میرے استاد افتخار حیدر مجھے عموماً کوئی مصرعہ دے دیتے اور میں اس پہ غزلیں کہتی۔ ایک دن انہوں نے مصرعہ دیا جو یوں تھا ''دل سے آتی ہے اک صدا اے دوست'' تو میں نے کہا اس پہ تو ڈیڑھ دو سو اشعار کی غزل ہو جائے گی۔ انہوں نے صرف اتنا کہا ''پانچ سو'' میں نے دل میں ٹھان لی کہ انہیں پانچ سو اشعار بھیج دوں گی اس غزل کے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ جب پانچ سو کی بجائے گیارہ سو اشعار مکمل ہو گئے، فیس بک اور واٹس ایپ کی بدولت پتہ چلا کہ انڈیا میں میرے بھائی خورشید اکبر 1402 اشعار پہ مشتمل غزل کہہ چکے ہیں تو انڈیا سے قاسمی بھائی نے مجھے ان کی کتاب پوسٹ کی اور میری غزل قریباً 2400 اشعار تک پہنچ گئی جو انشاء اللہ بہت جلد چھپ جائے گی۔ خورشید اکبر کی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ چہرہ سوال ہے کوئی معمولی کتاب نہیں ہے۔ یہ شاید اردو ادب کی بہترین کتاب ہے اور یہ غزل اردو کی بہترین غزل، اس پوری کتاب میں ایسے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کی گئی ہیں کہ عقل حیران و پریشان کھڑی نظر آتی ہے۔ خورشیدا کبر کے ہزاروں خیالات جنہیں انہوں نے غزل میں پرویا ہر شعر اپنی ذات میں ایک کل کائنات ہے جسے سمجھنے کیلئے عقل و خرد کے سمندر میں بہت سے غوطے لگانے پڑتے ہیں۔تیراکی سیکھنی پڑتی ہے۔ جس طرح آج کا انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت کائنات سمندر کی تہوں اور آسمانوں کے اوپر موجود دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ابھی بھی اسے شاید کروڑوں سال کا سفر درکار ہے خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو سمجھنے کیلئے، خدا تک پہنچانے کیلئے اور اس کائنات کے راز پانے کیلئے۔ اسی طرح چہرہ سوال ہے کتاب اپنے اندر ایک کل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک شعر، ایک کہکشاں ہے جسے سمجھنے کیلئے اردو لغت کو بار بار دیکھنا پڑتا ہے۔ گوگل پہ ان الفاظ اور تراکیب کے معنی ڈھونڈنے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی پیاس بجھ نہیں پاتی کہ ان الفاظ کے معنی پہ گوگل بھی خاموش ہے اور اردو فارسی ہندی لغت بھی زیادہ کام نہیں آتی۔ عام طور پر جب شاعری کی کوئی کتاب مجھے ملتی ہے تو چند گھنٹوں میں پوری کتاب پڑھ کے اس پہ تبصرہ کر دیتی ہوں لیکن اس کتاب کو پڑھنے میں مجھے مہینے لگ گئے اور میں حیران تھی کہ اردو ادب کا اتنا بڑا شاعر انڈیا کی سرزمین پہ پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اور اس سورج کی روشنی سے میں آج تک محروم رہی۔ ہندوستان کی زرخیز زمین، اس درخت پہ ہزاروں ادبی پھل اُگتے ہوئے دیکھ رہی ہے اور پوری دنیا اس کتاب ، اس درخت، اس سورج سے جتنا زیادہ استفادہ حاصل کر سکے وہ کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرزا غالب ہندوستان کی زمین پہ دوبارہ جنم لے چکے ہیں اور ان کا تخلیق کردہ ادب اپنے منہ سے بول رہا ہے کہ اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ چہرہ سوال ہے، یہ کتاب نہیں ہے،یہ ادب کا صحیفہ ہے۔
یہ اردو ادب کا دیوان نہیں، یہ گیتا ہے، بائبل ہے، قرآن ہے، اردو ادب سے محبت کرنے والوں کیلئے یہ وہ صحیفہ ہے جو کسی پیغمبر پر نہیں اترا بلکہ خورشید اکبر پہ اترا ہے اور رہتی دنیا تک اردو ادب کے چاہنے والے اس کتاب سے استفادہ حاصل کریں گے۔اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ خورشید اکبر صرف نام ہی کے خورشید یا اکبر نہیں ہیں بلکہ اردو ادب کے بڑے سورج ہیں جس کے تخلیق کردہ ادب کی کرنیں دور بیٹھے شعرا کرام کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں اور میرے جیسی شاعرات اس کتاب کو سمجھنے کی، دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس کی تاب نہیں لا پاتیں۔ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور عقل حیران ہو جاتی ہے۔ دل اس سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور انگلیوں کی پوریں ایک ایک لفظ کو چھو کے اپنے اندر ایک ساز بجتا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ یہ کتاب نہیں بلکہ علم و ادب کا ایک خزانہ ہے۔ یہ محبت، عاشقی معشوقی کی منازل طے کر کے معرفت اور عشق الٰہی کی طرف قدم بڑھاتا ہوا ایک نگینہ ہے جو کسی شاہزادی، کسی ملکہ کے ہاتھ کی انگلی کی انگوٹھی یا سر کے تاج پہ پیوست کیے جانے کا مکمل حقدار ہے۔ ہندوستان کی زمین نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ہندوستان سے اردو کبھی ختم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک زبان، ایک پیار و محبت، عشق و مستی میں ڈوبی ہوئی شاعری و نثر کی صورت میں ہمیشہ اس زمین پہ پیار، محبت، عشق مجازی، عشق حقیقی کے بیج بوتی رہے گی۔ ہندوستان کی ادبی فضا مالی بن کے اس پودے کی آبیاری کرے گی اور اردو کا پودا ایک تناور درخت بن کے ہمیشہ اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کو پھل بھی دے گا اور سایہ بھی۔ اس کتاب میں سے چند اشعار منتخب کرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر شعر ایک انتخاب ہے، ایک مکمل داستان ہے لہٰذا اس کتاب کو پڑھ کے جو لطف آپ لے سکتے ہیں میں اس لطف کو دو آتشہ ہی کر سکتی ہوں کیونکہ میں خود اس کتاب کے عشق میںڈوبی ہوئی ہوں۔ علم و دانش کے موتی بکھیرنے والی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں اور خورشید اکبر کی زندگی کو ، اردو ادب کے دیوانوں کیلئے مشعل راہ کے طور پہ استعمال کریں۔ ہندوستان اپنے غالب اکبر کی جتنی قدر کرے اتنی کم ہے کہ خورشید اکبر ان کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک عنایت ہے،ایک مہربانی ہے جو خدا دنیا کی ہر زمین، ہر سلطنت کو نہیں دیتا بلکہ خاص خاص لوگ ہی اس نعمت کے لیے چنے جاتے ہیں اور ہندوستانی اردو ادب کے اس صوفی کی ہمیشہ احسان مند رہے گی اور رہنا بھی چاہئے کہ یہ وہ قرض ہے جو ہر مٹی ادا نہیں کر سکتی اور نہ کر پائے گی۔