شہر بھر میں میری شہرت بطور مجسمہ ساز کسی خوشنما پھول کی معطر خوشبو کی طرح پھیل چکی تھی. جب انھوں نے مجھے سینٹ چارلس ایونیو پہ اپنی نہایت پرشکوہ اور خوبصورت عمارت میں اپنا مجسمہ بنوانے کے لئے طلب کیا، تو میں بے حد مسرور تھا.
نیو اورلینز میں سینٹ چارلس ایونیو پرانے وقتوں سے ہی ارب پتی امریکنوں کا ایک مشہور علاقہ ہے۔ اوک کے پرانے بڑے بڑے درختوں سے ڈهکی ہوئی یہ نہایت کشادہ سڑک اپنی شہرہءافاق خوبصورتی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے اور ہمیشہ کسی پرکار حسینہ کی طرح خود پہ بہت نازاں نظر آتی ہے.
ایک مجسمہ ساز کو اپنے سبجیکٹ میں ذاتی دلچسپی سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے اور صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے، ملنے والی رقم پر ہی اپنا مکمل دهیان رکھنا چاہیے۔یہ بات میں بہت اچھی طرح سے جانتا تھا مگر ان صاحب میں کچھ عجیب سی ایک خاص بات تھی۔
ہفتہ بھر تو میں انھیں اپنے سامنے بٹھا کر مٹی کے تودے سے ہی کھیلتا رہا مگر کوئی احساس، کوئی رنگ مٹی سے نکل نہیں پاتا تھا۔ سوئی سوئی سی مٹی کی ڈھیری میرے لمس سے جاگتی ہی نہیں تھی۔ وہ ادهیڑ عمر محترم اپنے اداس سے چہرے پر بے پناہ جھریاں کچھ یوں بسائے ہوئے تھے جیسے وقت نے ان کے ساتھ ہمیشہ دغا ہی کیا ہو۔ ان کی بجھی بجھی سی آنکھیں حسرتوں سے معمور تھیں۔ ان کے سر پر جھوا سے اجڑے بال عجب المناک افسانے کہتے تھے۔
یہ وہی حضرت تھے جن کا مجسمہ بنانے کے لیے مجھے طلب کیا گیا تھا۔
تب ہی ایک دن" وه محترمہ" لان میں تشریف لا کر انکے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ وہ خاتون بہاروں کی تازگی اور نوجوانی کے بانکپن کا ایک انوکھا سا امتزاج تھیں۔ افسانوی اطالوی حسن کا ایک کامل نمونہ، شہرہ آفاق مصور و مجسمہ ساز"رافیل" کی "گالیتآ" کی طرح سبک سجیلی، دل آویز اچھوتی ملکہ حسن۔۔۔
کاش میں ان کا مجسمہ بنا رہا ہوتا تو پھر شاید میرے ہاتھوں سے گندھی اس مٹی کی ڈھیری کو کسی شاہکار میں تبدیل ہوتے ہوئے اتنی دشواری ہرگز پیش نہ آتی۔
کانسی کا مجسمہ بنانا خاصہ دشوار عمل ہوتا ہے۔ اسے بنانے سے قبل پہلے چکنی مٹی کا ایک ماڈل بناتے ہیں، پھر اسے مولڈ بنا کر اس کا ایک سانچہ بنتا ہے اور آخر میں سانچے میں پگھلتی ہوئی دهات کو نہایت مشتاقی سے انڈیل کر اصل مجسمہ بنایا جاتا ہے۔
مگر میں تو ان حد سے زیادہ حسین و جمیل خاتون کو دیکھ کر خود ہی بے خودی کا مجسمہ بن چکا تھا۔
انھیں واقعی صانع فطرت نے خود اپنے ہاتھوں سے فرصت میں بیٹھ کر بنایا ہو گا!
