مذہبی مارکیٹنگ ۔۔ ثمر حفیظ

ہمارے ہاں مارکیٹگ کے سب سے بہترین طریقوں میں سے ایک مذہبی ٹھیلہ لگانا ہے ۔

آپکو مذہبی ٹھیلے والے ہر جگہ ملینگے ۔ کریانہ مارکیٹس میں االلّٰہ رسول کے نام پر بنی ملاوٹ بھرے اجناس کی دکانیں ۔ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری پر یقین دلاتا دکاندار، تسبیح کے دانے پروتا بے ایمان پراپرٹی ڈیلر ،سٹیج پر قرآنی آیتیں پڑھ کر جھوٹے وعدے کرتے لیڈرز، دوپٹہ لےکر فساد پھیلاتی ہوئی عورتیں ،مظلوم کو ظلم پر صبر کرواتے ٹوپی پہنے اسلام کے ٹھیکیدار ۔ کسی کا ظاہری حلیہ دیکھ کر اسکا نماز روزے کا حساب لگاتی مذہبی آنکھیں ۔

 مطلب کہاں کہاں نہیں ملے گا آپکو یہ بازار ۔پھر چاہے بات مذہب گھمانے کی ہو یا نیا بنانے کی ہو آپکو ہر بندہ اپنا ایک الگ ٹھیلہ لگائے کھڑا ملیگا۔

لکھتے لکھتے مجھے ایک واقعہ یاد آیا ۔ ہمارے علاقے میں کسی آدمی نے ایک تعلیمی ادارہ کھولا ۔ سکول لوکل ہی تھا لیکن اسنے کیمپس اچھا بنایا ۔اسنے پہلی اوپننگ پر سب ممذہبی رہنماؤں کو بلایا، انکو اچھا کھانا کھلایا ۔ اُنہوہنے خطاب وغیرہ کیا اور پھر محفل نعت ہوئی ۔ نتیجتاً انکے اس چھوٹے سے علاقے میں پہلے ہی سال ایک ہزار ایڈمیشنز ہوئے (بتاتی چلوں اب تک کی ہائسٹ ایڈمشن ۵۰۰ تھے اوران صاحب کا سکول بیلو ایوریج تھا )۔ اب جب پہلے سال رزلٹ کی بات آئی تو سارے چاکے کھل گئے ۔ انکمپٹینٹ فیکلٹی اور ڈیزورگنائزڈ سسٹم آپکو کوئی ریزلٹ نہیں دے سکتا بھلے آپ بلڈنگ جتنی مرضی اچھی بنا لیں ۔ خیر انہونے پھر سے وہی پارٹی کرلی مذہبی لوگوں کو بلایا اور مارکیٹنگ کا ترلا لیا ۔ اب مذہبی رہنماؤں نے اپنے پاس آنے والے لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ چونکہ وہ زیادہ وقت قرآن سکھانے میں لگاتا ہے اسلئے رزلٹ اوورآ ل ایسا آیا۔ اس سال سارا رزلٹ اچھا آئیگا ۔ میں اس ادارے کے بارے میں کافی جانتی ہوں تو مجھے پتہ ہے سوائے بلڈنگ کے کسی چیز میں دم نہیں ہے ۔خیر بھائی صاحب نے مذہب کارڈ پر خوب کھیلا ۔ اور آج تک کھیل رہے ہیں اور پیسہ چھاپ رہے ہیں ۔ اور یہ صرف ایک مثال نہیں ہے ہردوسرا بندہ یہی کچھ کر رہا ہے اور ساتھ یہ کہہ رہا ہے میں ایسا نہیں ہوں ۔

جس طر ح تماشہ لگانے والے کے ساتھ ساتھ دیکھتی آنکھوں کا بھی اتنا ہی قصور ہوتا ہے۔ بالکل اسی طر ح مذہب کا ٹھیلہ لگانے والوں کے ساتھ ساتھ خریداروں کا بھی اتنا ہی قصور ہے ۔ ہم خریدتے ہیں تو وہ بیچتے ہیں ۔ ہم نے ہی انکو یہ راہ دکھایا کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے تو دل کھول کے مذہب کی منڈی لگاؤ اور اسکی اوڑھ میں جو مرضی منجھن بیچو ۔ تو اب مزے بھی ہم لوٹ رہے ہیں ۔

 ہمنے اسلام کو صرف ظاہری حلیے کا دین بنا دیا ہے۔ عورتوں میں دوپٹہ اوڑھنے والی ،برقع پہننے والی ہی بہترین خواتین کہلائینگی بھلا انکو زندگی جتنی مرضی سیکولر طریقوں سے بھری ہو ۔اِسی طر ح مردوں میں داڑھی والے مرد ، ٹخنوں کے اوپر شلوار رکھ کر چلنے والے مرد پاپولر ہیں ۔

تو اب زرا سوچیں کہ اسلام کو، پردے کو ،داڑھی کو ،برقعے کو کس نے بدنام کیا ہے ؟ کسنے اسکا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ؟ تو جواب ہے ہم سب کی غلط سوچ نے ۔

ہماری فوری طور پر مت مارنی ہو یا ہمیں جنگلی بنانا ہو تو بس مذہب کا کوئی ایسا نقطہ اٹھا دیں جو عقل کی بات کرتا ہو اور دیکھیں تماشہ ہماری بے عقلی کا ۔ 

ہماری اکثریت نے دین اُنسے پڑھا ہے جنکو خود سہی سے اسکا علم نہیں تھا یا پھر مذہب کو اپنے حساب سے مولڈ کر کے ہمیں پڑھایا اور ہم آج تک اسی بتی کے پیچھے لگے ہیں ۔ اپنی طرف سے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ خود بھی تحقیق کر لیں ۔جو ٹائم لوگوں کو فتوے دینے میں گزارتے ہیں وہ صحیح اسلام سیکھنے میں لگا دیں ۔

یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں دکھاوے کا اسلام نہ صرف پسند بھی کیا جاتا ہے بلکہ یہ بہت تگڑا بزنس بھی ہے ۔

اور دماغ بند ہونے کی حالت یہ ہے کہ جس کسی بندے کی ظاہری حالت ہمارے بنائے ہوئے اسلامی طریقوں کے مطابق نہیں ہے ، وہ گالیوں کاور ججمنٹ کا مستحق ہے ۔

ہر داڑھی والا نمازی ہے ہر پینٹ شرٹ والا کافر ۔ ہر دوپٹے والی حاجن ہے اور بغیر دوپٹے والی کافر ۔

خیر جب مذہب اان نکتوں پر سٹک ہو جائیں کہ اپنے گناہوں میں گنجائش بری نہ لگے اور دوسروں کے گناہ بہت بڑے لگیں تو معاشرے میں فساد ، انتشار اور مذہبی ٹھیلے عام ہوجاتے ہیں۔یقین نہ آئے تو اپنے ارد گرد دیکھیں اور لوگوں کو انکی اوورل پرسنیلٹی کی وجہ سے پہچانیں نہ کہ انکے دھوکے سے۔
Tags

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !