قدیم مسلمان فلاسفہ میں ابنِ راوندی (828–911 ) کئ فکری مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری حصے میں مادہ پرست ہوگیۓ تھے۔اس سے قبل وہ مختلف فرقوِں میں شامل رہے لیکن اس کی بے چین روح کو کہیں سکون نہ ملا۔آخرکار اس نے مادیت میں پناہ لے لی۔
ابنِ راوندی تجربیت پسند اور مادیت پسند تھے۔تجربے سے ماوراء کسی حقیقت کے وہ قائل نہیں تھے۔اس نے مذہبی عقائد اور مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) تصورات پر شدید تنقید کی۔وہ تجربہ اور عقل کو علم کا اصل ذریعہ سمجھتے تھے، نہ کہ وحی یا الہام کو۔
اس کے خیالات مسلمانوں میں الحاد کی سب سے منظم شکل تھی۔ لیکن اس کی کتابیں محفوظ نہیں رہ سکیں۔گمان غالب ہے کہ اس کی کتابوں کو اس کے مخالفین نے جلادیا ہوگا۔
ابن راوندی نے نبوّت، معجزات، اور آخرت جیسے عقائد پر سخت تنقید کی، جو کہ اس وقت کے اسلامی فلسفہ اور مذہب کے مرکزی مباحث تھے۔
ابنِ سینا، فارابی اور ابنِ رشد جیسے فلسفی زیادہ تر افلاطونی یا ارسطویی فلسفے کے زیرِ اثر تھے، جو مابعد الطبیعیاتی تصورات (مثلاً نفس، عقلِ فعّال، وجودِ واجب) کو مانتے تھے۔یہ فلاسفہ سائنس اور فلسفہ کے میدان میں عقلی سوچ رکھتے تھے، مگر وہ مکمل مادہ پرست نہیں تھے۔اس کے برعکس ابن راوندی مکمل طور پر ایک "مادیت پرست" فلسفی تھا۔اس نے اپنے عہد کے تمام مذہبی،کلامی ،صوفیانہ اور فلسفیانہ مابعد الطبیعیاتی نظاموں کو چیلنج کیا۔اس وجہ سے سب ہی مکاتب فکر حتیٰ کہ متعزلہ بھی اس کے مخالف ہوگیۓ۔اسلامی تاریخ میں انہیں ایک باغی فلسفی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ابنِ راوندی کو تقریباً تمام مسلم مکاتبِ فکر نے ملحد، زندیق اور دین دشمن کہا۔انہیں اسلامی عقائد کی بنیادوں (نبوّت، وحی، معجزہ) کو ڈھانے والا سمجھا گیا۔معتزلی عالم دین عبد الجبارالمعتزلی نے ابن راوندی کو “المرتدون” (مرتدوں) میں شامل کیاہے، اور مادیت پرستی کے حق میں اس کے دلائل کے جوابات دیےہیں۔
ابن تیمیہ نے اس کے بارے میں کہا کہ "وہ مسلمانوں میں سب سے گمراہ شخص تھا۔"
امام غزالی نے اپنی کتاب کو ابن راوندی کے نام سے آلودہ کرنے سے گریز کرتے ہوۓ اس کی فکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس قسم کی فکر رکھنے والے لوگوں کو زندیق کہا۔
ابن ندیم نے الفہرست میں اس کے خیالات کو خطرناک کہا۔
ابن راوندی کی فکر کے اہم نکات درجہ ذیل ہیں:
1. نبوّت پر تنقید
ابنِ راوندی نے پیغمبروں کی ضرورت اور ان کی سچائی پر سوال اٹھایا۔
"اگر عقل انسان کو اچھائی اور برائی کی پہچان دے سکتی ہے، تو پھر نبیوں کی کیا ضرورت ہے؟"
2. معجزات کی تردید
اس نے معجزات کو فریب یا توہم پرستی کہا، اور ان کو عقل کے خلاف سمجھا:
"معجزہ کوئی عقلی دلیل نہیں، بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جسے ہر مذہب اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔"
3. مذہبی متون اور خدائی دعوؤں پر تنقید
ابنِ راوندی نے قرآن کے "معجزاتی" ہونے کو بھی چیلنج کیا:
"اگر قرآن معجزہ ہے تو پھر ہندوؤں اور زرتشتیوں کی کتابیں بھی معجزہ ہوں گی، کیونکہ ان کے پیروکار بھی انہیں بے مثال مانتے ہیں۔"
4. آخرت، جنت و دوزخ پر شک
وہ آخرت کے عقیدے کو ایک سیاسی و سماجی کنٹرول کا ذریعہ سمجھتے تھے، نہ کہ عقلی طور پر ثابت شدہ حقیقت۔
5. فطری دنیا پر زور (Naturalism)
ابن راوندی کا جھکاؤ اس طرف تھا کہ کائنات کی وضاحت فطری قوانین (natural causes) سے کی جائے، نہ کہ غیبی طاقتوں سے۔
اس کی اکثر کتب ضائع ہو چکی ہیں ۔لیکن اس کے اقتباسات کو بعد کے علماء جیسے ابن حجرعسقلانی، ابن ندیم،اور عبد الجبّار المعتزلی نے اپنی کتابوں میں نقل کرکے اس پر تنقید کی ہے۔۔
ابنِ راوندی کاکام اپنی نوعیت میں ابو بکر الرازی کے کام سے مختلف تھا ۔ اگرچہ ان دونوں نے مذہب وروحانیت پر تنقید کی، مگر ان کے فلسفیانہ مناہج مختلف تھے۔ابوبکر رازی ریشنلسٹ(Rationalist) تھا جبکہ ابن راوندی تجربیت پسند(Empiricist) تھا۔ابوبکر رازی بھی ایک مذہب مخالف فلسفی تھا اور ابن راوندی بھی ۔لیکن رازی کے نزدیک علم کا سب سے مستند سورس عقل تھا جبکہ ابن راوندی کے نزدیک علم کا سب سے مستند سورس حواس تھے۔ان کے برعکس الکندی،فارابی ،ابن سینا اور ابن رشد کا مذہب وروحانیت کی بابت نقطہ نظر اتنا جارحانہ نہیں تھا۔وہ مذہب اور فلسفے میں تطبیق کی کوشش کرتے رہے۔اسلیۓ ابوبکر رازی اور ابن راوندی کے بنسبت ان کو زیادہ پذیرائی ملی۔