ان صاحب کا پژمردہ، مرجھایا ہوا چہرہ اس خاتون کو دیکھتے ہی یک دم کھل اٹھا تھا۔ ان کی دھنسی ہوئی آنکھیں کسی پراسرار انداز میں چمکنے لگی تھیں۔ ان کے پچکے ہوئے رخسار یک لخت یوں ابھر آئے تھے جیسے کوئی مرجھائے ہوئے پھولوں پر ٹھنڈے پانی سے چھڑکاو کر کے انھیں دوبارہ تازگی سے معمور کر دے۔ اب مسکراہٹ کی جھلملاتی لکیروں نے گویا ان کے چہرے پر پڑی ساری جھریوں کو ڈهانپ لیا تھا۔ خوشی سے تمتماتا ہوا اور دلی مسرت کی سچی تصویر بنا یہ چہرہ اک عجب سی بہار دکھلا رہا تھا۔
مجسمہ سازی میں اک اہم نکتہ بس جذبات اور احساسات کو کسی چہرے پر اجاگر کر دینا ہی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ خصوصا" ایسے نازک احساسات جو ابالے گئے خالص دودھ کی سطح پر بالائ کی مانند ابھر کر چہرے پہ آن دمکتے ہوں۔
شاید اب یہ مجسمہ میرا شاہکار بن کر ابھرے گا۔
شاید لیو ناڈو ڈیوونچی کی مانند شہرت اپنے ہاتھ باندھے اب میری منتظر ہو گی۔
شکر خدایا۔ بل آخر میرا شاہکار مجھے مل ہی گیا۔ میری چھٹی حس میرے کانوں میں بار بار یہی سرگوشیاں کیے جا رہی تھی۔
مجھ سے مکمل بے نیاز مسرور بیٹھے وه دونوں ایک دوسرے سے شرارت میں آ کر چھیڑ خوانی کرنے لگے اور پھر آٹھ کر بچوں کی طرح اچھلتے کودتے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، قہقہے لگاتے پکڑن پکڑائ کھیلنے لگ گئے۔
"کیا یہ وہی محترم ہیں جو چند منٹ قبل لاٹھی کے سہارے بدقت ہانپتے کانپتے آئے تھے اور چلنے سے بھی معذور نظر آتے تھے؟"
میں نے انھیں بچوں کی طرح مسرور ہوتا دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔
وہ لڑکی کچھ کمسن سی لگتی تھی اور سچ مچ بے حد خوبصورت تھی۔
"براه کرم نچلے بیٹھ جائیے ورنہ میں یہ مجسمہ بنا چکا"
میں نے رسان سے کہا
اچھا۔
آج اتنا ہی کافی ہے۔
اب بس کر دیں۔ باقی کام کل"
انھوں نے متانت سے جواب دیا۔ پسینے کے قطرے انکے ماتھے پہ کسی جگنو کی مانند چمکتے تھے۔ مگر ان کی آنکھیں گویا چمکتے ہوئے سورج کی مانند روشن تھیں!
کیا میں ایسی چمکدار آنکھیں بنا پاوں گا؟
چلیے۔
کل دوپہر کے بعد پھر ملتے ہیں۔
میں شرمندہ سا ہو کر اٹھ کر چلا آیا۔
اگلے تین دن تک یہی کہانی روزانہ دہرائی جاتی رہی۔
مجسمہ دهیرے دهیرے بن رہا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ واقعی میرے ہاتھوں سے ایک شاہکار بن رہا ہے۔مجسمے کی دائیں آنکھ مکمل طور پر بن چکی تھی اور گویا سچ مچ باتیں کرتی تھی۔
ایک ارمان بھری طمانیت اور جگمگاتی ہوئی آسودگی اس نامکمل مجسمے کے چہرے سے صاف چھلکتی تھیں۔
اب صرف بائیں آنکھ اور پھڑکتے ہوئے ہونٹوں کو بنانا ہی باقی تھا۔
اگر مکمل ہو سکا تو شاید یہ شاہکار مجسمہ خودبخود بول بھی آٹھے گا۔
چوتھے دن میں زرا جلدی پہنچ گیا۔ ملازمہ نے مجھے وہیں پائیں باغ میں پہنچا دیا.
"انتظار فرمائیں صاحب۔ بزرگوار ابھی استراحت فرما رہے ہیں"
"ساری رات جاگیں گے تو یہی ہو گا نہ"
باتونی ملازمہ مٹک مٹک کر ساری بات خود سے بتانے کو سخت بے تاب تھی۔
"صاحب جی سٹھیا گئے ہیں۔ بیگم صاحبہ مہینے بھر کے لیے پیرس کیا تشریف لے گئیں، انھوں نے تو پیچھے یہ گندی ڈرامہ بازی ہی شروع کر دی"
پھر وه اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر سرگوشی کرنے لگی" اور یہ محترمہ بھی پتہ ہے کون ہیں بھلا ؟گھٹیا طوائفوں سے بھی بدتر۔ بھولے بادشاہ صاحب کو اپنے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی تھیں۔
ڈرامہ ہیں ڈرامہ"
وہ اپنے کولہے پہ ہاتھ دھرے بےتکان اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
میرا بے اختیار جی یہ چاہا کہ اسکے منہ پہ کس کے ایک زوردار تھپٹر مار دوں۔اتنی معصوم ہستی کے خلاف ایسی ہرزہ گوئ!
