غالبا سنہء 1971 کے وقت سے کراچی میں ایک بیکری ہوتی تھی، جس کے کیک رس بہت بکتے تھے، بکتا تو سارا ہی سامان تھا، اس وقت دو تین طرح کی پیسٹریاں ہوتی تھیں، جن پر لال رنگ لگا ہوا ہوتا تھا، بچے بس وہی شوق سے کھاتے تھے، خیر اس بیکری سے ایک دفعہ کوئی ڈبل روٹی لے گیا، گھر جا کر اس نے جب ڈبل روٹی کھائی تو اسے پتہ لگا اتنی کڑوی ڈبل روٹی، اس وقت ڈبل روٹی بڑی سستی ملتی تھی وہ چاہتا تو رہنے دیتا، لیکن اس نے اپنی ذمہ داری سمجھی، دیکھیں دنیا میں سب سے ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھنا، ہمارے زوال کی ایک سب سے بڑی وجہ ذمہ داری نہ سمجھنا بھی ہے، خیر وہ بیکری والے کے پاس پہنچ گیا، اسے جا کر شکایت کی گئی ہے اتنی کڑوی کیوں ہے؟ بیکری والے نے اسے دیکھا، اور ایک دم چنگھاڑتی ہے آواز میں اپنے ملازم کو بلایا، اوئے طیفے ، اینوں اے جیل آلی ڈبل روٹی دے دیتی جے۔ ملازم نے معذرت کی اور، فورا سے دوسری ڈبل روٹی دے دی۔
اس آدمی نے سوچا کہ یہ جیل والی ڈبل روٹی کیا ہوتی ہے، تب پتہ چلا کہ جیل کے لیے جو ڈبل روٹی بنتی ہے اس میں دودھ کی مقدار انڈوں کی مقدار اور چینی کی مقدار کم ڈالی جاتی ہے، اور سالانہ ٹھیکہ ملتا ہے وہ بہت کم لاگت کی ڈبل روٹی تیار کرتے ہیں، وہ ڈبل روٹی جیل میں قیدیوں کے لئے ہوتی ہے۔ اس آدمی نے یہ سب باتیں بیکری والے سے سنی یہ باتیں بتاتے ہوئے بیکری والا ہانپنے لگا، اس آدمی نے پوچھا کہ آپ ہانپ کیوں رہے ہیں، تب بیکری والے نے جواب دیا، مجھے چند سالوں سے دمہ کے مسائل تھے، پہلے میں ڈاکٹر کی دوا لیتا تھا پھر کچھ کمبختوں نے مجھے حکیموں اور عجیب و غریب ٹوٹکے والوں کا بتا دیا، جب سے ان کی دوائیاں لے رہا ہوں میری حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے، ویسے تو فیسبک پر ایک صاحب کی پوسٹ دیکھی ماشاء اللہ شرعی حلیہ اور حکیم صاحب ہیں، ان کے کافی فالورز بھی ہیں، ان کی وال دیکھ کر کے اندازہ ہوا کہ وہ گھر میں کینسر کی دوائیاں بنا رہے ہیں، اور کینسر ریسرچ بھی کر رہے ہیں، اپنے گھر کے آس پاس کی مختلف جھاڑ جھنکار جمع کر کے لے آتے ہیں، اور انہیں پیس کر مختلف سفوف اور محلول بنا لیتے ہیں، اور مختلف اقسام کے کینسر کے مریضوں کو کھلا اور پلا دیتے ہیں، ان نسخوں کی اچھی رقم بھی لیتے ہیں، باقی یہ ہے کہ چونکہ وہ ریسرچ میں ٹرائل کر رہے ہیں، ویسے بھی وہ مریض بیچارے اتنے غریب ہوتے (مالی طور پر بھی اور اعتقادی طور پر بھی) ہیں، وہ درست علاج کروانے کے بجائے ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، حالانکہ یہ بھی بیس ،پچیس ہزار کا ایک نسخہ بیچ رہے ہیں، کینسر کے مریضوں کو دوائیاں دے رہے ہیں، جن دوائیوں کو انہیں خود بھی نہیں پتہ۔ کیسی حیرت ہے، اور علماء کرام کی کثیر تعداد وہاں پر ان کی مدح کرتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ یہ لوگ کینسر جیسے موذی مرض کا خود ہی جمع کرکے گھاس پھوس اور جڑی بوٹیاں سے علاج کر رہے ہیں، اور عوام اس پر یقین بھی کر رہی ہے۔
خیر بات ہورہی تھی، بیکری والے کی، بیکری والا مسلسل کھانس کھانس کے اور ہانپ ہانپ کر یہ باتیں بتا رہا تھا، وہ کہنے لگا کہ دن میں دو یا تین بار مجھے کپڑے بدلنے پڑتے ہیں کیونکہ جب میں کھانستا رہتا ہوں تو میرے کپڑوں پر بھی چھینٹے پڑتے ہیں اور کپڑے بھی خراب ہو جاتے ہیں، میں دن میں تین بار جا کر گھر میں کپڑے بدلتا ہوں، میری اہلیہ ہمیشہ میرے لئے Bonanza سے کپڑے خریدتی ہے، آج کی جنریشن میں سے جو شاید بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ Bonanza کسی زمانے میں برانڈ ہوتا تھا, اس کے چند ہی معروف آؤٹ لیٹس تھے، جن میں ایک طارق روڈ پر تھا، طارق روڈ کراچی کا ایک بہت جگمگاتا علاقہ اور معروف ترین مرکزی شاپنگ سینٹر کہلاتا تھا، لیکن کچھ عرصے سے وہاں پر کچھ خاص قسم کے طبقات آگئے ہیں اور پورے طارق روڈ کا ماحول بہت خراب ہو چکا ہے۔ گلیاں اور بازار کی حالت کسی زمانے میں جیسے بہت بہترین ہوتی تھی اب ایسی نہیں رہی،
