے ہیں ان کی آمیخت سراسر خود ساختہ ہے ۔ یہ کام غزلیات میں زیادہ تو نہیں مگر ہے ضرور۔۔۔۔ گو کہ نئی بات کہنے کے لیے کئی بار اس بات کی نئی کیفیت سے نامانوسیت بھی اس عمل کی طرف لے جاتی ہے جس سے چیزیں اس سبھاؤ اور ترتیب سے نہیں ایگزیکیوٹ ہو پاتی اسے مسلسل مشق اور دھیان سے ایک رس دار تشکیل میں لایا جا سکتا ہے۔
اس کتاب میں شامل نظمیں ابھی نو آموز نظم کا میڑیل لگیں ۔ یکسانیت اور مضامین میں تنوع کا نہ ہونا اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ نثری نظم کا موجودہ منظر نامہ اس بات کا عینی شاید ہے کہ نظم جن جن اشیاء کو برداشت نہیں کرتی ان کو ہر لحاظ سے نظم سے حذف کیا جانا ہی اس کی بقا ہے نیز موضوعاتی اعتبار سے بھی نظم بہت آگے جا چکی ہے"
امید ہے اس مشاورت کو ذہن و دل میں جگہ دی جائے گی۔
اس مجموعہ میں ون کلک پر جھماکہ کرنے والے اشعار سے لے کر ذاتی یافت سے پہروں مکالمہ کر کے کھلنے والے اشعار تک ہر طرح و کیفیت کے رنگ اپنی خصوصی تزئین کے ساتھ موجود ہیں ۔ آپ اگر ادب کے سنجیدہ قاری ہیں اور غزل کی نئی روش کے بھی قائل ہیں تو یہ مجموعہ آپ کے لیے بطورِ خاص ہے ۔ امید ہے کہ میرے کہے کو چاجنے کے لیے ہی سہی آپ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ یوں تو بہت کچھ اس شعری مجموعے پر کہا جا سکتا ہے اور کہ بھی سکتا ہوں مگر انتخاب اور آپ قارئین کے درمیان زیادہ مخل نہیں ہونا چاہتا ۔ اس کتاب سے چند شعری نمونے پیشِ خدمت ہیں ۔
مجمع ادب سے بیٹھ گیا میں نے جب کہا
جس کو علیؑ کے در سے ملی بھیک بیٹھ جائے
۔۔۔۔۔۔۔
کون نعم البدل حسینؑ کا ہے
یہ بھی معنی من الحسینؑ کا ہے
۔۔۔۔
دریا کی تصویر میں بھی طغیانی ہے
اس دیوار کے اندر کتنا پانی ہے
یوں بھی کون سا تیرا پہلا دکھ ہوں میں
میری کونسی پہلی نقل مکانی ہے
۔۔۔۔۔
یہ اس پہ ہے برہنہ ملے یا لباس میں
میں نے تو ایک خواب کی تجسیم کرنی ہے
۔۔۔۔
وہ ہے پختہ عمر کی عورت بھلا دے گی تجھے
دوستا پکی سڑک پر نقشِ پا بنتا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی مقام مرے ملک میں غریب کا ہے
کہ جیسے بچہ کسی فاحشہ کے میں پیٹ میں ہے
۔۔۔۔۔
اک سماعت چاہیے اس وقت بھی عارض ہمیں
جب ہماری بات کا مطلب کوئی بنتا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
زندگی تم سے پہلی ملاقات بھی نذرِ عجلت ہوئی
وقت ملتا کبھی تو تمھیں چومتا وحشیوں کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔
رگِ جاں سے قریب آیا ہے کوئی
خدا سے بڑھ گئی دوری ہماری
۔۔۔۔۔۔
حسیں اتنی ہے وہ ملحد کہ ذاتِ کبریا پر
بہت سے لوگ اس کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
جو بات ماں سے چھپائی خدا سے کیسے کروں
دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں اور سوچتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس اداسی ہے رنج ہے دکھ ہے
ہمارے پاس مگر کچھ نہیں ہے دینے کو
۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر نہیں بدلا کبھی نمبر نہیں بدلا کبھی
عمر بھر روشن رکھے ہم نے منڈیروں پر دیے
کچھ تو پہلے ہی یہاں ہے نفرتوں کا کاروبار
اس پہ ان لوگوں نے عارض پھول مہنگے کر دیے
۔۔۔۔۔۔۔
ہوا نے اس کا دوپٹہ اڑایا اور مجھ پر
اک اور کھڑکی کھلی اس بدن میں حیرت کی
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی نہ جان سکا اس بدن کے نقش و نگار
مگر یہ قلعہ مری جستجو نے فتح کیا
۔۔۔۔۔۔
اور بھی کم کیجیے تخلیق کے معیار کو
اپنے قاری کے لیے آسان ہوتے جائیے
۔۔۔۔۔
پھر اس نے اپنی تصاویر بھیج دیں مجھ کو
گمان ہونے لگا تھا کہ ساحرہ نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
اس عورت کو دیکھ کے مجھ کو یاد خدا کی آئی
گھاس کی گٹھری سر پر تھی اور بھاری بھرکم سینہ
۔۔۔۔۔۔۔
سو کرنی پڑ رہی ہے خود کلامی
کوئی سنتا نہ تھا بک بک ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہک گیا ہوں تو ہئیت بدل گیا برتن
پیالہ لگنے لگی ہے کسی کی ناف مجھے
۔۔۔۔۔۔۔
اپنی جانب کھینچ رہے ہیں مجھ ایسے درویش کو بھی
اتنی پراسرار کشش ہے عورت اور سرمائے میں
۔۔۔۔۔۔۔
میں کہ رہا ہوں کسی اور کی زمیں میں غزل
وہ میرا عشق تو ہے ملکیت نہیں ہے مری
۔۔۔۔۔۔
اس نے اک بار گرایا تھا نظر سے عارض
پھر بلندی سے مرا خوف و خطر ختم ہوا
۔۔۔۔۔۔
چند ایک مصارع حاضرِ خدمت ہیں جن کو میری دانست میں مکمل شعر سے بھی برتری حاصل ہے
ع۔۔۔۔
ایمان لا چکا ہوں میں تیرے وجود پر
ع۔۔۔۔۔
ضروری کچھ نہیں سب کچھ ضرورت سے جڑا ہے
ع۔۔۔۔۔۔
اس نے میرے عمر بھر کے مسئلے حل کر دیے
راؤ آفتاب عارض جہاں سخن سے نہایت مخلص انسلاک برقرار رکھے ہوئے ہے وہیں شعری بصیرت سے بھی مالا مال ہے ۔ میں خندہ پیشانی اور کھلے بازؤوں سے " ربط " کو جہانِ سخن میں خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اور راؤ آفتاب عارض کے لیے دعا گو ہوں کہ اس دریچے سے ہم ایسے کم نگاہوں کو تازہ روشنی اور ان دکھے مناظر کی ترسیل ہوتی رہے۔