"صاب جی نے کہا ہے کہ آپ اب کل ہی تشریف لائیے گا۔ آج حضور کا جی کچھ ماندہ ہے"
دوسری ملازمہ نے ترنت آ کر کہا۔
اگلے روز مجھے نیو یارک میوزیم کے اچانک بلاوے پر ایک سمپوزیم میں شرکت کے لئے اچانک وہاں جانا پڑ گیا۔ میری واپسی ایک ہفتے کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔ اپنے شاہکار کو مکمل نہ کر پانے کا قلق لئے میں جلد از جلد نیویارک چلا گیا تھا اور جلد واپس لوٹنا چاہتا تھا مگر پھر مزید کاموں میں پھنس کر رہ گیا تھا۔
واپسی سے اگلے روز ہی بےتابی سے ان محترم کے محل جا پہنچا۔
نامکمل مجسمے کو باغ میں فٹ کر کے اپنے سارے سامان اور اوزار نکالے۔
نجانے کیوں آج یہ باغ کچھ اجڑا اجڑا سا لگ رہا تھا۔ مجھے کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہاں پر سچ مچ اچانک کوئی آسمانی بجلی گری ہو۔
وہی ملازمہ اپنی باچھیں کھلائے مسکراتی اور مٹکتی ہوئ آن پہنچی..
" صاب جی نے آپ کو اندر بلایا ہے"
" سارا ڈرامہ ختم ہو گیا جی۔ مالکن صاحبہ مقررہ وقت سے پہلے ہی پیرس سے واپس آ گئیں"
مینا کاری سے مزیں ایک نہایت خوبصورت سی راہداری سے گزر کر ہم ایک بہت اونچی چھت والے شاندار روشن کمرے میں آن پہنچے جو اصلی جرمن کرسٹل کے بڑے سے فانوس کی چکا چوند روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ کمخواب کے قیمتی پردوں سے ڈهکے چھپر کھٹ پہ وہ محترم ایک لاش کی صورت ڈهیر تھے۔ بجلی کی سی عقابی نظروں والی بیگم صاحبہ بھی چرمی صوفے پر براجمان تھیں۔ ان دونوں کی خدمت میں آداب پیش کرنے کے ساتھ چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد میں آگے بڑھا۔
سوجی ہوئ چندهی سی آنکھیں، جیسے کسی نے سوکھی ریت پر تھوک دیا ہو۔
ان مردہ ہوتی سرد غمناک آنکھوں میں عجیب سی بےبسی رچ چکی تھی۔ ان کا جھریوں سے اٹا ٹوٹ پٹا ہوا مرجھایا چہرہ نہایت بھیانک لگ رہا تھا۔ بجھ کر خاک میں ملتی راکھ کی سی خاموش نظریں دیوار پر جمی تھیں۔
ان کے سر پر کھردرے بال مزید کچھ کم کم سے دکھ رہے تھے۔
کسی کانچ کے ببوے کی طرح ٹوٹ کر بکھرے ہوئے
یہ حضرت کون ہیں؟
یہ وہ محترم تو ہرگز نہیں ہیں جن کا مجسمہ میں بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
کیا میں اپنے شاہکار کو کسی طرح یوں مرنے سے بچا سکتا ہوں؟
وہ دوسری آنکھ جو ابھی مجسمے میں ادھوری تھی، اپنی چمک کہاں سے لائے گی؟
ان چومنے کی حسرت لیے ترستے ہوئے ہونٹوں میں چھپی ہوئی زندگی کی تشنہ پیاس۔۔۔
کیا یہ پیاس اب مجھ سے بن پائے گی؟
وہاں سے سرپٹ بھاگتا ہوا، گلیوں میں گرتا پڑتا، دیوانوں کی طرح چیختا چلاتا ہوا میں نجانے کس طرح اپنی گلی میں واپس آیا ہوں تو پھر گھر پہنچ کر ہی دم لیا ہے۔