یہ حال تو اب پورے کراچی کا ہی ہوگیا ہے، ایسے حالات تو کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، لوگ سوچتے کچھ ہیں اور ہو کچھ جاتا ہے، اب تو کراچی کا یہ حال ہے کہ کسی سگنل پر چار پولیس والے دو رینجرز کی گاڑیاں دو پولیس کی گشتی موبائل کھڑی ہوں، ٹریفک سارجنٹ بھی کھڑا ہو، پھر بھی لوگ اشارہ توڑ رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہیں، غریب لوگ تو دعائیں کرتے ہیں کہ ان کا ایکسیڈنٹ کسی امیر کی گاڑی سے ہی ہو جائے، تاکہ اس کے بدلے میں ایک اچھی دیت کی رقم ہی مل جائے، بیچارے اچھی زندگی کے خواب دیکھ دیکھ کر یہ سوچ لیتے ہیں، کہ ان کی زندگی میں ان کی ذات تک اگر یہ پورا نہیں ہوتا، تو اگر وہ کسی امیر آدمی کی گاڑی کے نیچے آ کے مر جائیں گے تو شاید ان کے بچوں کو یہ اچھی دیت کی رقم مل جائے گی، ان کے بچے کچھ اچھا کھانا پینا کر لیں گے، بحریہ ٹاؤن کے چڑیا گھر اور امیوزمنٹ پارک میں چلے جائیں گے، چاہے زندگی میں ایک بار ہی سہی، کیونکہ امیوزمنٹ پارک اور بحریہ ٹاؤن کا چڑیا گھر اچھا خاصا مہنگا ہے ایک عام فیملی شاید اتنی آسانی سے افورڈ نہیں کر سکتی، ویسے تو اس کے علاوہ بھی کراچی میں بہت سارے پارک ہیں، مگر ان پارک میں اب آپ فیملی کے ساتھ بالکل نہیں جا سکتے، اس کی وجوہات ہیں، لیکن ان پر بات کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ قوم پرستی کر رہے ہیں۔اور فساد کررہے ہیں۔
فساد کی بھی اتنی اقسام ہیں، کچھ لوگ فساد کے لئے جلسے بھی کرتے ہیں، اور خوش بھی ہوتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں خوشی کی صحیح تعبیرات کا تصور بھی بدل چکا ہے، لوگ دنیا میں خوشی کے تصور سے مایوس ہو چکے ہیں اس لیے وہ دودھ کی نہروں اور 70 حوروں کے بغل میں پہنچنا ہی اصل عافیت اور خوشی محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ہر دم تیار بھی ہیں، تیاری سے یاد آیا کہ جب بھی آپ تیار ہوں تو اچھی خوشبویات ضرور لگایا کریں، ایک اور کام کا نسخہ بتاؤں کراچی میں عبدالغنی کے عطور بہت مشہور ہیں، مجھے چند برس پہلے کسی نے تحفہ دیا تو اس عطر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ عطر لگا کر آپ اپنے قرض داروں کے پاس چلے جائیں ان کا اتنا برا حال ضرور ہو جائے گا، کہ وہ آپ کو شاید آپ کا قرضہ واپس کر دیں۔ حالانکہ پاکستان میں قرضہ واپس لینا ایک ناممکن بات ہے، لیکن یہ وہ واحد نسخہ ہے جس سے اپ کا قرضہ واپس ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ امید پر ہی دنیا قائم ہے، پاکستانیوں کی کوئی اور امید پوری ہو یا نہ ہو، لیکن پاکستان میں شادی شدہ جوڑے ہر سال امید سے ضرور ہو جاتے ہیں۔ یہی پاکستانیوں کی واحد امید ہے۔ جس کی بڑھوتری یا ترقی پاکستان میں ممکن ہے، اس کے علاوہ ہم پاکستان میں کسی بھی ترقی کی امید سے مایوس ہوچکے ہیں
تادم آخر تحریر مایوسی پر ختم ہورہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا اس سے اگے میں کیا لکھوں۔
نوٹ : کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ایک بے ربط مضمون ہے حالانکہ یہی اصل زندگی کا ربط ہے۔